Topics
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی موجود ہے ،اس
لیے ہے کہ اس کی ابتدا ہے۔ کسی شے کی شناخت کا ذریعہ اس کا آغاز ہے اور کسی
شے میں ماہیت قلب ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ شے کی پہلے سے ابتدا ہو چکی ہے ۔ اس
لئے کہ شے میں تصرف بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ شے کا وجود اس طرح ہے کہ شے کی
ابتدا انتہا اور بالآخر اس کا فنا ہونا ہے۔
نظام کائنات پر جو لوگ تفکر کرتے ہیں یہ
بات ان کے لیے اظہر من الشمس ہے کہ کائنات مسلسل حرکت کا نام ہے۔ حرکت کے لیے کسی
محور کا ہونا ضروری ہے۔ ہم محور کو اگر ایک دائرہ تسلیم کریں تو یوں کہا جائے گا
کہ ایک سرے سے دوسرے سرے پر حرکت کا تسلسل اور اختتام ہے ابتدا کی طرف حرکت کا
دورانیہ ہی حرکت ہے۔
حرکت کی ابتدا جہاں سے ہوئی مذاہب نے
اس کا نام ازل رکھا اور حرکت کے اختتام کو ابد کہا گیا ۔ازل اور ابد ایسے دوزخ ہیں
جن پر سموٰات، ارض اور ان کے اندر موجودات کی زندگی برسرِعمل ہے۔ کائنات کی ابتدا
اس طرح ہوئی کے خالق اکبر اللہ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کائنات کو ترتیب ، توازن
،معین مقداروں، حرکت،تغیر اور فنا کے فارمولوں پر تخلیق کیا جائے ۔ چنانچہ خالق
اکبر کے ذہن میں جو پروگرام تھا اس پروگرام کو جاری و ساری کرنے کے لئے
"ہوجا" فرمایا۔ "ہوجا" ایک لفظ ہے لیکن اس لفظ کی افادیت اتنی
ہے کہ کائنات میں کھربوں ، سنکھوں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو یہ کھربوں ،
سنکھوں الفاظ کے سامنے بے معنی نظر آتے ہیں۔
خالق اکبر نے جب ک۔ ن دو حرف فرمائے
تو ان دو حرفوں کے بطن سے مخلوقات وجود میں آگئیں۔ مخلوقات میں بنیادی مخلوق
آدم اور جنات ہیں باقی بے شمار مخلوقات ذیلی تخلیق کے درجے میں آتی ہیں۔
عالم کن کے بعد سمٰوٰت ،کہکشانی نظام
،عالم ملائکہ، ارض اور بے شمار دنیائیں کب اور کس طرح وجود میں آئیں یہ علم لدنی
کا ایک مکمل باب ہے جو انبیائے کرام علیہ السلام اور خاتم النبیین محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی علم ہے۔ اس باب پر سے ان قدسی نفس حضرات نے بھی پردہ
نہیں اٹھایا یا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کے وارث ہیں ۔
بہرحال یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ دنیا
بنی۔۔۔۔۔۔ دنیا بنی ،آسمان قائم ہوا ،ملائکہ کا گروہی نظام ترتیب پایا ۔ یہ بات
بھی قرآن پاک میں بیان فرما دی گئی ہے کہ آدم کی پیدائش سے پہلے سٰموٰت اور زمین
کا نظام قائم تھا۔
اللہ
تعالی نے گروہ ملائکہ اور گروہ جنات کو جمع کرکے فرمایا :
"میں
زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنانے والا ہوں"
فرشتوں
نے عرض کیا کہ:
جس
ہستی کوآپ نیابت اور خلافت منتقل فرما رہے ہیں یہ زمین میں فساد برپا کر دے گا
،خون خرابہ کرے گا "۔
فرشتوں کا یہ عرض کرنا کہ آدم زمین پر فساد
برپا کر دے گا اور زمین کو لہولہان کر دے گا اس طرف اشارہ ہے کہ فرشتے ان عناصر سے
واقف تھے جن عناصر سے آدم کا پُتلا تخلیق ہوا ۔ یعنی زمین پہلے سے موجود تھی اور
اس پر اتنا خون بہہ چکا تھا کہ اللہ تعالی نے نیابت اور خلافت کے منصب کے لیے آدم
کو تخلیق کیا ۔
اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صفات(CREATIVE EQUATION) کا علم سیکھا دیا ۔ آدم
سے فرمایا کہ "ہم نے تمہیں جو علوم سکھائے ہیں وہ فرشتوں کے سامنے بیان
کرو"۔ آدم نے تخلیقی عوام سے متعلق علوم جب بیان کئے تو فرشتوں نے
اعتراف کیا :
"ہم
تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہم کو علم دے دیا ہے"
اور فرشتوں نے آدم کی حکمرانی کو
قبول کرلیا لیکن جنات کے ایک گروہ نے اپنی انا کے خول میں بند ہونے کی وجہ
سے آدم کی حاکمیت کو قبول نہیں کیا۔
قارئین کرام !آئیے کائنات اور نظام کائنات
کا کھوج لگانے کے لیے عالم کاف۔۔۔ نون یعنی ازل میں تفکر کرتے ہیں۔ جب ہم نظام
کائنات کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو ذہن ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ نظام کائنات
قائم رکھنے کے لیے قائدوں، ضابطوں کا ہونا ضروری ہے ۔
"کن"کے بعد اتنی مخلوقات کا وجود
عمل میں آیا کہ اگر ان کو شمار کیا جائے تو اللہ تعالی کے ارشاد کے مطابق
"سارے سمندر روشنائی بن جائیں اور دنیا میں شماریات سے زیادہ درخت قلم بنا
دیے جائیں تو مخلوقات کا شمار ممکن نہیں ہے"۔
اتنے بڑے نظام کو چلانے کے لیے اللہ
تعالی نے زون قائم کیے۔
اس بات کو پھر سمجھئے!
"اللہ تعالی نے جب فرمایا
"ہوجا" اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ذہن میں جو کچھ موجود ہے اللہ
تعالی نے اس کو حکم دیا کہ "ہوجا"۔ تخلیق کا مہفوم یہ ہے کہ تخلیق خلق
ہو جانے کے بعد جب تک تخلیق کرنے والا چاہے، قائم رہے، قائم رہنے کے لیے
ضروری ہے کہ وسائل فراہم کیے جائیں۔ وسائل کے لیے ضروری ہے کہ وسائل کی تقسیم ہو۔
وہ مکرم و محترم حضرات جو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے علم لدنی کے وارث ہیں ، بتاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب
کائنات تخلیق کی تو کائنات کو زندہ اور متحرک رکھنے کے لئے وسائل بھی تخلیق کئے
اور ان وسائل کو تقسیم کرنے کے لئے اپنا ایک نمائندہ معبوث فرمایا۔ اسی بات
کو اللہ کے دوست اللہ کے ہمراز، اللہ سے قریب ترین مخلوق محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
"اول ما خلق اللہ نوری"
یعنی کائنات کا پہلا مظہررسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم ہیں۔
محترم دوستو!
تذکرہ آدم کی خلافت و نیابت کا ہو رہا تھا۔
آدم کی حاکمیت کے اقرار کے بعد تیسرا عالم یہ بنا :
اللہ تعالی نے آدم سے فرمایا " تم اور
تمہاری زوجہ جنت میں رہو لیکن دو باتوں پر عمل کرنا لازم ہے "۔
۱۔ جنت میں خوش ہو کر
رہنا ہے۔ خوش ہو کر کھانا پینا ہے ۔ جنت میں جب تک خوش رہو گے جنت کا کروڑوں اربوں
میل کا رقبہ تمہارے زیر تصرف رہے گا۔ تم ٹائم اسپیس کی پابندی سے مستثنیٰ
رہو گے۔ جہاں دل چاہے جا سکتے ہو ۔
۲۔ جنت میں ایک درخت ہے
اس کے قریب نہ جانا اور اگر اس درخت کے قریب گئے تو تمہارا شمار ظالمین میں ہوگا ۔
جنت ایک ایسا پُرفضا، پُر خمار اور پُرنور مقام ہے کہ جس مقام پر ظالمین کا داخلہ
ممنوع ہے۔
آدم سہوا ً درخت کے قریب چلے
گئے جیسے ہی آدم شجر ممنوعہ کے قریب پہنچے انہیں اپنی نادانی اور غلطی کا احساس
ہوا ۔ جیسے ہی حکم عدولی کے احساس نے کروٹ بدلی آدم کا ذہن محدودیت میں داخل
ہوگیا اور وہ جنت سے زمین پر اتر آئے ۔
اللہ تعالی ستارالعیوب ہیں۔
غفارالذنوب ہیں ،اورعفوودرگزر ان کی عادت ہے، رحمٰن و رحیم ہیں، آدم کی آہ وزاری
پسند آئی اور معاف کر دیا گیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پابند حواس سے رستگاری حاصل
کرنا ہوگی ۔
جس نظام کی ابتدا ہوتی ہے اس نظام کی بلآخر
انتہا بھی ہوتی ہے ۔ جب ہم ازل کا تذکرہ کرتے ہیں تو کائنات کی ابتدا کا مہفوم ذہن
میں آتا ہے اور جب ہم قیامت کہتے ہیں تو کائنات کی انتہا مقصود ہوتی ہے، ابتدا سے
انتہا تک نظام قائم رکھنے کے لیے اللہ تعالی نے آدم سے فرمایا "تیری نسل کے
لیے ہم اپنے منتخب بندے بھیجتے رہیں گے تاکہ تیری نسل ان کی پیروی کر کے دوبارہ جنت
میں جا سکے"
یہ سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہو کر
حضرت نوح تک پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک
قائم رہا اور رشد و ہدایت کا یہ طریقہ قیامت تک قائم رہے گا ۔
روایت ہے کہ اس پیغام کو عام کرنے کے لیے
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر تشریف لائے، ہر پیغمبر کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ
آدم زاد کو اپنا کھویا ہوا وطن دوبارہ واپس لینا ہے اور وطن واپسی کا طریقہ ہے کہ
شجر ممنوعہ (جنت) کے قریب جانے سے پہلے کی زندگی کو اپنایا جائے۔ ساتھ ساتھ ہر
پیغمبر نے اس بات کا اعلان کیا کہ ہمارے بعد نجات دہندہ آئے گا ۔ بالاآخرسیدنا
حضور علیہ السلام تشریف لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی ارشاد
فرمایا کہ "میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا ہوں جو کچھ میرے بھائی پیغمبروں نے
کہی ہے میں اسی کا اعادہ کر رہا ہوں۔ خالق اکبر اللہ ہے۔ پیغمبران کرام علیہ الصلوۃ
والسلام نے توحید کا پرچار کیا ہے۔ میں بھی تصدیق کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی
عبادت کے لائق نہیں ہے "۔
اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ہم نے اپنے
محبوب بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالمین میں موجود ہر مخلوق کے لئے رحمت
ہیں۔ کوئی ان کی رسالت کا اقرار کرے یا نہ کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سب کے لئے رحمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ربُ العالمین ہیں، رحمان و رحیم ہیں اور
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت اللعالمین ہیں۔
زمین پر موجود چھ ارب معلوم آبادی میں ایک
عرب مسلمان بستے ہیں۔ مسلمان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی امت ہیں۔ امت ہونے کے باوصف ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کا نمونہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے مزاج کے مطابق اس کے اندر دوسروں کو معاف کرنے کا جذبہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
۱۔ راستی پر قائم رہو۔
۲۔ تفرقہ نہ ڈالو، ایک
دوسرے سے جڑے رہو۔
۳۔ جو تمہیں محروم کرے
اس کے ساتھ سخاوت برتو۔
۴۔ جو تم پر زیادتی کرے
اسے معاف کر دو۔
۵۔ اللہ کی نشانیوں میں
غور و فکر کرو۔
۶۔ نگاہ، عبرت کی نگاہ
ہو۔
۷۔ گفتگو میں ذکر الہٰی
کا غلبہ ہو۔
۸۔ نماز میں اللہ کے
ساتھ ربط قائم کرو۔
۹۔ خود نیک بنو اور نیکی
کا حکم دو۔
۱۰۔ خوش رہو اللہ کا شکر
ادا کرو۔
۱۱۔ حق تلفی نہ کرو، سب
کے حقوق پورے کرو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا :
"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومن
اور مسلم میں کیا فرق ہے ؟"
حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا
:
"جو لوگ محض کلمہ پڑھتے ہیں وہ مومن
نہیں ہیں اس لیے کہ وہ زبان سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتے ہیں
لیکن حقیقت سے بے بہرہ ہیں ۔ وہ نہیں جانتے کہ کلمہ کا مقصود اور معنی کیا ہیں ۔
وہ نہیں جانتے کس بات کی نفی کر رہے ہیں اورکس بات کا اقرار کر رہے ہیں"۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا " یا رسول اللہ ! کلمہ کیا ہے
۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"کلمہ یہ ہے کہ مومن ماسوا اللہ کی
نفی کر دے اور ذات احدیت کو ہر جگہ اور ہر چیز میں ملاحظہ کرے، مومن کی فراست یہ
ہے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ جس طرف منہ کرو وہاں اللہ کو پاؤگے ۔ مومن کے
دیکھنے کی دو طرزیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دیکھتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور
دوسری طرزیہ ہے کہ مومن خود اللہ کو دیکھتا ہے"۔
ایک دفعہ حضرت حارثہ رضی اللہ تعالی
عنہ سیدنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے۔ حضورصلی
اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا " اے حارثہ تم نے صبح کیسے کی؟"
انہوں نے کہا "میں نے ایسے حال
میں صبح کی میں اللہ پرسچا ایمان رکھنے والا ہوں"۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
" جو بات تم کہتے ہو اس پر غور کرو کیونکہ ہر چیز کی حقیقت ہوتی ہیں۔ بتاؤ
تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟"
حضرت حارثہ نے عرض کیا " میں نے اپنے
نفس کو دنیا سے الگ کر لیا۔ میرے نزدیک پتھر، سونا چاندی اور مٹی کا ڈھیلا سب
برابر ہیں۔ شب بیدار ہوں اور روزے رکھتا ہوں۔ میری حالت یہ ہے کہ میں اپنے رب کو
عرش پر دیکھتا ہوں اور جنت کے باسیوں کو آپس میں باتیں کرتا سنتا ہوں اور اہل دوزخ
کو دیکھتا ہوں کہ وہ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں"۔
حضرت حارثہ کی یہ کیفیت سن کر سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا :
" اے حارثہ! تم نے اپنے رب کو خوب
پہچانا ،پس اس عرفان اور ایمان کو اپنے اوپر لازم کر لو"۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔