Topics

سائنس پکار اُٹھے گی

 

کائنات کے متعلق جدید تصور یہ ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے۔ جوں جوں کہکشاؤں کے جھرمٹوں کے درمیان پھیلتا جا رہا ہے وہ کہکشائیں(GALAXIES) ایک دوسرے سے جدا ہورہی ہیں۔مطلب یہ ہے کہ بہت زمانے پہلے کہکشائیں ایک دوسرے کے قریب تھیں اور بیس ارب سال پہلے کائنات ایک نقطے پر مرتکز تھی۔ پھر ایسا عظیم دھماکہ ہوا کہ یہ نقطہ مرتکزہ پھٹ پڑا اور کائنات کے خدوخال ظاہر ہوگئے۔موجودہ سائنس کہتی ہے کہ کائنات کا مادہ کثیف حالت میں گندھا ہوا تھا اور اس کا درجہ حرارت کروڑوں ڈگری پر تھااس کثیف دہکتی ہوئی اور گرم کائنات میں یکایک چکا چوند روشنی ہوئی اور یہ روشنی کائنات کے افراد بن گئی۔

بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور زمین ویران اور سنسان تھی اور اس کے اوپر اندھیر تھا اور خدا کی روح پانی پر جنبش کرتی تھی اور خدا نے کہا ، روشنی ہو جا اور روشنی ہوگئی اور خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا اور خدا نے روشنی کو تو دن کہا، تاریکی کو رات اور شام ہوئی اور صبح ہوئی۔‘‘

اللہ کی آخری کتاب ہمیں بتاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ اللہ روشنی ہے آسمانوں اور زمین کی۔ اس روشنی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ  ہے وہ چراغ  ایک فانوس میں ہے۔ وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے ، موتی سا چمکتا روشن ہوتا ہے۔ برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھپم کا۔قریب ہے ،اس کا تیل بھڑک اٹھے ، اگر چہ اسے آگ نہ چھوئے، نور پر نور ہے ۔ اللہ اپنے نور کی راہ بتاتا ہے جسے چاہتا ہے۔‘‘

ان دونوں آیتوں پر تفکر کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ فلکیات اور مذہب کی تشریح میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ مذہب کتابوں میں یہ بھی ہے کہ اللہ ان لوگوں پر کائنات کے فارمولے منکشف کر دیتا ہے جو کائنات میں تفکر کرتے ہیں۔

تفکر کی بات سامنے آئی تو یہ سوال ازخود سامنے آجاتا ہے کہ جب یہ کائنات پھیل رہی ہے اور کہکشا ؤں کے درمیان خلا بھی پھیلتا جارہا ہے تو سائنسداں یہ بھی تو بتائیں کہ آغاز سے پہلے کیا تھا۔ آغاز کرنے والا کون تھا۔ کائنات کی اتنی زیادہ وسیع اور ہمہ گیر مشینری کو چلانے والا کون ہے؟

کائناتی وجود کا تذکرہ آتا ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ کائنات ہر لمحہ حرکت میں ہے کائنات بہت سے وجود مل کر قائم ہے اور ہر وجود ایک قاعد سے اور ضابطے کے ساتھ سرگرم عمل ہے ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کے بطن سے انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے۔ شیرنی کے پیٹ سے شیر کا بچہ جنم لیتا ہے ۔ اگر آغاز سے پہلے کوئی طاقت نہ ہوتی تو یہ مربوط نظام کیسے قائم رہتا۔ شیر کے یہاں انسان اور انسان کے یہاں شیر پیدا ہوتے۔

سائنس دان یہ سمجھتا ہے کہ جو چیز اندر سے عقل ثابت نہ ہو وہ قابل قبول کس طرح ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم جب عقل میں تفکر کرتے ہیں تو یہ کہے بغیر گزارہ نہیں ہے کہ ہمارے اندر عقل بھی ہماری نہیں ہے۔اگر عقل پر ہماری گرفت ہے تو پیدائش کے بعد سے شعور بالغ ہونے کے بعد تک ہم کیوں عقلی اعتبار سے کمزور اور ناتواں ہوتے ہیں۔کائنات کا مربوط نظام ہی ہمیں بے عقلی سے عقل کی طرف لے جاتا ہے اور اس سفر میں اعتدال اور توازن نہ ہو تو عقل ذہنی عذاب بن جاتی ہے۔

ایسا نظر آرہا ہے کہ آج کا سائنس دان ایک دن یہ  راز ضرورمعلوم کر لے گا کائنات کے آغاز سے پہلے کیا تھا۔کائنات کے اعضا(کہکشانی  نظام بے شمار زمینیں اور زمینوں کے اوپر بے شمار نوعیں اور نوعوں کے انسانی شماریات سے زیادہ افراد) کی پلاننگ اور ڈرائینگ کس نے کی ہے یا اس لئے  ہوگا اور۔۔۔۔۔۔۔یقینا ہوگا کہ۔

مذہبی دانشور یہ سوچ کر ٹھہر گیا ہے کہ خدا نے کہا۔ ’’ روشنی ہوجا اور روشنی ہوگئی۔‘‘ خدا نے کہا  ۔’’ اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے ۔‘‘ اس سے آگے اس نے کبھی سوچنے اور فکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

لیکن سائنسدان سوچتا ہے۔ تفکر کرتا ہے ۔ گہرائی میں ڈوب کر یہ جاننا چاہتا ہے کہ کا ئنات کیا ہے اس کی ابتدا کس طرح ہوئی۔زمین و آسمان کی ماہیت کیا ہے ۔آسمان بغیر ستون کے کیسے قائم ہے زمین کا بچھونا کس طرح بچھا ہوا ہے۔زمین سخت بھی ہے زمین نرم بھی ہے نہ اتنی نرم ہے کہ آدمی اس کے اندر دھنس جائے اور اتنی سخت ہے کہ آدمی کا چلنا پھرنا اس کے اوپر محال ہوجائے۔زمین کے اندر معدنیات اور نباتات کی کیسے تخلیق ہورہی ہے۔ سائنسداں دیکھتا ہے کہ زمین ایک ہے ، پانی ایک ہے ، دھوپ ایک ہے ، ہوا ایک ہے۔ لیکن جب یہی پانی زمین کے اندر سے پودوں اور درختوں کی رگوں میں دوڑتا ہے تو کہیں پھول بن جاتا ہے کہیں آم بن جاتا ہے تو کہیں انار کا روپ دھار لیتا ہے سائنس علت و معلول کی پیچیدہ گتھی کو سلجھاتا ہوا۔۔۔۔کائنات کے آغاز سے بھی بہت پہلے سوچنے اور دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ سیاروں اور ستاروں کی پیدائش ، ستاروں پر زندگی کے کیمیاوی اثرات ، کرّہ ارضی پر، بلکہ بے شمار کرہ ارضی پر زندگی کا ظہور انسانی اورحیوانی تخلیق ، کہکشانی لہروں کا ایک دوسرے کے ساتھ ملنا اور دور ہونا۔ تابکاری ، جوہری تقسیم و تحلیل کا جب وہ مطالعہ کرتا ہے تو اس کے اندر یقین کاایک دروازہ کھلتا ہے اور یقین کے اس دروازے سے گزر کر جب مشاہدات کی دنیائیں اس کے سامنے آتی ہیں تووہ یہ کہنے پر خود کو مجبور سمجھتا ہے کہ کائنات کے آغاز سے بھی پہلے کچھ تھا۔ کوئی تھا جس کے ہاتھ میں ان سارے کارخانوں کی کنجی ہے۔

مذہبی دانشور اپنے اونچے منبروں پر، مخصوص نشست اور مخصوص لباس کے ساتھ صدیوں پہلے کے رٹے ہوئے تفکر سے خالی وعظ سنا رہے ہیں اور سائنس دان کائناتی سنگلاخ چٹانوں ، دہکتی ہوئی بھٹیوں ، بر فانی پہاڑوں ، خلائی آلودگیوں اور زہریلی گیسوں سے گزر رہا ہے۔

ایک روز آئے گا کہ آج کا سائنس دان یہ اعلان کردے گا۔

میں نے خدا کو دیکھ لیا ہے۔میں نے خدا کو جان لیا ہے اور خدا ہی وہ ذات ہے جو کائنات کے آغاز سے پہلے سے ہے اور جس نے کہا تھا۔

’’اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی کی روشنی ہے۔‘‘

اور اس نے کہا تھا۔

روشنی ہو جا اور روشنی ہوگئی۔


 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔