Topics
مذاہب کی تاریخ کے اوراق
پلٹنے سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ مذہب کا ابتدائی دور باقی مذہب کے نظریات اور طرز
فکر کا حامل رہا ہے۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا رہا مذہبی قدریں کم ہوتی رہیں
اور بالآخر یہ تلاش کرنا ممکن نہیں رہا کہ اصل مذہب کیا ہے اور اگر مذہب لوگوں کی
زندگی سے متصادم ہے تو پھر مذہب کی ضرورت کیوں ہے۔ایسا ہی دور جب یونانی معاشرہ
میں داخل ہوا تو مغربی ایشیا میں ایک نئی طرز فکر اور ایک نئے فلسفے کی تخم ریزی
ہوئی ایک شخص آرقیس سامنے آیا ۔ یہ واقعہ چھٹی یا ساتویں قبل مسیح کا ہے۔مورخین
کہتے ہیں۔ کہ اس دور میں مغربی ایشیا میں دینی اور فکری دور شروع ہوا ۔ اس فکری
دور میں صوفیانہ تصورات و اعمال نمایاں طور پر ظاہر ہوئے۔ تصوف کے تصورات
کےرجحانات زیادہ تر سامی افکاراور زرتشی
عقائد کا نتیجہ تھے ۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مذہب کے اجارہ داروں نے لوگوں
کو انسانی اقدار سے بدگمان کر دیا تھا جبکہ لوگوں کو سکون کی تلاش تھی سکون کی جگہ
بدگمانی اور عدم تحفظ کے احساس نے جب لوگوں کو گم کردہ راہی بنا کر بے سکون اور غم آشنا بنادیا اور مسلمہ
اخلاقی اقدار کے کھوکھلے پن سے شر اور بدی کے احساس جرم کو بہت گہرا کر کے لوگوں
کو بے حس کردیا تو لوگ مذہب بیزار ہو گئے ۔۔۔۔۔۔ مذہب کے مروجہ اصولوں کی بازگشت
تو سنائی دیتی تھی مگر مذہب کے پیروکاروں میں عمل کا فقد آن تھا۔ مذہب کی بنیاد
اگر یہ تھی کہ ساری کائنات اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ اس پورے کنبے کا کفیل ہے توفی
العمل کوشش یہ تھی کہ برادری ٹوٹ جائے اور جتنا زیادہ ہو سکے انسانی برادری
کو نفرتوں تعصب نسلی منافرت اور گروہوں میں بانٹ دیا جائے۔جب نیکی کے تصورات میں
کوئی اچھائی اور عملاًنیکی نظر نہ آئے اور لوگ محسوس کرنے لگیں کہ نیک اعمال جن کی
مسلسل تبلیغ کی جاتی رہی ہے اور کی جاری ہے وہ ہر قسم کی نیکی اور خوبی سے عاری
ہیں۔ وہ محض ریاکار اور دکھاوے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تو ان حالات میں
حکیمانہ اور حساس ذہین لوگوں میں روحانی تڑپ بیدار ہو جاتی ہے۔ یہی وہ دور تھا جس
میں آرقیسی نظام کی بنیاد پڑی۔۔۔۔۔۔اس
نظام کے مقاصد میں اولیت اس بات کو تھی کہ بندہ کا خالق سے رابطہ قائم ہو انسان
اور خدا کے درمیان تعلق کا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہو۔ آرقیسی نظام میں روح سے آزاد
ہونے کا تصور ابھرا ۔کہا یہ گیا کہ جسمانی تقاضوں سے انسان گناہوں کی دلدل میں
دھنستا چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس طرح ترک حیوانات وجود میں آیا ۔انتہا یہ کہ
انڈوں کے کھانے کی بھی ممانعت کردی گئی لوگ اس نظریہ پر بڑی شدت سے متوجہ ہوئے اور
جسم کو ثانویت کا درجہ مل گیا ۔ مگر چوں کہ یہ عمل فطرت کے خلاف تھا اس لئے یہ
نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکا۔ جس طرح ہر اچھی تحریک اپنے ابتدائی دور کے
کچھ اجنبی تصورات کے زیر اثر اور کچھ انسانی کمزوریوں کے باعث بلندی سے پستی میں
گر جاتی ہے ۔ اس طرح آرقیسی کا بھی حشر ہوا ۔
آرقیسی نظام کے بعد
افلاطون نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسانی روح "نورازلی " کے چند
بکھرے ہوئے اجزاء ہیں جو مسافتیں طے کرکے اس زمین پر آ گرے ہیں۔ موت کے بعد کی
زندگی کا تصور بھی اس نظریہ میں موجود ہے۔ کہا گیا کہ مرنے کے بعد ایک انسان
کی روح ایک ہزار سال تک نیکی کا اجر پاتی ہے اور اس طرح بدکردار آدمی کی روح سزا
کی مستحق ہے۔ اس کے بعد وہ کسی دوسرے جسم میں نمودار ہوتی ہے اور موت و زندگی کا
یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے ۔
آرقیسی نظام چونکہ
راہبانہ زندگی پیدا کرنا چاہتا تھا اس لیے یہ تحریک ہمہ گیر پیمانے پر کامیاب نہیں
ہوئی۔ لیکن اس نظریے سےفیثا غورث سقراط اور
افلاطون متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے افلاطون
نے روح کا جو تصور پیش کیا ہے وہ آرقیسی نظریات پر مبنی ہے۔
فیثا عورت نے کوشش کی کہ
آرقیسی نظام میں تبدیلیاں کی جائیں تاکہ اس نظام کی خرابیاں دور ہوجائیں۔ فیثا غورث کا خیال تھا کہ اخلاقی قدروں کے قیام
کے لیے ظاہری اعمال ورسوم کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی اہمیت نیت کی ہے ۔اگر کوئی
شخص دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے قربانیاں دیتا ہے سفید اجلے کپڑے پہنتا ہے ہر
معاملہ میں دعا کرتا ہے۔ اور اس کے ساتھ عمل نہ ہو تو اس عمل سے اس کی اخلاقی
زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی بے روح اعمال اس کے کام نہیں آئیں گے۔
فیثا غورث ۵۸۰ قبل مسیح میں پیدا ہوا
۔اس نے اپنے زمانے کے تمام متمدن ملکوں کا دورہ کیا وہاں رائج مذہبی اقدار و رسوم
رواج سے استفادہ کیا اس نے کوشش کی کہ تما م افکار ایک جگہ جمع ہو جائیں اور وہ اس
کوشش میں کامیاب بھی رہا نتیجہ میں مشرقی اور مغربی حکمت کے خزانے ایک ہی جگہ
مرکوز ہوگئے ۔
افلاطون
اور ارسطو نے فیثا غورث کی تعریف کی ہے کہ اس نے اپنے پیرو
کاروں کے لئے الگ مذہب کی بنیاد رکھی اور فیثا غورث اور اس کے قدیم پیروں کے
متعلق ہمیں ملتی ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تاکید کی تھی کہ بات کم سے کم کی
جائے تاکہ بے ہودہ اور غلط باتوں سے محفوظ رہیں ۔ شادی نہ کی جائے یا کم سے کم
کثرت مباشرت سے پرہیز کیا جائے۔
تین صدیوں کے بعد حالات
نے کروٹ بدلی ارسطو اور افلاطون کے پیروکاروں نے علیحدہ علیحدہ اپنے حلقے قائم کر
لئے۔ اور اس کے بعد رواتی اور ان کے مخالف گروہ ایپی غورث کے حامیوں نے بھی
اپنے اپنے حلقے بنا لیے۔۔۔۔۔۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یونان کی سرزمین سے فلسفہ
اٹھ کر اسکندریہ میں آگیا۔ جہاں فیثا غورث کے نام سے فائدہ اٹھا کر ایک نیا حلقہ
قائم کر لیا گیا جو تاریخ میں فیثا غورث دبستان کے نام سے مشہور ہوا ۔
عیسانیت کے عالم وجود میں
آنے سے کچھ عرصے پہلے علمی دنیا میں یہ
دبستان خصوصی مقام حاصل کر چکا تھا۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر مغربی ایشیا اور
اسکندریہ میں صوفیانہ تصورات ظاہر ہونا شروع ہوئے۔ یہ ایک ایسی تحریک تھی جو دوسری
صدی قبل مسیح سے شروع ہو کر دوسری صدی تک ان تمام ملکوں میں مختلف شکلوں میں ظاہر
ہوتی رہی ۔
چین میں تصوف کی نشونما
اور آغاز ماؤزی دور میں ہوا ۔ ماؤزی چین
میں تصوف کا بانی ہے۔ ماؤزی اور اس کے شاگردوں نے اپنے زمانے کے سیاسی حالات سے
مایوس ہو کر عملی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی اور پہاڑوں کو اپنا مسکن
بنا لیا تھا۔ کنفیو شس ماؤزی سے کافی چھوٹا تھا ۔اور اس نے ماؤزی سے ملاقات کی
تھی ۔
ماؤزی گروہ نے محض
دنیا ترک کرنے پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ اپنے نظرئےکی حمایت میں ایک فکری
نظام بھی پیش کیا ۔یہ کام ایک چینی صوفی یانگ چو (YONGCHO) نے انجام دیا ۔اس کے دو
بنیادی تصورات تھے۔ پہلا یہ کہ ہر شخص کو صرف اپنی فکر کرنی چاہئے اور دوسرا یہ کہ
اس دنیا کی ہر چیز سے نفرت کرنی چاہیے۔ لیکن زندگی کی پوری قدر کرنی چاہیے۔
ایک شخص نے (YONGCHO) سے سوال کیا۔
اگر اپنے بدن سے
ایک بال اکھاڑکر ساری دنیا کو بچا سکو تو کیا تم اس کے لیے تیار ہوگے ؟
(YONGCHO) نے کہا۔ ایسا ہونا ممکن
ہی نہیں۔ اس شخص نے پھر کہا ۔ فر ض کر و ایسا ممکن ہو جائے پھر تمہا را کیا جواب
ہے!(YONGCHO) خا مو ش رہا اور وہ شخص
با ہر نکل آیا اور اس نے یا نگ چو کے شاگرد سے اس با ت کا ذکر کیا ۔ شا گرد نے
اپنے استا د مدافعت میں اس شخص سے کہا۔ فر ض کرو تمہیں کہا جائے کہ تم اپنی کھال
کا کچھ حصہ جسم سے الگ کر کے دے دو ۔ تو تمہیں دس ہزا ر سونے کے سکے ملیں گے تو
کیا تم تیا ر ہو جا ؤگے۔
اس نے جواب دیا کہ ہاں ۔
شا گر د نے پھر کہا ۔ اگر تمہیں اپنے کسی عضو کو کا ٹ کر دینے سے بادشا ہت مل جائے
۔۔۔۔ اس کے با رے میں تمہارا کیا خیا ل ہے ۔ وہ شخص خا موش رہا یانگ چو کے شا گر د
نے کہا کہ کھا ل کے مقا بلے میں مال بالکل غیر اہم ہے اور ایک عضو کے مقا بلے میں
کھا ل کی کو ئی حیثیت نہیں لیکن کھا ل کے
بہت سے ٹکڑ ے مل کر ایک عضو کے برابر اہم ہو جا تے ہیں ۔ ایک با ل جسم کے
ہزاروں حصوں میں سے ایک ہے ۔ تم اسے کیسے غیر اہم قرار دے سکتے ہو۔
یانگ چو کا دوسرا اصول ہے
کہ ہر چیز سے نفرت کی جائے لیکن زندگی کی پو ری قدر کرنی چاہیے۔ اس کی یہ تشریح کی
جا تی ہے ۔
زندگی ہما ری ملکیت ہے
ہمیں اس سے بے شما ر فوائد حا صل ہو تے ہیں ۔ با دشا ہ بننے کی عزت سے کہیں زیا دہ
عزت ہما رے نفس کو حا صل ہے ۔ ساری دنیا کی دولت اس کے مقا بلے میں گھا س کے تنکے
کے برابر بھی نہیں ۔ اگر ہم نفس کو ایک لمحے کے لیے بھی گم کر دیں ، یا اس پر موت
وارد ہو جائے ۔ تو پھر اس کو دوبا رہ حا صل نہیں کیا جا سکتا۔
ماؤزی کہتا
ہے پہاڑ کے درخت خو د اپنے دشمن ہیں ۔ اور بھڑکتی ہو ئی آگ اپنے بجھنے یعنی فنا
ہونے کی خو د ذمہ دار ہے ۔۔۔۔۔ شا ہ بلوت کا درخت جب کلہا ڑے کی کلہا ڑی سے بچ گیا
۔ تو اس نے ایک شخص سے خواب میں کہا۔ میں کا فی مدت سے غیر مفید ہونے کی کوشش کر
رہا ہوں کئی مواقع ایسے آئے کہ میں مو ت
سے با ل با ل بچا ۔۔۔۔۔ اب میں نے غیر مفید ہو نا سیکھ لیا ہے ۔ جو میری ذا ت کے
لیے بہت فائد ہ مند ثا بت ہوا۔ اگر میں فا ئد ے مند ہو تاتو کیا میں اتنی عظیم
الشا ن جسا مت کا مالک ہوسکتا تھا؟
حقیقت مطلقہ تک پہنچنے کے
لے ماؤزی تلقین
کر تا ہے کہ خوا ہشا ت پر قابو پا یا جائے ۔ریاضت امر لا ز م ہے ۔ ریا ضت سے انسا
ن خا رجی دنیا کی بے ثبا تی سے واقف ہو جا تا ہے وہ کہتا ہے مشکلا ت سے بے نیا ز
ہو جا ؤ۔ آنکھوں کی روشنی کو مدہم کر لو اور مٹی کو رام کرلو۔ پا نچ رنگ آنکھوں
کو چندیا دیتے ہیں ۔ موسیقی کے پا نچ راگ کا نوں کو بیراکردیتے ہیں۔ وہ کہتا
ہے راستے اور دروازے بند کرلوتا حیا ت تمہاری طا قت کم نہ ہوگی۔ اگر تم نے راستوں
کو کھلا چھوڑدیا اور صر ف دنیا کے کاموں میں منہمک ہو گئےتو تمہیں کوئی غیبی مدد
نہیں پہنچے گی۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔