Topics
سائنس کے تجربات اور
نتائج کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ معلوم ہو کہ سائنسی علوم کی بنیاد کیا ہے۔
اور ان سے نتائج کس طرح اخذ کیے جاتے ہیں ۔
کسی علم کو جاننے کے لیے
اور سمجھنے کے لئےحواس کا دخل ہوتا ہے۔ حواس نہ ہوں تو انسان کوئی علم سیکھ سکتا
ہے اور نہ ہی کوئی نتیجہ نکال سکتا ہے۔
حواس کا جائزہ لیا
جاتا ہے تو حواس کی درجہ بندی ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ایک درجے میں حواس محدودیت کے
دائرے میں کام کرتے ہیں اوردوسرے درجے میں حواس کی وسعت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ہم
اسے لامحدود کہنے پر مجبور ہیں ۔
ارسطو کے زمانے سے لے
کرگزشتہ صدی کے وسط تک لوگ اس بات کے قائل رہے ہیں کہ حیات، جاندار مادوں کے علاوہ
بے جان چیزوں سے مل کر بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ ارسطو نے اپنی کتاب ہسٹوریا انیمالیم
(HISTORIA ANIMALIUM) میں لکھا ہے کہ عام طور
پر مچھلیاں انڈوں سے پیدا ہوتی ہیں لیکن ایسی مچھلیاں بھی ہیں جو ایک خاص ماحول کے
تحت کیچڑ سے پیدا ہو جاتی ہیں۔ ارسطو کے بعد دو ہزار سال تک یہ نظریہ مانا جاتا
رہا لیکن سائنسدانوں کے مشاہدات اور تجربات اس نظریے کو ثابت نہیں کرسکے ۔ اس لیے
انہوں نے اس نظریے کو مسترد کر دیا۔
پھر دوسرا نظریہ
جسے حیات سے حیات کا نظریہ(BIOGENESIS) کہا جاتا ہے اپنا لیا گیا ۔ اس نظریے کے مطابق حیات کبھی غیر
جاندار چیزوں سے مل کر پیدا نہیں ہوسکتی لیکن یہ بات بھی مکمل نہیں ہے اس لیے فوری
طور پر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حیات پہلی بار کس طرح وجود میں آئی ۔
کیمیا (CHEMISTRY) کی تاریخ میں قانون
بقائے مادہ ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس قانون کی رو سے مادہ کسی بھی کیمیائی تعامل(
CHEMICAL RELATION) کے دوران نہ تو پیدا
کیا جاتا ہے اور نہ ہی فنا کیا جاسکتاہے۔ عرصے تک اس نظریے کو مانا اور تسلیم کیا
جاتا رہا ۔ ہر نامور سائنسدان نے اس نظریے کو صحیح ثابت کیا۔ لیکن ایک وقت آیا جب
مشہور سائنسدان آئن اسٹائن نے یہ ثابت کیا کہ مادہ فنا کیا جاسکتا ہے۔ آئن اسٹائن
کے نظریئے کو مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ مادے کی رفتار روشنی
کی رفتار کے برابر ہوجائے تو اس وقت مادہ توانائی میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ آئن سٹائن
نےیہ بھی بتایا کہ حرکت کے دوران اجسام کی رفتار کے مطابق ان کی کمیت(MASS) میں کمی ہوتی رہتی ہے۔
اس کے باوجود آئن سٹائن نے اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لئے کوئی تجربہ یا مشاہدہ پیش
نہیں کیا۔ نظریہ اضافیت(HEORY RELATIVITY) کو ہر سائنسدان نے تسلیم کیا ۔
یہ کہانی ہے آج کے دور کے
علوم کی۔ جن علوم کی بنیاد پر بے پناہ ترقی ہوئی ہے اور اس بے پناہ ترقی میں تعمیر
کم اور تخریب زیادہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسا فارمولا ہے جس
کو بنیاد بنا کر ہم اس حقیقت تک پہنچ سکیں کہ حیات کیا ہے جس کومسترد نہ کیا
جاسکے۔ دنیا کی تعمیر جن حواس پر قائم ہے اس کی حیثیت مفروضہ ہے ۔ اس
لئے کہ حیات کے بارے میں ہر نظریہ کچھ عرصے کے بعد تبدیل ہو جاتا ہے یا مسترد کر
دیا جاتا ہے۔
حیات کی چھان پھٹک کرنے
کے بعد تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ حیات جن حواس پر قائم ہے وہ دو قسم کے ہیں۔ ایک
طرح کے حواس مفروضہ ہیں اور دوسری طرح کے حواس یقینی ہیں۔ مفروضہ حواس میں قدم قدم
پر پابندی ہے اور یقینی حواس میں پابندی نہیں ہے حیات کا تعلق یقینی حواس پر ہے اس
لئے کہ مفروضہ حواس بذات خود مفروضے (FICTION) پرقائم ہے۔
ایک جگہ سے دوسری جگہ
منتقل ہونا یا ایک قدم کے بعد دوسرا قدم اٹھانا خود اس بات کی علامت ہے کہ جس جگہ
ہم موجود ہیں اس کے علاوہ دوسری کوئی جگہ ایسی ہے جس کے اوپر زندگی رواں دواں ہے
حیات سے حیات پیدا ہوتی ہے کے نظریے کو تسلیم کرلیا جائے تو یہ بات توجہ طلب بن
جاتی ہے کہ حیات سے پہلے کیا تھا اور حیات ہر لمحے کے بعد کہاں غائب ہو جاتی ہے۔
میری زندگی کا ہر
لمحہ حیات ہے۔ لیکن زندگی کے دوسرے لمحے میں پہلا لمحہ مر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم یوں کہیں گے کہ جس
طرح حیات کو امر مسلمہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح فنا بھی ایک حقیقت ہے یعنی حیاتیاتی
قانون یہ بنا کہ حیات سے حیات نہیں پیدا ہو رہی ہے بلکہ فنا سے حیات اور حیات سے
فنا تخلیق ہو رہی ہے۔ اس طرح بھی بیان کیا جائے گا۔ فنا اور حیات دونوں ایک حقیقت
ہے۔۔۔۔۔۔ جب ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ فنا اور حیات دونوں زندگی ہیں ۔۔۔۔۔ تو ہمارے
اوپر ایک نیا انکشاف ہوتا ہے کہ فنا ہی دراصل حیات ہے۔ میری آج کی زندگی کے ایک
لمحے پر فنا وارد نہ ہو تومیں اگلے مرحلے میں داخل نہیں ہو سکتا اور آج کا
پیدا ہونے والا بچہ کبھی پنگوڑے میں سے باہر نہیں آئے گا ۔
حیاتیاتی سائنسدانوں نے
اب تک جو کچھ بھی کہا ہے وہ فنا سے حیات اور حیات سے فنا کے نظریے کے مطابق نہیں
ہے مثال: ہم مادی جسم کے ساتھ پیدا ہوئے۔ مادی جسم کے ساتھ نشوونما پا کر جوان ہو
گئے اور مضبوط اعصاب پر بڑھاپا طاری ہوا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ہم نابود ہو گئے۔ سوال یہ ہے
کہ ایک دن کے بچے، ایک سال کے بچے، اٹھارہ سال کے جوان اور ساٹھ سال کے بزرگ کی
حیات کو کون نگل گیا؟ وہ کہاں روپوش ہوگئی؟ کیوں روپوش ہوگئی؟۔۔۔۔۔ یہ کیوں
ضروری نہیں ہے کہ ہم ساٹھ سالہ تجرباتی زندگی کو تلاش کریں؟؟؟؟؟؟ ساٹھ سال
جس کے:
اکیس ہزار نو سو۔۔۔۔۔ دن
پانچ لاکھ پچیس
ہزارچھ سو۔۔۔۔ گھنٹے
تین کروڑ
پندرہ لاکھ چھتیس ہزار۔۔۔۔۔۔ منٹ
اور ایک ارب نواسی
کروڑاکیس لاکھ ساٹھ ہزار۔۔۔۔۔سیکنڈ
ہوتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن
ہے کہ اتنا طویل وقفہ ہم نظر انداز کر دیں ۔
سائنسدانوں کے نظریات کی
روشنی نوع انسانی کو یہ بتانے سے قاصر ہے کہ حیات کیا ہے۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی
نظریہ یا تو تبدیل ہوجاتا ہے یا مسترد کردیا جاتا ہے ۔ کسی نظریے کو ہم اس وقت
حقیقی نظریہ کہہ سکتے ہیں جب وہ تبدیل نہ ہو اور نہ ہی کوئی اسے مسترد کر سکتا ہو۔
حیات سے متعلق نہ تبدیل ہونے والا اور کسی بھی صورت میں جس نظریئے کو مسترد
نہ کیا جا سکتا ہو، کی نشاندہی سائنس کی سب سے بڑی کتاب قرآن نے کی ہے
۔۔۔۔۔ فلسفہ حیات بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
حیات دو طرح کے
حواس پر قائم ہے۔ ایک طرح کے حواس مفروضہ ہیں۔ ان حواس میں جب بھی کوئی فیصلہ کیا
جائے گا مفروضہ اور فکشن ہوگا ۔ اور بالآخر اسے تبدیل کرنا پڑے گا ۔
دوسری طرح کے حواس یقینی
ہیں۔ ان حواس میں جب بھی کوئی فیصلہ کیا جائے گا یا نتیجہ مرتب کیا جائے گا
ان مین کسی عنوان میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ جسے نوع انسانی بقا کہتی ہے۔ وہ سب
فکشن اور مفروضہ حواس کی درجہ بندی ہے ۔ فی الواقع حیات کی اصل فنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔زندگی
فنا سے نکلتی ہے اور فنا زندگی بن جاتی ہے۔۔۔۔۔
سائنس کا یہ کہنا کہ حیات
کبھی غیر جاندار چیزوں سے مل کر پیدا نہیں ہو سکتی۔۔۔۔ مفروضہ حواس کی کار فرمائی
ہے۔۔۔۔ اس لیے کہ مشاہدات یہ ثابت کرتے ہیں کہ کائنات میں کوئی وجود بغیر زندگی کے
موجود نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔ حقیقی حواس ہمیں بتاتے ہیں کہ پہاڑ میں بھی زندگی ہے۔
پہاڑ بھی اسی طرح پیدا ہوتے ہیں جس طرح دوسری مخلوق پیدا ہوتی ہے جب ہم
سائنسی فارمولوں کی بڑی اور آخری کتاب کلام مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو تخلیق
کائنات کے سب سے بڑے سائنسدان اللہ نے اپنے نائب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے لکھوایا ہے۔
ہم نے اپنی امانت و حیات
کے فارمولے، سماوات اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی سب نے متفقہ طور پر اللہ کی
آواز سن کر اور امانت کی توانائیوں کے قانون کو جان کر کہا ۔۔۔۔ ہم اس بار کے
مستحق نہیں ہو سکتے اور اگر ایسا ہوگیا تو ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔۔۔۔ ہر بالغ
اور باشعور دانشور یہ سمجھتا ہے کہ انکار بالآخر اور بجائے خود اس بات کی علامت ہے
کہ ۔۔۔۔۔
انکار کرنے والی ہستی یا
اقرار کرنے والی شے میں عقل و شعور موجود ہے۔ عقل و شعور کے ساتھ وہ اپنی زندگی کی
قدروں سے بھی واقف ہے اس کو اس بات کا علم ہے کہ میری جان ناتواں (حیات) نے اس
عظیم امانت کو اٹھا لیا تو میری جان (حیات) ریزہ ریزہ ہو جائے گی۔
اب یہ کہنا کہ
کائنات میں کوئی شخص بغیر حیات کے بھی موجود ہے، دلیل کے ساتھ سائنسی نظریے کی نفی
ہے۔ حیات ممات، فنا اور زندگی کی حقیقت
تک پہنچنے کے لئے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم سائنسی دستاویز
کی مکمل اور آخری کتاب قرآن سے رجوع کریں۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔