Topics
چند انسانوں کی کوشش سے
کمیونزم کا قلعئہ ستر سال کے بعد کچھ اس طرح زمیں دوز ہوگیا کہ جیسے اس کی بنیادیں
ریت کے گھروندے پر قائم کی گئی تھیں۔دورِ حاضر کے اقتصادی نظام پر غور کرنے سے
معلوم ہوتا تھا کہ ساری دنیا بالآخر اشتراکی نظام کو اپنا لے گی۔کیونکہ غریب لوگ
نہیں چاہتے کہ دولت چند امیروں کی کنیز بن جائے۔ اور لاکھوں لوگ بے گھر بے در
بھوکے پیاسے مرتے رہیں۔
سولہویں صدی عیسوی میں
بڑی بڑی حکومتیں بنیں۔ اور سونا چاندی ہر حکومت کے لیے معراجِ کمال بن گیا۔ہر
حکومت سونا چاندی جمع کرنے میں لگ گئی۔ یہ حکومتی نظام تاجر برادری کے ذہن کی
عکاسی کرتا ہے۔ یہ اقتصادی مسلک جس کا مطمحِ نظر ملک میں سونے کی افراط ہے تجارتی
قرار پایا۔
تجارتی مذہب کے بر خلاف
دوسرا آزاد مذہب وجود میں آیا۔آزاد
مذہب کا نعرہ یہ تھا کہ فرد کو آزاد چھوڑدو۔ ایسی صورت میں فرد اپنی مصلحت
کے مطابق بہتر کام کرے گا۔اس سے حکومت کو بھی فائدہ ہوگا۔ اس آزاد مذہب کا یہ
تاثر قائم ہوا کہ دو گروہ بن گئے۔ بہت زیادہ دولت والوں کا گروہ۔۔۔۔۔۔اور مفلس و
قلاش فقیروںکا گروہ ۔ صنعتی انقلاب اور مشینوں کی ایجاد نے بھی دولت مند گروہ میں
اضافہ کیا۔ مزدوری گھٹ گئی۔ فقیروں کے فقر میں اور مفلس لوگوں کے اخلاص میں اور
اضافہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور گروہ وجود میں آیا۔ اس گروہ نے جب یہ دیکھا کہ
امیر لوگ غریبوں کی بدولت امیر ہوتے ہیں۔ حسرت، تنگدستی، معاشی بدحالی وبد بختی
امیروں کی وجہ سے دنیا پر چھا جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ امیر اور غریب کے درمیان یہی سوچ
فاصلہ بن گئی۔نتیجے میں امیر لوگ جس طرح بھی ممکن ہوااپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر
دولت کے انبار لگانے میں مصروف ہوگئے۔ انھیں یہ خیال نہیں آیا کہ مزدور بھی ہماری
طرح آدم وحوا کی اولاد ہیں۔مزدور کو ہماری طرح بھوک لگتی ہے۔مزدور کو بھی ہماری
طرح مکان اور دوا دارو کی ضرورت ہے۔فاصلہ بڑھتا رہا، مزدور کے پیٹ کی آگ بھڑکتی رہی، بچّے تعلیم سے
محروم ہوتے رہے۔اور ایسا وقت آگیا کہ مزدور نانِ بقینہ سے محروم ہو کر کم مزدوری
قبول کرنے پر مجبور ہوگیا۔۔۔۔۔تاکہ وہ اپنے بچّوں کو روکھی سوکھی روٹی کِھلا سکے۔
مزدور جماعت کے حامیوں نے
کہا۔۔۔۔۔۔۔۔کہ دولت جس سے امیر طبقہ کھیل رہا ہے۔صرف انہی کی کوششوں کا نتیجہ نہیں
ہے۔ ا س میں مزدور کی محنت برابر کی شریک ہے۔ عدل و انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ دولت
کی تقسیم مزدوروں اور اہل ثروت کے درمیان مشترک ہو۔اور اس طرح ایک نئے نظام کی
ترتیب عمل میں آئی۔اس نئے نظام یا مذہب کو اشتراکیت کا نام دیا گیا۔اشتراکیت کا
بانی کارل مارکس تھا۔ اس نے کہا۔’’
اجتماعی مفادات حاصل کرنے کے لیے ہر گروہ کو خود حالات کی درستگی کے لیے
کوشش کرنی چاہیئے۔‘‘
اِن نظریات اور مذاہب پر
غور کرنے سے یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ ہر نظر یہ کسی نہ کسی جانب داری کی تصویر
ہے۔اِن مذاہب سے فَرد کو انصاف نہیں ملا۔ ہر مذہب والے یہ خیال کرتے رہے کہ ان کا
مذہب سب سے اچھا ہے اور فرد کی خوشحالی کا ضامن ہے۔مگر یہ سب کوئی اچھا نتیجہ بر
آمد نہیں کر سکے اور انسانی برادری کو پریشان اور محرومی کے سوا کچھ حاصل نہیں
ہوا۔
ہر دستوری دستاویز میں سب
سے اہم اور بنیادی سوال اقتدارِ اعلیٰ کا ہوتا ہے، باقی تمام امور اس کے گرد
گھومتے ہیں۔ہر گروہ اپنے اپنے نظریے اور خیال کے مطابق اقتدارِ اعلیٰ کی تشریح
کرتا ہے۔
(۱) کسی
نے کہا کہ مقتدر اعلیٰ بادشاہ ہوتا ہے۔ بادشاہ کو لومڑی کی صفت ہونا چاہیئے تاکہ
وہ مکر و فریب کے جال بچھا کر لوگوں کو اپنے قبضے میں رکھ سکے۔اس کے ساتھ ہی
بادشاہ کا شیر صفت ہونا بھی ضروری ہے تاکہ وہ بھیڑوں کو خوف زدہ رکھ سکے۔
ّ(۲) اقتداراعلیٰ افراد کی اکثریت کے پاس ہونا
چاہیئے۔
(۳) اقتدار
اعلیٰ تمام افراد کی مشترک ملکیت ہے۔
دستور بنتے رہے، بگڑتے
رہے۔ ان میں تنسیخ و ترمیم ہوتی رہی۔ مگر کسی ایک بات پر اتفاق رائے نہیں
ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھاتی رہی، پھر جمہوری نظام کا شور برپا
ہوا۔ جس کی رو سے عوام کی حکومت عوام پر ہوتی ہے۔لیکن عملاََ یہ نظام بھی ان چند
خاندانوں کی ملکیت بن گیا، جن کا قبضہ پیداوار کے ذرائع پر تھا۔دیکھنے میں اس کا
چہرہ روشن اور تابناک تھا۔لیکن اند رکا حال قبر کے مُردے جیسا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔کہ قبر
کا حال مردے کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ غوروفکر کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ
نظا م بھی اللہ کی معصوم اور غریب مخلوق کے خلاف ایک تازیانہ عبرت ثابت ہوا۔پھر یہ
کہا گیا کہ ذرائع پیدا وار پر قابض لوگوں سے اقتدار نکال کر مزدوروں کے سپرد کیا
جائے تاکہ سرمایہ کی اجارہ داری ختم ہوجائے اور مزدور مقتدر ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔اور یہ
مقصد اس وقت حاصل ہوگا جب کمیونسٹ پارٹی کو اقتدار اعلیٰ سونپ دیا جائے۔ یہ ساری
کتھا پڑھ کر اس کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکلتا کہ مذاہب اور نظریاتِ مملکت اقتدار
اعلیٰ کے گرد گھومتے ہیں۔اور اقتداراعلیٰ حاصل کرنے میں جب بھی کسی گروہ کو
کامیابی حاصل ہوئی وہ خود دولت کے انبار جمع کرنے میں ھل من مزید کی عملی تفسیر بن
گیا۔
ابھی حال میں خبر آئی ہے
کہ’’ چا ؤ شسکو نے ستّر کمروں پر مشتمل
محل تعمیر کروایا تھا۔اور بیگم چا ؤشسکو کے جوتوں میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔‘‘
یہ سب نظام تناور درخت
بننے سے پہلے کیوں دیمک خوردہ درختوں کی طرح پیوند زمین ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اور ہو
جائیں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے اپنے علم اور عقلی بر تری کے زعم میں
کبھی نہیں سوچا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسان خود مخلوق ہے۔ چونکہ وہ مخلوق ہے اور مخلوق کے ناطے زندگی کے ہر ہر مرحلے پر
مجبور ہے۔ اس لیے وہ اس قابل نہیں ہے کہ ریاستی امور میں خود ساختہ قوانین سے
اقتدار اعلیٰ پر فائز ہو۔
انسان جب خود پیدائش پر
قدرت نہیں رکھتا اور موت کو شکست نہیں دے سکتا، تو پھر وسائل کی تقسیم کا قانون ،
وسائل پیدا کرنے والے کی ماضی کے خلاف کیسے بنا سکتا ہے؟
آج جب ہم عالم اسلام کی
زبوں حالی اور مسلم قوم کا شیرازہ بکھرنے کی وجہ تلاش کرتے ہیں تو یہی بات سامنے
آتی ہے کہ اسلام میں پہلی چپقلش دولت کے انبار جمع کرنے پر شروع ہوئی۔
حضر ابو ذر غفاریؓ وہ
صحابی ہیں جن کے متعلق حضوعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:
’’ ابو
ذر میرے ساتھ زندہ رہا
اور میرے ہی ساتھ اٹھے
گا۔ ‘‘
حضرت ابو ذر غفاریؓ بار
بار اس آیت کی تلاوت کرتے تھے۔
’’جو
لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اسے خدا کی راہیں میں خرچ نہیں کر تے ۔ انھیں
تکلیف دہ عذاب کی بشارت ہے۔‘‘
مسلم قوم کا عروج اس دن
گہنا گیا تھا جس روز اسلام میں انسان ساختہ اقتدار اعلیٰ (ملوکیت) داخل ہوا تھا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ’’ کسی انسان کو اس کا حق حاصل نہیں کہ خدا اُسے ضابطئہ
قوانین ، حکومت اور نبوت عطا کرے۔ اور وہ لوگوں سے کہ تم خدا کے احکام کی جگہ میرے
احکام کی اطاعت کرو۔‘‘(۳۔۹ ۷)
دنیا اُسی وقت سُکھ چین
سے واقف ہوگی اور سکون کا سانس لے گی جب قرآن کے مطابق اللہ علیم و حکیم کے
اقتداراعلیٰ کو دنیا میں نافذ کیا جائے گا۔۔۔۔۔یہ نہیں ہوا تو نظریات اور نظام
ہائے حکومت بنتے رہیں گے۔اور دنیا کی آنکھوں سے روشنی اوجھل ہوتی رہے گی۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔