Topics

قرآ ن کا نفرنس


صدر محترم معزز اراکین انجمن اور سامعین کرام !

السلام و علیکم

 

میرے مقا لے کا موضوع ہے "قرآن پاک میں قصص الانبیاء اور اللہ تعالی کے بیان کردہ ان قصوں میں حکمت اور روحانی علوم۔۔۔۔ "

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس میں کو ئی سورت ، کوئی آیا ت، کو ئی نقطہ مفہوم و معنی سے خالی نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں انبیائے کرام کے جو قصے بیا ن کیے ہیں وہ کو ئی کہا نی بیان نہیں کی ہے کہ کہا نی سنا کر اللہ ہمیں مرعوب کرے ۔ اللہ تعالی کو ہمیں مرعوب کر نے کی کیا ضرورت ہے ۔ ہما ری حیثیت اور حقیقت ہی کیا ہے ۔۔۔ اللہ کے علوم لا متنا ہی ہیں ۔ اللہ کا منشا یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر خود بھی قدم بڑھا ئیں اور اللہ کی نعمتوں کے معمور خزانوں سے فائدہ اٹھا ئیں۔ قرآن پا ک میں انبیاء سے متعلق جتنے بھی واقعات بیان ہو ئے ہیں ان میں ہمارےلیے اور بنی نوع انسا نی کے لیے ہدایت اور روشنی ہے۔ آج کی نشست میں ہم حضرت موسیؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے واقعات میں روحانی نقطہ نظر سے اللہ تعالی کی حکمت بیان کریں گے ۔

حضر ت موسیؑ اپنے اہل و عیا ل سمیت بکریاں چراتے چراتے جب مدین سے بہت دورنکل گئے تو سردی کافی بڑھ گئی۔ سردی کی شدت اور اس سے بچا ؤکے لیے انہیں آ گ کی ضرورت پیش آئی۔ رات کے وقت جس جگہ قیا م تھا وہاں سامنے کوہ سینہ کا سلسلہ نظر آرہا تھا ۔ حضرت موسی ؑ نے چقماق استعمال کیا مگر سخت سردی کی بناء پر چقماق سے چنگاری نمودار نہیں ہوئی ۔ وادی ایمن کی طرف نظر اٹھی تو حضرت موسی ؑ کو چمکتا ہوا شعلہ نظر آیا بیوی سے کہا تم یہاں ٹھرو میں آگ لے آوٗں۔

وادی ایمن میں پہنچے تو دیکھا کہ ایک درخت پر روشنی ہے ۔ مگر یہ روشنی نہ درخت کو جلاتی ہے اور نہ بجھتی ہے ۔ حضرت موسی ؑ جیسے جیسے آگے بڑھے یہ روشنی ان سے دور ہوتی چلی گئی۔ یہ دیکھ کر حضرت موسی ؑ کے دل میں خوف پیداہوااور انہوں نے ارادہ کیاکہ واپس چلے جا ئیں۔ جوں ہی وہ واپس جا نے کے لیے مڑے آگ قریب آگئی ۔ حضرت موسی رک گئے آواز آئی " اے موسی! میں ہوں ، میں اللہ رب العالمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس موسی اس کے قریب آئے تو پکارےگئے۔" اے موسی! میں ہوں تیرا پروردگار، اپنے جوتے اتاردے تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ میں نے تجھے اپنی رسالت کے لیے چن لیا ہے ، پس جو کچھ وحی کی جا تی ہے اس کو کان لگاکر سن !"

خدا کے فضل کا موسیٰ سے پوچھئے احوال

کہ آ گ لینے کو جا ئیں پیمبر ی مل جا ئے

آواز کو سنا اور ان کو معلوم ہوا کہ ان کے نصیب میں وہ دولت آگئی ہے  جو انسا نی شر ف کا طرہ امتیا ز ہے تو والہانہ فریفتگی میں محو حیرت کھڑے رہ گئے۔

پھر پوچھا گیا "اے مو سیٰ! تیرے داہنے ہا تھ میں کیا ہے ؟"

موسیٰ نے کہا" یہ میری لا ٹھی ہے ۔ اس سے میں اپنی بکریوں کے لیے پتے چھاڑتا ہوں اور اس سے اپنی دوسری ضروریا ت بھی پوری کرتا ہوں ۔"

اللہ تعالیٰ نے ارشا د فرما یا " موسیٰ ! اپنی اس لا ٹھی کو زمین پر ڈال دے۔"

موسی ٰ نے لا ٹھی کو زمین پر ڈال دیا ۔ پس نا گاہ وہ اژدھا بن کر دوڑنے لگا۔ موسیٰ گھبرا گئے ۔ پیٹھ موڑ کر چلے ہی تھے کہ آواز آئی :

موسیٰ! اس کو پکڑ لو اور خوف نہ کھا ؤہم اس کو اصلی حالت پر لوٹا دیں گے۔"

موسیٰ نے بے خو ف ہو کر اژدھے کے منہ پر ہاتھ ڈال دیا اور فوراً ہی وہ اژدھا لا ٹھی بن گیا۔ اب موسی ٰ کو دوبا رہ پکا را گیا :

"اپنے ہا تھ کو گریبا ن میں لے جا کر بغل سے مس کر اور با ہر نکال، تیرا ہا تھ روشن ہو جا ئے گا۔ " اور فرما یا " یہ دوروشن نشانیاں ہیں تیرے رب کی طر ف سے فرعون اور اس کے درباریوں کے سامنے پیش کر نے کے لیے ۔ وہ بڑے نا فرمان لوگ ہیں ۔ "

حضر ت موسیٰ نے عرض کیا " میں تو ان کا ایک آدمی قتل کر چکا ہوں ۔ ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے ما ر ڈالیں گے اور میرا بھا ئی ہارون مجھ سے زیادہ زوربیان رکھتا ہے ۔ اسے میرے ساتھ مددگا ر کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تائید کرے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لو گ مجھے جھٹلائیں گے ۔ "

ارشا د با ری تعالیٰ ہوا

"ہم تیرے بھا ئی کی اعانت سے تیرا ہا تھ مضبوط کریں گے  اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہا را کچھ نہ بگاڑ سکیں گے ۔ ہماری نشانیاں تمہار ے پا س ہیں ۔ تم اور تمہار ے پیروکا ر فرعون اور اس کی جماعت پر غالب رہیں گے ۔ "

حضرت موسیٰ منصب نبوت سے سرفراز ، کلا م ربا نی سے فیضیاب ، تبلیغ کی دعوت میں کامیا بی و کامرانی کا مژدہ پا کر مقدس وادی سے اترے اور اپنی بیوی کو لے کر مصر روانہ ہو گئے ۔ مصر پہنچے تو حضر ت ہا رون ؑ کو اللہ تعالیٰ کی طر ف سے منصب رسالت عطا ہو چکا تھا ۔

حضر ت موسی ٰ ؑ اور حضر ت ہا رون ؑ نے با ہم مشورت سے طے کیا کہ خدا ئے تعالیٰ کا حکم فر عو ن کو سنانا چا ہیے۔ غر ض دونوں بھا ئی فرعون کے دربا ر میں پہنچے اور بے خو ف و خطر اندر داخل ہو ئے ۔ فر عون کے تخت کے قریب پہنچ کر حضر ت موسی ٰؑ اور حضر ت ہا رون ؑ نے اپنے آنے کی وجہ بیا ن کی اور فرما یا۔"

" اے فرعون ! ہم کو خدا نے اپنا پیغمبر اور رسول بنا کر تیرے پا س بھیجا ہے ، ہم تجھ سے دو باتیں چاہتے ہیں ۔ پہلی یہ کہ خدا پر یقین لے آ اور کسی کو اس کا شریک نہ بنا ۔ اور دوسری یہ کہ ظلم سے باز آجا۔ اور بنی اسرائیل کو اپنی غلا می سے آزاد کر دے ۔ خدا نے ہمیں دو زبردست نشا نیاں عطا فرما ئی ہیں ۔ "

فرعو ن نے جب یہ سنا تو کہا ۔" مو سی ٰ! آج تو پیغمبر بن کر میرے سامنے بنی اسرائیل کی رہا ئی کا مطالبہ کرتا ہے ۔ وہ دن بھول گیا جب تونے میرے ہی گھر میں پرورش پا ئی اور اسی گھر میں بچپن گزارا۔ اور کیا تو یہ بھی بھو ل گیا کہ تو نے ایک مصر ی کو قتل کیا اور یہاں سے بھا گ گیا۔

حضر ت موسی ی ٰ ؑ نے فرمایا " یہ صحیح ہے کہ میں نے تیرے گھر میں پرورش پا ئی اور ایک مدت تک شا ہی محل میں رہا۔ مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ مجھ سے نادانستگی میں ایک شخص قتل ہو گیا  لیکن کیا یہ عدل و انصاف کا تقاضہ ہے کہ مجھے ایک اسرائیلی کی پرورش کا بدلہ یہ قرار پا ئے کہ تو بنی اسرائیل کی تما م قو م کو غلا م بنا ئے رکھے ؟"

فرعون نے اپنی شیطنت سے بھر ی سرشت کے مطابق حضر ت مو سیٰ ؑ کو پیغمبر خدا ما ننے سے انکا ر کر دیا ۔ ان کے تحقیر کی اور ان سے بحث شروع کردی ۔ ان کو خو ف زدہ کر نے کی کوشش کی مگر حضر ت مو سی ٰ ؑ پر کو ئی اثر نہ ہوا ۔ انہوں نے فرما یا " تونے جو کچھ کہا میر ی شخصیت اور ذات سے متعلق ہیں لیکن کیا یہ باتیں اس با ت  کا جواز پیدا کر تی ہیں کہ تو پو رے بنی اسرا ئیل کو غلا م بنا لے ۔"

حضر ت موسی ٰؑ نے جب خدا ئے واحد کی پر ستش کی دعوت دی اور دیوتاوٗں کی پو جا کے خلا ف آواز اٹھا ئی اور فرما یا إِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ تو فر عون نے کہا " مو سی ٰ ! تو یہ نئی با ت کیا سنا تا ہے ، کیا میرے علا وہ بھی کو ئی رب ہے جس کوتو رب العالمین کہتا ہے ؟ اور درباریوں کی طر ف مخا طب ہو کر تعجب اور حیر ت کا اظہا ر کر تے ہوئے کہا۔"کیا تم سنتے ہو؟ یہ کیسی عجیب با ت کہہ رہا ہے ! مجھے ایسا معلو م ہوتا ہے کہ خو د کو پیغمبر اور رسول کہتا ہے اور پھر حضر ت مو سی ٰؑ سے مخا طب ہو کر کہا " اگر تو نے میرے سوا ء کسی کو معبود بنا یا تو میں تجھے ضرور قید کر دوں گا۔ حضر ت مو سی ٰ ؑ نے کہا " اگر میں تجھے اپنے رب کی نشا نیاں دکھا دوں تب بھی تو مجھ کو قید کرے گا ؟"

فر عو ن نے کہا ۔" اگر تو سچا ہے تو مجھے نشا نیاں دکھا  ۔ "

حضر ت مو سی ٰ ؑ  آگے بڑھے اور بھر ے دربا ر  میں فر عون کے سامنے اپنی لا ٹھی کو زمین پر ڈال دیا ۔ اسی وقت اس نے اژدھے کی شکل اختیا ر کر لی ۔ پھر حضر ت مو سی ٰ ؑ نے اپنے ہا تھ کو گریبان میں ڈال کر با ہر نکالا تو وہ ایک روشن ستار ے کی طر ح چمک رہا تھا ۔

فر عو ن کے دربا ریوں نے جب اس طر ح ایک اسرا ئیلی  کے ہا تھو ں اپنی قوم کے با دشا ہ کی شکست کو دیکھا تو وہ جھنجھلا کر کہنے لگے کہ بلاشبہ یہ ایک بڑ ا ما ہر جا دوگر ہے اور اس نے یہ سب ڈھونگ اس لیے رچا یا ہے کہ تم پر غالب آکر تم کو تمہا ری سرزمین مصر سے با ہر نکال دے ۔ ہم کو سوچنا ہے کہ کیا کر نا چا ہیے ۔ با لآخر فرعون اور اس کے دربا ریوں کے با ہمی مشوروں سے یہ طے پا یا کہ مملکت مصر کے تما م ما ہر جادوگروں کو دارلسلطنت میں جمع کیا جا ئے تا کہ وہ حضر ت مو سی ٰؑ کا مقابلہ کریں ۔ اس فیصلے کے بعد فرعون نے حضر ت موسیٰؑ سے کہا کہ۔ " موسیٰ ہم اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ تو ہم کو سرزمین مصر سے بیدخل کرنا چا ہتا ہے لہذا اب تیرے اور ہما رے درمیا ن مقا بلے کے دن کا معا ہدہ ہونا چاہیے ۔

حق و با طل کا معرکہ

یو م جشن آپہنچا میدا ن میں فرعو ن تما م شاہانہ کر وفر کے ساتھ تخت نشین ہے لا کھوں کا مجمع ہے ۔ ایک جانب مملکت مصر کے مشہو ر جادوگروں کا گروہ اپنے سحر کے لوازما ت کے ساتھ کھڑا ہے اور دوسری جا نب خدا کے رسول ، حق کے پیغمبر ، سچا ئی اور راستی کے پیکر حضر ت موسی ٰؑ اور حضرت ہا رون ؑ کھڑے ہیں ۔ فرعون بہت مسرور اور شاداں ہے ۔ اسے یقین ہے  ساحرین ان دونو ں بھا ئیوں کو شکست دے دیں گے ۔ وہ سا حروں کی حو صلہ افزا ئی کر رہا ہے ۔ انعا م و اکرام کا لالچ دے رہا ہے ۔ ساحرین کو بھی اپنی کا میا بی کا یقین ہے اور انعا م کے حصو ل کے تصور سے نہا یت مسرور اور خوش ہیں ۔

حضر ت موسی ٰ ؑ تقریر کرنے کھڑے ہو تے ہیں تو مجمعے پر سنا ٹا چھا جا تا ہے ۔ آپ فرما تے ہیں کہ تمہا ری حالت پر سخت افسو س ہے ۔ تم کیا کر رہے ہو ۔ ہم کو جا دوگر کہہ کر خدا پر جھوٹا الزا م نہ لگا ؤ۔ ڈر ہے خدا تم کو اس بہتا ن تراشی کی سزا  میں نیست و نا بو د نہ کر دے  کیونکہ جس کسی نے خدا پر بہتا ن با ندھا وہ نا مرا د ہی رہا ۔ "

جادوگر آگے بڑھ کر حضر ت مو سی ٰؑ سے کہتے ہیں " موسیٰ! ان باتوں کو چھوڑو اور یہ بتا ؤکہ ابتدا تیری طر ف سے ہو گی یا ہم پہل کریں ؟"

حضرت موسی ٰ نے فرما یا "پہل تمہا ری طر ف سے ہو گی اور تم اپنے کما ل فن کی پو ری پو ری حسر ت نکال لو ۔" چنا چہ ساحروں نے اپنی رسیاں ، بان اور لا ٹھیاں زمین پر پھینک دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان میں حر کت پیدا ہو ئی اور سانپ اور اژدھے کی شکل اختیا ر کر کے دوڑنا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ پو را میدا ن ان سے بھر گیا۔

حضر ت مو سی ٰ نے جب یہ حال دیکھا تو ان کو تردد ہوا ۔ فوراً! وحی نا زل ہو ئی " موسیٰ! خو ف نہ کھا ؤ۔ ہما را وعدہ ہے کہ تم ہی غالب رہو گے ۔ اپنی لا ٹھی زمین پر ڈال دو۔ "

حضر ت موسی ٰ ؑ نے جو نہی لا ٹھی کو زمین پر ڈالا وہ ایک بڑا اژدھا بن گئی اور اس نے ساحروں کے تما م شعبدوں یعنی ان گنت سانپوں اور اژدھوں کو نگل لیا اور میدا ن صاف ہو گیا۔

حکمت

اللہ تعالیٰ نے قر آن پا ک میں کو ئی تذکرہ ایسا نہیں کیا جو محض کہا نی یاتاریخ ہو جو کچھ ارشا دکیا ہے اس کے پس پر دہ نو ع انسا نی کے لیے ایک حکمت ہے ۔ مثلا ً فر عو ن کے زما نہ میں مصر کے رہنے والے بنی اسرا ئیل کی عورتو ں سے ، مردوں سے اور بچوں سے خدمتیں لیتے تھے لیکن ان کے رہنے کے لیے ایسی جگہ مقرر کی تھی جہا ں کو ڑیا ں پڑتی تھیں ۔ تنگ دستی کا یہ عالم تھا کہ انہیں روٹی تک میسر نہ تھی ۔ کپڑا پھٹا پرا نا انہی مصریوں سے مل جا تا تھا انہیں اس با ت کی بھی اجا زت نہ تھی کہ وہ اپنی مرضی سے شہر میں داخل ہو سکیں  بجز ان اوقات کے جس میں وہ مصریوں کی خدمت کر تے تھے ۔ ایک طر ف بنی اسرا ئیل کی یہ حالت تھی اور دوسری طر ف مصریوں کی شان و شوکت کا یہ حال تھا کہ آج تک لوگوں کے پیش نظر ہے ۔ ان کے وہ کما لا ت ، ان کا وہ فن اور ان کے جادوگروں کی عظمت اس با ت سے ظا ہر ہو تی ہے کہ آج بھی ان کی یا دگاریں اور ان کے جادو کے اثرات فرا عین کے مقا بر سے نما یاں ہیں ۔

جو تختیا ں قبطی زبان میں لکھی ہو ئی ملی ہیں ان کو پڑھنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فر عو ن اور اس کی اولا د نے اپنے مقبر ون کو بنا نے میں ایسا فن استعما ل کیا جو کمال کے درجہ تک پہنچ جا تا ہے ۔ انہوں نے تختیوں پر لکھ دیا تھا " اگر ہما ری کو ئی چیز خراب کی گئی یا کسی نے ہا تھ لگا یا یا کو ئی سا ما ن چرایا تو تبا ہ و بربا د ہو جا ئے گا۔ اس قسم کے حا لا ت پیش آتے رہے ہیں کہ جس زما نہ میں بھی مقبر وں کو کھو لا گیا اس کا م میں پیش پیش لوگ اور ان کے خا ندا ن تبا ہ و بر با د ہو گئے ۔ آج بھی ان کے فن اور ان کے جا دو میں اثر موجو دہے اور ان کی لکھی ہو ئی تحریر کے مطابق عمل درآمد ہو تا ہے ۔

اندازہ لگا ئیے کہ ایک طر ف غر بت زدہ اور اچھوت قوم اور دوسری طر ف فرعون اور اس کا جاہ و جلا ل اور وہ جا دوگر جو پیغمبر کے مقابلے میں آگئے۔

بظاہر اگر کسی شخص کو بنی اسرائیل اور فرعون کے حالات بتائے جائیں تو وہ کیسے یقین کرے گا کہ بنی اسرائیل کے لوگ فاتح ہوئے۔ لیکن اللہ تعالی نے ایک طرف ان کو سر بلند کیا اور دوسری طرف فرعون کو قعرمذلت میں پھینک دیا۔ مقصد صرف اتنا ہے کہ لوگ اس کو محض کہانی یا تاریخ سمجھ کر نہ پڑھیں بلکہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ پر غور کریں جو نوع انسانی کے لیے راہ ہدایت ہے۔ فراعین کے زمانہ کے علوم اور کمال آج بھی لوگوں کے سامنے ہیں۔ یہ علوم اتنے کہاں سے ملے ؟ ظاہر ہے کہ یہ علوم بھی انہیں اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت ہوئے اللہ کا کرم دیکھیے کہ اس نے ہماری زمین پر ایسے آدمی بنائے جنہوں نے اس قسم کے کمرے وضع کیے جس میں ممی رکھی گئی اور وہ ممی آج تک ویسی کی ویسی موجود ہے۔ ایسے زبردست علوم و فنون کے ماہر اور شان و شوکت کے حامل لوگوں کو بنی اسرائیل جیسے خستہ حال لوگوں نے ملیامیٹ کردیا ۔

فراعین مصرکے مقبروں کا ایک کمال یہ ہے کہ کسی ایک مقبرے میں جتنے کمرے ہیں وہ نہ چوکور ہیں اور نہ گول بلکہ ایک خاص وضع کی ایجاد ہیں۔ وہ کمرے جو ممی کی حفاظت کرتے ہیں انہی آدمیوں کے بنائے ہوئے ہیں جن کو اللہ نے تخلیق کیا۔ اور علم سے نوازا۔ اس علم کے ذریعہ انہوں نے مقبرے تعمیر کیے۔ آپ ایک طرف ان کے حال پر اللہ کا کرم دیکھیے اور دوسری طرف اس قوم کی سرکشی ملاحظہ کیجئے جس کو ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی فرعونیت کہا جاتا ہے ۔ غور طلب یہ ہے کہ ان کی نگاہوں پر اس ہی عقل نے جس پر مصریوں کا تکیہ تھا اور جس عقل سے مصر کو سربلندی اور تہذیب حاصل تھی وہی عقل ان کے لئے گمراہی کا سبب بن گئی اور نتیجہ میں انہوں نے اللہ تعالی کو ناراض کر دیا ۔ یہ ناراضگی ان کے اوپر عذاب در عذاب بن کر نازل ہوئی اور اللہ تعالی نے  انہیں اس قوم کے ذریعہ عذاب میں مبتلا کر دیا جو خستہ حال، کوڑیوں  پر رہنے والی، ننگی، بھوکی اور اچھوت قوم تھی۔۔۔۔۔۔۔ ایسی قوم جس کا نہ کوئی معیار زندگی تھا ، نہ اس کے پاس کوئی طاقت تھی اور نہ ہی وہ مصریوں کی طرح علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے۔

بنی اسرائیل میں اللہ تعالی نے ایک شخص کو پیدا کر دیا اس اور اس شخص نے مصریوں کا تختہ الٹ دیا۔ یہ بھی فکر طلب ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے پرورش بھی فرعون کے گھر میں پائی۔ اللہ تعالی نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کے دماغوں کو بیکار  کر دیا اور اس بات کو چھپا لیا کہ یہ بچہ بنی اسرائیل کا ہے۔ اہل فن، ذہین اور یکتائے روزگار ساحروں کی نگاہوں سے بھی وہ بچہ پوشیدہ رہا۔ یہ دوسرا پردہ تھا جو اللہ تعالی نے ان کی نگاہوں پر ڈال دیا۔ 

کیا آج وہ اللہ ایسا کرنے پر قادر نہیں ہے؟ یا وہ اللہ بدل گیا ہے؟  یا وہ اللہ پردہ کے اندر نہیں دیکھتا یا آج کوئی انسان ہے جو اللہ کے بنائے ہوئے پردوں میں جھانک سکے؟ حضرت موسی علیہ السلام کےان معجزات پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ اللہ تعالی جن چیزوں کو لوگوں کی نظر سے چھپا دیتا ہے وہی چیزیں سرکش لوگوں کے لئے عذاب بن جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ آج کا دور بھی علوم و فنون اور عقل کا دور ہے اور یہ علوم و فنون اور عقل انسان کے لئے ایک آزمائش اور ابتلا بن گئی ہے جیسا کہ مصریوں کے لئے ان کے علم و فنون اور عقل عذاب بن گئی تھی ۔آج کےدن علم و فنون اور عقل کا تذکرہ عام ہے اس پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عقل جس میں اللہ کے ساتھ کفر شامل نہ ہو اور روحانی قدریں نہ ہوں وہ انسانوں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: 

خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ   یعنی مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

 یہ تذکرہ ان لوگوں کا ہے جو ہدایت سے محروم ہیں یعنی جن کے دل  شکوک و شبہات سے بھرے ہوئے ہیں۔ اور جو علوم و فنون اور عقل پر تکیہ کرتے ہیں۔ ایسی عقل جس کو یہ پتا نہیں کہ ایک لمحہ کے بعد ہمارے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اللہ تعالی کے قانون کے مطابق ہدایت یافتہ وہ لوگ ہیں جن کا یقین غیب پر قائم ہے۔ اور جو قائم کرتے ہیں صلوۃ اور اللہ تعالی کی طرف سے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں قرآن پاک پر اور ان کتابوں پر جو قرآن سے پہلے نازل ہوئیں اور یوم آخرت پر ۔

سائنس کی ترقی کے اس دور میں طرز فکر کے لیے  دو اصطلاحیں وضع کی گئیں۔ایک کا نام فکر جدید اور دوسری کا نام فکر قدیم رکھا گیا۔ فکر جدید سے مراد یہ ہے کہ وہ باتیں جو عقل و شعور کے احاطہ میں آسکیں  اور جو علم ،عقل و شعور کے دائرے میں نہیں آتے اور جن کے رموز و نکات واضح نہیں ہوتے اس طرز کا نام فکر قدیم ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ علم حصولی کے ذریعہ جو فہم پیدا ہوئی اس کا نام فکر جدید رکھا گیا اوروہ فہم و ادراک جو اس علم حصولی کے دائرہ کار سے باہر ہے یعنی ایسی بات جو عقل کے دائرہ میں نہ آئے وہ فکر قدیم قرار پائی ۔ ہمارے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کے علوم و فنون کو چھوڑ کر جدید دور کے علمائے فن کے رموز و نکات کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ فکر جدید کی نت نئی ترقیوں نے ہم مسلمانوں کو بھی اس ہی عقل کی دلدل میں لا پھینکا ہے جس میں فراعین مصر کے علماء گرفتار بلا تھے۔ آج کے لاسکی دور میں فاصلے مٹ گئے، آواز ہزاروں میل کو محیط ہو گئی اور اس کی علمی توجیہہ بھی ہمارے سامنے آئی وہ یہ کہ آواز کہ قطر بہت چھوٹے اوربہت بڑے ہوتے ہیں جن کو ویو لینگتھ (WAVE LENGTH) کا نام دیا گیا۔

 سائنسدانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ۴۰۰ قطر سے نیچے اور ۱۲۰۰ قطر سے اوپر کی آوازیں آدمی نہیں سن سکتا لیکن یہ آوازیں برقی رو کے ذریعہ سننا ممکن ہے۔  ہم جب اپنے اسلاف  کی طرف نظر اٹھاتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آجاتی ہے کہ یہ آوازیں برقی رو یا آلہٗ سماعت کے بغیر بھی سنی جا سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ میں خطبہ دے رہے تھے۔  دوران خطبہ بلند آواز میں فرمایا یَا سَارِیَہ اَلجَبَل ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہونٹوں سے نکلی ہوئی یہ آوازمصر میں سنی گئی اور حضرت ساریہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس آواز کا پورا پورا مفہوم سمجھ کر عمل کیا۔  اللہ تعالی کے ارشاد کے مطابق زمان و مکان(TIME AND SPACE) کی نفی کی مثال حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں بھی مذکور ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے مخاطب ہو کر فرمایا :

"میں چاہتا ہوں کہ ملکہ سبا کے پہنچنے سے پہلے اس کا تخت شاہی دربار میں موجود ہو۔ تم میں سے کون اس خدمت کو انجام دے سکتا ہے "۔

عفریت نے جو قوم جنات میں سے تھا کہا ۔"اس سے پہلے کہ آپ دربار برخاست کریں میں یہ تخت لا سکتا ہوں۔" جن کا یہ دعویٰ سن کر ایک انسان جس کے پاس کتاب کا علم تھا یوں گویا ہوا "اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے میں یہ تخت آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا ہوں۔"

حضرت سلیمان علیہ السلام نے رخ پھیر کے دیکھا تو ملکہ سبا کا تخت موجود تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ  یمن سے بیت المقدس کا فاصلہ تقریبا ۱۵۰۰میل ہے اور یہ فاصلہ پلک جھپکتے طے ہو گیا ۔ محض خیالی بات نہیں بلکہ ایک مرصع اور منقش تخت شاہی بغیر کسی وسیلہ کے ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہوگیا ۔

یہ وہ فکر ہے جس کا نام فکر قدیم رکھا گیا۔ فکر جدید نے ہمیں اس سے دور بہت دور دور کر دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس واقعہ میں یہ بات فکر طلب ہے اور اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ زمان و مکان کی نفی کا یہ عمل ایک ایسے انسان سے سرزد ہوا جس کے پاس علم کتاب تھا۔ یعنی وہ کتاب کے علوم اور رموز سے باخبر تھا۔  دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ قرآن پاک میں ہر وہ علم موجود ہے جس کا پہلے تذکرہ ہو چکا ہے یا آئندہ کبھی تذکرہ ہوگا۔ اللہ جل شانہ، نے فرمایا ہے۔ ہم نے داؤد اور سلیمان کو ایک علم دیا۔  یعنی یہ علم اللہ تعالی کی طرف سے(INSPIRE) ہوا۔ (INSPIRATION) خواہ سن کر ہو خواہ کوئی منظر دیکھ کرہو، بہرحال وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا  ہے۔ اللہ کے پیغمبروں کے پاس وحی آتی ہے اور وحی کے ذریعہ نزول علم ہوتا ہے۔

 قانون یہ ہے کہ جب اللہ کی طرف سے کوئی بات ذہن میں آتی ہے تو وہ اللہ ہی کا علم ہوتا ہے کسی انسان کا علم نہیں ہوتا جیسا کہ آج کل دیکھا جارہا ہے جہاز، ٹیلی فون ٹیکس جن لوگوں نے بنائے وہ اللہ ہی کی طرف سے(INSPIRE) کیے گئے، وہ کیا تھے۔ وہ کیا ہیں اس سے ہمیں بحث نہیں. ہم صرف اللہ کی ذات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں اور اللہ قادر مطلق ہے۔ دوسری بات یہ کہ انسان کو وہی چیز مل جاتی ہے جس کی اسے تلاش ہوتی ہے لیکن شرط قانون یہ ہے کہ آدمی اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ تن، من، دھن سے کسی چیز کی تلاش میں لگ جائے۔ اور تلاش کو زندگی کا مقصد قرار دے۔ یہ اللہ کی سنت ہے۔ پہلے بھی جاری تھی۔ اب بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ 

اس بات کو ہمارے بزرگوں نے دو الفاظ میں بیان کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جوئندہ یا بندہ۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔"اور نازل کیا ہم نے لوہا اور اس میں انسانوں کے لیے بے شمار فوائد رکھ دیے ہیں"۔ سائنس کی کونسی ایسی ایجاد ہے جس میں کسی نہ کسی طریقہ سے لوہا استعمال نہ ہوتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ کتاب ہماری ہے فائدہ غیراٹھا رہے ہیں۔ ہم نے اللہ تعالی کے ارشاد کی قدر نہیں کی اور تفکر کو زندگی کا مقصد قرار نہیں دیا ۔ نتیجہ میں ہم اللہ تعالی کے اس انعام سے محروم ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔ قانون اپنی جگہ قانون ہے۔۔۔۔۔۔ لوہے میں بے شمار فوائد موجود ہیں۔ جس نے ان فوائد کو تلاش کرنے میں اپنی صلاحیتیں  صرف کی اس نے ان فوائد کو حاصل کر لیا۔

 چند اشخاص نے زمین کے اندر اس دھات کو تلاش کیا جس کو یورینیم(URANIUM) کہتے ہیں۔  ایک زمانہ تھا کہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے لیکن جب جوئندگان کو یورینیم مل گیا تو لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ اور ان کو قابل تعریف سمجھ کر ان کی پیروی کی جو کامیاب تھے ۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم قرآن پاک کی طرز فکر کو کس طرح حاصل کر سکتے ہیں ؟ کیا یہ بات ہم نہیں جانتے کہ ایک مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن کے ایک ایک حرف پر یقین رکھتا ہو، ایسا یقین جو شکوک و شبہات سے پاک ہو۔  اگر ہم اپنے دل میں ایمان اور یقین کو جگہ دیں اور دل کی حدود تک لے جائیں اور دل کے احاطہ میں رکھیں اور اللہ تعالی کے ارشادات پر پورا یقین کر لیں تو ہمارے اوپر وہ تمام رموز قرآن پاک میں موجود ہیں منکشف ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اس کی دعوت دی ہے ،جگہ جگہ فرمایا ہے "فکر کرو"۔ یہ بھی فرمایا ہے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ اے پیغمبر!آپ کہہ دیجئے،تم ایمان نہیں لائے، مسلمان ہو لیکن ابھی تمہارے دل میں ایمان داخل نہیں ہوا"۔ 

دیکھیے !۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں مسلمان اور مومن کا فرق سمجھنا ضروری ہے ۔ مسلمان ہونا الگ بات ہے اور دل میں ایمان کا داخل ہونا الگ بات ہے۔

 اللہ تعالی کے ارشاد کے مطابق ہم مسلمان ہیں لیکن ابھی ہمارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا جس وقت ہمارے دلوں میں ایمان اتر جائے گا یقینا ہم تسخیر کائنات کے فارمولوں سے واقف ہو جائیں گے۔ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ہم ہر معاملہ میں یورپ کی تقلید کرتے ہیں اس لیے کہ ان کے علوم پرہمیں اعتماد اور یقین ہے لیکن قرآن کریم کے بتائے ہوئے فارمولوں پر ہمیں یقین نہیں ہے۔ قرآن پاک میں جو فارمولے تسخیر کائنات سے متعلق بیان ہوئے ہیں ان کی تشریح کرنا اس مختصر وقت میں ممکن نہیں لیکن میں آپ کی توجہ ایک بار پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ کی طرف مبذول کراتا ہوں ۔ اس واقعہ میں یہ بات ہمارے سامنے آئیں کہ جو بندہ  ۱۵۰۰ میل کے فاصلہ سے پلک جھپکنے سے پہلے ملکہ سبا کا تخت  لے آیا اس بندہ نے پہلے کہا کہ میرے پاس علمِ کتاب ہے۔ علمِ کتاب کو حاصل کرنا تفکر کے ذریعہ ممکن ہے۔ تفکر کا اصل اصول معلوم کرنے کے لیے اپنی روح سے وقوف ضروری ہے۔ جو لوگ اپنی روحانی صلاحیتوں سے واقفیت نہیں رکھتے ان کا یقین کمزور ہوتا ہے اور ان کا شمار ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں ہوتا اور جو لوگ ہدایت یافتہ نہیں ہیں ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے اور آنکھوں پر پردے ڈال دیے جاتے ہیں ۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے روحانی صلاحیتوں سے واقف ہونے کے لیے اسباق تجویز فرمائے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ روح کی صلاحیتوں سے واقفیت  حاصل کرنے کے لیے مراقبہ ضروری ہے ۔ مراقبہ کا قانون بیان کرتے ہوئے اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ سماوات اور ارض کی روشنی ہیں اور ارض پر موجود تخلیق روشنی کے ہالا میں بند ہے اور یہ روشنی روح ہے اور روح کے علم کو چھ حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔  تصوف میں اس کا اصطلاحی نام لطائف ستہ ہے ۔

(۱) ‏لطیفہؑ اخفی (۲)لطیفہؑ خفی (۳)لطیفہؑ سری (۴)لطیفہؑ روحی (۵)لطیفہؑ قلبی (۶)لطیفہؑ نفسی

زندگی کے تاروپود پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ زندگی کے تقاضے اور زندگی میں کام  آنے والے اعمال واشغال اور تحریکات سب کا سب علم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہم زندہ ہیں یہ بھی علم ہے۔ بھوک، پیاس اور زندگی کے سارے تقاضے علم سے باہر کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔  زندگی سے متعلق اس علم کو مظہر بننے تک چھ دائروں سے گزرنا پڑتا ہے۔  جب کوئی علم مظہر بنتا ہے تو پہلے اس کا ایک واہمہ ہمارے دماغ میں وارد ہوتا ہے۔ جہاں یہ وارد ہوتا ہے اس کا نام لطیفہ اخفیٰ ہے۔ پھر یہ واہمہ خیال بنتا ہے۔ جہاں پر خیال بنتا ہے اس کا نام لطیفہ خفی ہے۔ خیال کے اندر جب روشنی کا ہجوم ہوتا ہے تو یہ تصور بن جاتا ہے اور اس کا مقام لطیفہ سری ہے۔ تصور جب احساس کے خد و خال میں ڈھلتا ہے تو اس کا نام لطیفہ روحی ہے اور جب یہ احساس لطیفہ قلبی پر وارد ہوتا ہے تو نگاہ بن جاتا ہے۔ نگاہ مشاہدہ بن کر عمل بن جاتی ہے۔ یہی لطیفہ نفسی ہے ۔ 

اس حقیقت سے کوئی فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ایک انسان کی زندگی میں خوشی اور غم کا تعلق براہ راست خیالات اور تصورات سے قائم ہے۔ کوئی خیال انتہائی کربناک ہوتا ہے اور کوئی خیال ہمارے لئے مسرت  آگیں ہوتا ہے۔ ڈر، خوف، شک ، حسد، طمع، نفرت و حقارت، غرور و تکبر، خود نمائی وغیرہ وغیرہ خیالات کی پیداوار ہیں اور محبت، ایثار، یقین انکساری اور حزن و ملال کا نہ ہونا بھی خیالات کی کارفرمائی ہے۔ بیٹھے بیٹھے یہ خیال بجلی کی طرح کوند جاتا ہے کہ ہمارے یا ہماری اولاد کے ساتھ حادثہ نہ پیش آجائے۔ جیسے ہی خیال کی یہ رد دماغ سے ٹکراتی ہے آدمی اپنے اندر حادثات سے متعلق پوری پریشانیاں کڑی در کڑی محسوس کرنے لگتا ہے  اور وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔ یہی حال خوشی اور خوشحال زندگی کا ہے۔ جب انسانی تصورات ایسے نقطہ پر مرکوز ہو جاتے ہیں جن میں شادمانی اور خوشحالی کی تصویریں موجود ہوں، انسان خوش ہو جاتا ہے۔ 

خیالات میں اگر بے یقینی ،شک اور وسوسوں کی بھرمار ہوتی ہے تو اس کے اندر روشنیاں مدھم ہو جاتی ہیں اور تصورات الجھن ۔اضطراب اور پریشانی کا جامہ پہن لیتے ہیں۔ ان کی افراط آدمی کو روح سے دور کر دیتی ہے اور روح  سے دوری واقع ہونے پر آدمی کے اندر آدمی ایک متعفن پھوڑا بن جاتا ہے۔ اور جب یہ پھوڑا پھوٹ جاتا ہے تو اس کی سڑاند پھیلنے لگتی ہے۔ اللہ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ جب یہ صورت واقع ہو جاتی ہے تو یہ آدمی اس گروہ میں شامل ہو جاتا ہے جس گروہ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ  مہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ڈال دیا پردہ ان کی آنکھوں پر اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔

 کتاب "لوح و قلم" مصنفہ حضرت بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ میں درج ہے کہ انسان چھ لطیفوں سے مرکب ہے۔ اور ہر دو لطیفوں سے ایک دائرہ بنتا ہے۔  یعنی انسان کی ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کا دارومدار ان تین دائروں پر ہے۔ پہلے دائرے میں اللہ تعالی کی مشیت اور تسخیر کائنات کے فارمولے نقش ہیں۔  دوسرے دائرے میں حیات بعد الممات کی تشریح ہے اور تیسرا دائرہ ان اعمال و حرکات کی تشریح کرتا ہے جن سے زندگی سرگرم عمل  ہے۔ روح کے دائرے کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

"اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ انسان ناقابل تذکرہ شے تھا ۔ پس ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی اور یہ دیکھتا۔ سنتا۔ چکھتا، محسوس کرتا اور عمل و حرکت سے مرکب انسان بن گیا"۔

 رُوح کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن حکیم میں اس کی وضاحت موجود ہے:

" تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ رُوح کیا ہے، تو کہہ دے روُح میرے رب کے امر سے ہے"۔

 امر کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

" اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی چیزکا تو کہتا ہے "کن" اور وہ "فیکوُن" ہو جاتی ہے"۔

قرآن کریم کی ان آیات میں تفکر کیا جائے تو یوں کہا جائے گا :

انسان ناقابل تذکرہ شے تھا۔ اس کے اندر روح ڈال دی گئی تو زندگی دوڑنے لگی اور روُح امر رب  ہے اور امر رب یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کُن اور فیکُون ہوکر مظہر بن جاتی ہے۔ زیادہ آسان الفاظ میں اس بات کو اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے: 

انسان روح ہے۔  روح امر رب ہے اور امر رب اللہ تعالی کا ارادہ ہے  اور یہ ارادہ وجہ تخلیق کائنات ہے ۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ انسان اللہ تعالی کے فرمانے کے مطابق اللہ تعالی کی روح ہے  لیکن بظاہر کتنا مجبور ولاچار ہے۔ مجبور و لاچار ہونے کی وجہ بجز اس کے کچھ نہیں کے ہم علم کتاب سے ناواقف ہیں ۔ یہی ناواقفیت وہ متعفن پھوڑا ہے جس نے ہمیں تسخیر کائنات کے فارمولوں سے محروم کردیا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن پاک میں تفکر کر کے اس گم کردہ راہ کو تلاش کریں اور اللہ تعالی کے انعامات و اکرام سے فیض یاب ہو  کر سرفرازی اور سربلندی حاصل کریں۔

 اللہ تعالی ہم سب کو اسوہؑ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

 

                                          آمین یا رب العالمین !

 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔