Topics
ہر آدمی اس بات سے اچھی
طرح واقف ہے کہ دنیا میں آنے سے پہلے اس کا مقام ماں کا پیٹ ہے اور ماں کے پیٹ سے
پیدا ہونے والا ہر بچہ چاہے وہ غریب ہو، فقیرہو، بادشاہ ہو، کمزور ہو یا طاقتور ہو
اس قانون کا پابند ہے کہ اس کی نشوونما 9 ماہ تک ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ نشوونما
سے مراد یہ ہے کہ سفید چنے کے برابر بچہ ہر روز بڑھتا رہتا ہے ۔ سفید چنے کے برابر
بچہ میں ریڑھ کی ہڈی بنتی ہے، ہاتھ پیر بنتے ہیں، دماغ بنتا ہے، دل پھیپھڑے ،جگر
اور گردے بنتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدرت ماں کے پیٹ میں پیدائش تک بچہ کو
وسائل فراہم کرتی رہتی ہے۔ جب بچہ زمین پر مظاہراتی قیام کرتا ہے تو قیام کا
دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ پیدائش سے پہلے قدرت نے زمین کو بچھونا بنا دیا ہے ۔
ہم زمین پر گھر بناتے ہیں
اور گھر میں آسائشوں و آرام کا سامان اکٹھا کرتے ہیں۔ یہ سامان بھی زمین کی کوکھ
سے جنم لیتا ہے ۔
لکڑی، لوہار، ڈرائی فروٹ،
سیب، انگور، امرود، انار، تربوز،خربوزہ۔۔۔۔۔۔ دوسرے بے شمار پھل اور خوردونوش کی ہر چیز کی ماں زمین ہے۔
ہم
جو نوکریاں کرتے ہیں ۔ دکانیں کھولتے ہیں۔ ہمیں جو روزگار ملتا ہے وہ ہماری پیدائش
سے پہلے سے موجود ہے۔ ہم کام اس وقت کرتے ہیں جب ہمارے اندر توانائی ہو۔ عقل و
شعور ہمارے اندر کام کرتا ہو۔ اگر اللہ تعالی ہمت نہ دے، دماغ میں صلاحیت کا ذخیرہ
نہ ہو ،ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔
ایک آدمی فرنیچر کا کام
کرتا ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالی نے درخت اگا دیے ہیں۔ دوسرا آدمی لوہے کا کام کرتا
ہے۔اللہ تعالی نے زمین میں لوہے کی کانیں محفوظ کردی ہیں۔ تیسرا آدمی آٹے کا
کاروبار کرتا ہے اللہ تعالی نے زمین کو حکم دے دیا کہ گیہوں پیدا کرے۔
قدرت نے سب کچھ مخلوق کے لئے پیدا کیا ہے اور ہر چیز مخلوق کو مفت فراہم کی
جارہی ہے ۔آدمی کو یہ سوچنا چاہیے کہ قدرت نے یہ نظام کیوں قائم کیا ہے؟ اس میں
کیا حکمت ہے ؟
اللہ تعالی نے اپنا تعارف
اس طرح کرایا ہے کہ اللہ کو کسی قسم کی احتیاج نہیں ہے۔ وہ واحد اور یکتا ہے۔
اولاد اور ماں باپ کے رشتوں سے آزاد ہے ۔ وہ خاندانی جھمیلوں سے بھی ماورا ہے۔ پھر
کیا وجہ ہے کہ اللہ نے اپنی مخلوق کے لیے اتنا بڑا مربوط نظام قائم کیا ہوا ہے۔
بندے کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ اسے کتنا پانی پینا ہے۔ بندہ یہ بھی نہیں جانتا
کہ اسے کتنی ہوا کی ضرورت ہے۔ تفکر طلب امر یہ ہے کہ آدمی یہ بھی نہیں جانتا کہ
انسانی جسم میں کام کرنے والی مشین کی قیمت ایک کروڑ 90 لاکھ روپے ہے۔ ہر بندہ میں
دل پھیپھڑے گردے وغیرہ اور ہڈیاں ہمہ وقت متحرک ہیں۔ وریدوں اور شریانوں میں خون
دوڑ رہا ہے۔ اگر یہ سب مصنوعی اعضاء اور ہڈیوں کا اسٹرکچر خریدا جائے توتقریبا دو
کروڑ کی رقم بنتی ہے۔
سوال
یہ ہے کہ اللہ تعالی نے یہ سب کیوں بنایا ہے۔ انسان کے لئے سورج، چاند، ستارے اور
کہکشانی نظام قائم کرنے میں کیا حکمت مخفی ہے۔۔۔۔؟
خود
اللہ نے بتایا ہے کہ میں تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہوں اور انسان میری
بہترین تخلیق ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میری بہترین تخلیق انسان مجھے پہچانے۔ میرا
عرفان حاصل کرکے میرے ساتھ دوستی کرے ۔ میری صناعی پر تفکر کے اس صناعی سے مزید تخلیقات عمل میں
لائے۔ چاند ،سورج، زمین، آسمان کو میں نے انسان کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ انسان
میری بادشاہت میں شریک ہوکر کر کائنات پر
حکمرانی کرے ۔اس لیے کہ انسان میری بہترین تخلیقی صلاحیتوں کا شاہکار ہے۔
غور
کیجیے! آپ کا نہایت خوبصورت ذہین و فطین بچہ اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کرتا۔
اس کے اوپر جمود طاری ہے ۔ وہ خود کوعضو معطل بنائے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔ کیا آپ باپ یا
ماں کی حیثیت سے اس بچہ کی عدم کارکردگی سے خوش ہوں گے جبکہ آپ اپنی اولاد کی قدرت
کی دی ہوئی چیزوں سے ہی پرورش کرتے ہیں؟ اور قدرت آپ کو وسائل مفت فراہم کر رہی ہے۔۔۔۔!
آپ کا جواب یقینا ًیہ
ہوگا ، نہیں! کوئی ماں باپ عضو معطل بچہ کی زندگی سے خوش نہیں ہوتے۔
یاد
رکھیے! یہ سارا نظام اللہ نے اپنے نائب فی
الارض خلیفہ آدمی کے لئے بنایا ہے۔ اللہ نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ انسان اللہ
کے دیے ہوئے اختیارات سے اللہ کے نظام کو چلائے۔ بادشاہی کے حقوق پورے کرے۔
فرشتوں،جنات، اور تمام مخلوق پر حاکم انسان جب بے بسی کے ساتھ فکر و آلام کے
سمندر میں ڈبکیاں کھاتا ہے تو دوسری مخلوق اس پرہنستی ہے۔ اس کا مذاق اڑاتی ہے کہ
ایک با اختیارآدمی نے خود کو کتنا بے اختیار بنا لیا ہے۔
افسوس !ماضی، حال، مستقبل اس کے لیے عذاب بن گیا
ہے۔ تین سال تک محنت کے بغیر نشوونما پانے والے آدمی نے خود کوایک روٹی کے لیے
محتاج بنا لیا ہے ۔ اللہ نے اسے ہر قسم کے وسائل دیے۔ محبت دی اسے صحت و تندرستی
دی ،روزگار دیا ،اولاد دی ، بیوی دی اور شوہر دیا لیکن آدمی نے کبھی دینے والی
ہستی کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا ۔
میرے دوستوں! میرے بچو!
مجھے سوچنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ میں اس عادت سے مجبور ہوکر آپ کو فکر کرنے اور
سوچنے کی دعوت دیتا رہتا ہوں۔ مجھے بتائیں، زندگی کے ماہ و سال شمار کر کے میری
راہنمائی کریں کہ ہماری اللہ سے کتنی دوستی ہے اور ہم شیطان کے کتنے وفادار ہیں۔
میری
سوچ کا حاصل تو یہ ہے کہ ہماری دوستی اللہ سے دو فیصد بھی نہیں ہے ۔ جب کہ ہم ببانگ دہل پکارتے ہیں کہ شیطان ہمارا کھلا دشمن
ہے ۔ کیا ہوا ،پانی، سورج، چاند، زمین ہمارے لئے شیطان نے تخلیق کی ہے۔ کیا ہمیں اولاد شیطان نے دی ہے۔ کیا روزگار کے
وسائل اس نے ہمارے لیے مہیا کیے ہیں ؟
پھر کیوں ہم ابلیس کے
گرویدہ ہیں۔ ہر وہ بات جو اللہ کو پسند ہے اس سے منہ موڑ لیتے ہیں اور ہر وہ کام
جو شیطان کا ورثہ ہے ہماری زندگی کی معراج بن جاتا ہے۔
میرے
بچوں!آؤ۔ میرے گرد جمع ہو جاؤ تاکہ ہم باپ بیٹے اور ماں بیٹی کے رشتے سے اپنا
محاسبہ کریں کہ ہماری زندگی میں اپنے محسن اپنے خالق کی صفات کا کتنا عمل دخل ہے
اور راند ۂ درگاہ شیطان کس طرح ہمارے خون کے ساتھ دوڑ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا ہم نہیں جانتے کہ
انسان کا بدترین دشمن شیطان ہے۔ جو ازل سے ہی ہماری گھات میں لگ گیا تھا۔ یہ کیسی
حرماں نصیبی ہے۔۔۔۔۔۔ کہ ہم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی بات نہیں سنی جو
ہمارے لئے رحمت ہیں۔ جو ہمارے لئے شفاعت کا وسیلہ ہیں اور جو ہمارے خالق اللہ کے
دوست ہیں اور ہم سب کے ازلی اور ابدی خیرخواہ ہیں۔
کیا
ہم نے اپنے اوپر اللہ کی رحمتیں شمار کی ہیں جو پیدائش کے پہلے مرحلہ سے مرتے دم
تک ہمیں حاصل رہتی ہیں؟ کبھی ہم نےسوچا ہے کہ شیطان کی طرف سے کتنی رحمتیں نازل
ہوتی ہیں۔ دشمنی کے کتنے جال پھینکے جاتے ہیں۔ شیطانی عمل نے من حیث القوم ہمیں
اللہ سے کتنا دور کر دیا ہے۔ کیا ہم دوزخ سے قریب اور جنت سے دور نہیں ہو رہے ہیں؟
میرے دوستوں! میرے لیے۔
اپنے لیے مہربانی فرما کر محاسبہ کریں۔ بچوں میں بیٹھیں بچوں سے بات کریں۔ اپنی
رفیق زندگی کو سمجھائیں ۔ دوستوں کی بیٹھک بٹھائیں۔ ان میں چرچا کریں کہ ہم شیطان کی دوستی میں
اپنا سب کچھ برباد کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے دس آدمیوں میں میں کہی ہوئی بات کسی ایک
کے دل میں اتر جائے۔ ہماری اصلاح کے ساتھ اس کی اصلاح بھی ہو جائے۔ اگر ہماری
کمزوریاں دور نہ ہوئیں تو ہمیں شرمندگی ہوگی کہ ہم نے فلاں شخص کو ایک بات بتائی
تھی۔ اس نے اپنی اصلاح کرلی۔ ہم کتنے بے حیا ہیں کہ خود عمل نہیں کرتے۔
آج
کا دور دولت پرستی کا دور ہے۔ کوئی بھی پرستی ہو۔ اللہ واحد لا شریک کے علاوہ ہر
"پرستی" شرک ہے۔ شرک ایک ایسا گناہ کبیرہ ہے کہ معاف نہیں کیا جاتا ۔
میں آپ کو ایک راز کی بات بتانا چاہتا ہوں۔ آپ یہ بات اپنی اولادوں اور اپنی نسل
کے ذہنوں میں منتقل کریں۔
" گناہ سے قومیں برباد ہوتی ہیں۔ گناہوں
کی معافی ہو جاتی ہے۔ گناہوں سے آدمی کے اندر احساس ندامت پیدا ہوتا ہے۔ وہ اللہ
کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اللہ تعالی ٰستارالعیوب اور غفارالذنوب ہے۔ وہ گناہ معاف کر
دیتا ہے"
لیکن
دولت پرستی ۔MATERIALISM
شرک ہے اور شرک معاف نہیں کیا جاتا اور قومیں جو شرک میں ڈوب جاتی ہیں ان کو اللہ
کا ہولناک عذاب صفحہء ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ قوم عاد، قوم ثمود،قوم لوط ،اور قوم
نوح کی ہلاکت میں براہ راست شرک کا عمل دخل ہے۔
بت پرستی، سورج پرستی،
آتش پرستی، دولت پرستی سب ایک طرز فکر کے مختلف نام ہیں ۔
"اپنے سینے پر ہاتھ رکھئے اور بتائیے کہ
دولت کے انبار میں سے کون اپنے ساتھ کیا لے کر گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟"
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔