Topics
اب
سے اربوں ، کھربوں اور سنکھوں سال پہلے ایک عظیم المرتبت سائنسدان کو خیال آیا کہ
میں ایسی ایجادات تشکیل دوں کہ جس سے میری تنہائی دور ہو، حرکت و برکت کا ایک ایسا
فعال نظام ترتیب دوں، جس نظام میں نظام ہائے ترتیب و تدوین جمع ہوں اور ہر نظام
ایک مکمل کہکشانی نظام ہو اور کہکشانی نظاموں میں بے شمار الگ الگ نظام قائم ہوں
اور ان نظاموں میں سے ہر نظام ایک دلکش دنیا ہو۔
عظیم
سائنسدان کا ذہن جب اس طرف متوجہ ہوا تو اس نے اپنی سائنسی اختراعات و ایجادات کا
سلسلہ اس طرح قائم کردیا:۔
·
ایک
کتاب المبین
·
ایک
کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ
·
ایک
لوح محفوظ اسی ہزار حضیرے
·
*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ
کھر ب غیر مستقل نظام
·
*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج(STAR) کے گر د نو۹،با رہ۱۲،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے
ہیں ۔
یہ
محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا
تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں
زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود ہیں۔بھوک، پیاس،
خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر
جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔
ایک
حضیرےپر ایک کھرب سے زیادہ آباد نظام واقع ہیں ایک آباد نظام کو قائم رکھنے کے لئے
غیر مستقل نظام اسٹور کی حیثیت رکھتے ہیں غیر مستقل نظام سے مراد یہ ہے کہ پو رے
پور ے نظام بنتےاور ٹوٹ جا تے ہیں اور اس ٹوٹ پھوٹ سے آباد ،مستقل نظام فیڈ ہو تے
رہتے ہیں ۔ ہر نظام میں الگ الگ سماوات ، ارض ، جبال ، حیوانات ، جمادات ، نباتا ت
وغیرہ اسی طر ح موجو د ہیں جس طر ح ہم اپنے نظام میں دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نظام
کو چلانے کےلئے اور خو د کو متعارف کرانے کے لئے عظیم سائنسدان اللہ نے اپنا ایک ASSISTANT
بنایا اور اپنے اس نائب یا ASSISTANT کو اس نظام سے متعلق تمام فارمولے
سکھادیئے۔۔۔اس لئے اس کی حیثیت اس کائنات میں ممتاز ہو گئی۔۔۔اس ممتاز حیثیت کے
فرد کو عظیم سائنسدان نے اپنی بہترین صناعی اور بہترین تخلیق قرار دیا۔ پھر ایسا
ہوا کہ عظیم سائنسدان کی بہترین صناعی اور تخلیق کی خود فریبی ، سرکشی اور حکم
عدولی نے اس کو اپنے منصب سے دور کرکے نیچے بہت نیچے گہرائی اور اسفل السافلین میں
پھینک دیا۔ ہم جب عظیم سائنسدان اللہ کی کائنات میں تفکر کرتے ہیں تو ہمیں کائنات
کی بنیادی اور بڑی حقیقت اور عظیم سائنسدان کا سب سے بڑا شاہکار آدم نظر آتا ہے۔
آدم گو کہ اپنے جسم اور وجود کے اعتبار سے بہت بڑا نہیں ہے مگر اس کی ساخت اور
ساخت میں فارمولوں پر بنی ہوئی مشین ایسی مشین ہے جس مشین کا ہر کل پرزہ اور جس
مشین کی ہر حرکت کاچھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا وقفہ ایک سائنس ہے۔۔۔۔عظیم
سائنسدان اللہ کا شاہکار انسان عجیب وغریب اور وسیع و عریض کائنات کا جوہر ہے۔ ہم
جب کائنات کے جوہر ، اس انسان کی مشینری کے کل پرزوں اور ان کل پرزوں کو حرکت دینے
والی انرجی کو متحرک کرنے والی لائف اسٹریم(LIFE STREAM) پر غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے عجائبات کا ایک
عالم آجاتا ہے۔۔۔۔۔
انسانوں میں سے چند انسانوں نے اس دماغ سے اور اس عقل و
شعور سے جب کام لیا (جو دماغ اور عقل و شعورعظیم
سائنسدان کی ایجاد ہے تو ایسے ایسے عجائبات سامنے آئے کہ جن عجائبات کو
دیکھ کر،پڑھ کر، سمجھ کر آدم زاد کو اپنی حقیقت کا سُراغ مل جاتا ہے۔ کائنات کے
جوہر انسان نے جب اپنے اندر فٹ آٹومیٹک مشین یا کمپیوٹر سے کام لیا اور خود کو
دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی تو نئے نئے علوم اور نئے نئے فلسفے وجود میں آتے
رہے۔ ان ہی علوم میں ایک علم، جسمانی ساخت "علم الابدان" ہے۔۔۔۔۔
اس علم کو پڑھنے سے پورا تو نہیں مگر کسی قدر، عظیم سائنسدان اللہ کی عظمت و جبروت اور قدرت کا
انکشاف ہوتاہے۔بتایا جاتا ہے کہ مرد کے مادہء تولید کے ایک مکعب سینٹی میٹر میں
ڈھائی کروڑ حیوانات ِ منویہ ہوتے ہیں اور عام حالات میں ایک اخراج میں کئی مکعب
سینٹی میٹر مادہ خارج ہوتا ہوتاہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق اس مادہ میں پچاس
کروڑ زندگیاں موجود ہوتی ہیں۔ ان آدھے ارب جرثوموں میں ہر ایک جرثومہ اپنے اندر
ایک جیتا جاگتا اور متحرک انسان بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایک اوسط قدوقامت انسانی جسم جن چھوٹے چھوٹےخلیات سے بنتا
ہے، ان کی تعادا یک کروڑ ارب ہے، یہ خلیات روزانہ بنتے ہیں اور ختم ہوتے ہیں اور
پھر ان کی جگہ دوسرے نئے خلیات لے لیتے ہیں۔ہر سیکنڈ میں خون کے دس لاکھ سُرخ
خلیات ختم ہو جاتے ہیں اور اتنی ہی تعداد میں نئےخلیات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ ان
خلیوں میں اپنا ایک پورا نظام حیات ہے، جسے عظیم سائنسدان اللہ کےتخلیق کردہ
سائنسدان ، انسانوں نے پچھلے پچیس سال میں ڈھونڈ نکالا ہے اور جس کے نتیجہ میں
جنیات کی ایک پوری سائنس سامنے آگئی ہے۔ یہی جین بچے میں منتقل ہوتے ہیں تو وہ
کالا یا گورا ہوتا ہے۔۔۔دادا، نانا، پرنانا اور ماں باپ کےا نہی جین کی وجہ سے بچے
کی آنکھیں نیلی ، بھوری یا سیاہ ہوتی ہیں اور یہی وہ جین ہیں جن کی وجہ سے بچے کے
بال کالے ، بھورے یا سنہری ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی جسم کے جملہ عجائبات کا بیان تو ناممکن ہے۔ آئیے چند
حقائق پر نظر ڈالیں:۔
انسانی دماغ میں پچیس ارب سے زیادہ نیوٹرون ہوتے ہیں۔۔۔۔ایک
آدمی کی اوسط زندگی میں دل تین لاکھ ٹن خون پمپ کرتاہے اور خون کو دوڑانے کےلئے دل
اپنی بجلی بھی خود پیدا کرتا ہے۔۔۔اگر ایک آدمی ستر سال زندہ رہے تو اس کا دل چار
کھرب دفعہ دھڑکتا ہے۔ ایک آدمی کی اوسط زندگی میں پھیپھڑے پچاس کروڑ مرتبہ پھُولتے
اور سکڑتے ہیں۔۔۔انسانی آنکھ میں ایک کھرب سے زیادہ روشنی قبول کرنے والے ریشے
ہوتے ہیں۔۔۔انسانی بدن میں خون کی شریانوں کو اگر ناپا جائے تو ان کی لمبائی ساٹھ
ہزار سے ایک لاکھ میل لمبی ریلوے لائن کے برابر ہوتی ہے۔
انسانی جسم کے اندر جتنے بڑے بڑَ ے پُرزے فٹ ہیں، وہ سب خود
کار جنریٹر ہیں۔ اور ہر جنریٹر اپنا نظام چلانے کےلئے خود کفیل ہے۔ یہ کیسی حیران
کن اورعجیب بات ہےکہ ایک بچہ بچپن سے نکل کر لڑکپن اور جوانی کی حدود کو پھلانگتا
ہو بڑھاپے میں داخل ہو جاتاہے لیکن اس کے اندر نصب شدہ مشینری بغیر کسی تار برقی
نظام کے چلتی رہتی ہے ۔عظیم سائنسدان اللہ
کہتا ہے کہ "انسان میری بہترین تخلیق ہے مگر وہ اسفل السافلین میں پڑا ہوا
ہے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔