Topics

تصوف اوراصحاب رسول


ایک مجلس میں مختلف طرز فکر اور کئی  علوم کے ماہرین جمع تھے۔ حسن اتفاق سے ایک فقیر نے صدا لگائی حق ہُو، ہُو اللہ دانشوروں نے فقیر کی صدا سنی تو عزت و تکریم کے ساتھ اسے خوش آمدید کہا ۔صورتحال کچھ یوں بنی۔

 ایک صاحب علم الاعداد کے ماہر تھے۔ دوسرے صاحب علم نجوم پر دسترس رکھتے تھے۔ تیسرے صاحب کو علم جفر پر ملکہ تھا۔ چوتھے بزرگ ایک بہت بڑی درسگاہ میں سائنسی علوم کے استاد تھے۔ سلام و دعا کے بعد ان چار دانشوروں نے گہری آنکھوں سے فقیر کو ٹٹولا۔ ماہر علم نجوم نے کہا۔ ستارے انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں انسانی زندگی کو سعید اور نحس بناتے ہیں ۔کوئی آدمی جب ساڑھ سٹھی میں آجاتا ہے تو اس کے اوپر پریشانیوں تکلیفوں  بیماریوں اور بے سکونی کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔

فقیر بولا! علم نجوم میں بنیادی بات ٹائم فیکٹر ہے۔ پیدائش کے وقت عام طور سے وقت نوٹ نہیں کیا جاتا۔ محض یہ معلوم ہونا کہ بچہ صبح کے وقت پیدا ہوا یا شام کے وقت پیدا ہوا۔ وقت کا تعین نہیں کرتے۔ کائناتی نظام میں ہر چیز ہر وقت ہر آن حرکت میں ہے، ستارے بھی حرکت میں ہیں۔ اس کے علاوہ مذہب علم نجوم کی نفی کرتا ہے۔ آسمانی کتابیں بیان کرتی ہیں کہ انسانوں کے لئے چاند کو، سورج کو، ستاروں کو، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب کا سب مسخر کر دیا گیا ہے ۔

ماہرین علم نجوم یہ کہتے ہیں کہ ستاروں کے زیر اثر انسانی زندگی میں تبدیلی ہوتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ستارہ انسان کے لئے مسخر نہیں ہے بلکہ انسان ستارے کے تابع ہے۔

 علم الاعداد اور علم جفر کے ماہرین یہ تشریح سن کر دم بخود ہو گئے اور بولے۔ علم نجوم کے بارے میں ایسی تشریح نہ کہیں پڑھی اور نہ کہیں سنی ہے۔

سائنسدان نے ہاتھ کی ہتھیلی سے تین بار پیشانی کو تھپکا اور اپنی خشخشی داڑھی کو انگلیوں سے مسلتے ہوئے کہا:

سائنسی علوم میں کوئی بات لوجک کے بغیر نہیں ہوتی جبکہ فقراء سائنسی علوم سے بے بہرہ ہوتے ہیں یا سائنسی علوم کو اہمیت نہیں دیتے، فقیر نے یہ بات سنی تو اس کا دوران خون تیز ہوگیا۔ کانوں کی لوئیں سرخ ہو گئیں۔ لگتا تھا آنکھوں میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔ فقیر نے دھیمے لیکن چھبتے ہوئے لہجے میں کہا ۔سائنسدانوں کا ایک گروہ خدا کے وجود کو بغیر لوجک کے ماننے پر تیار نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ کائناتی مشینری کو چلانے والی انرجی کو الیکٹران کا نام دیتا ہے اس گروہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ الیکٹران کو کسی نے نہیں دیکھا اور نہ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کیسی منطق ہے کہ سائنسدان خدا کے وجود کو لوجک کے بغیر تسلیم نہیں کرتا اور ساتھ ہی کائنات کی بنیاد ان دیکھی چیز کو قرار دیتا ہے۔ یہ منافقانہ طرز عمل کم از کم پڑھے لکھے لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ مجلس میں لوگ نہایت انہماک اور توجہ سے دانشوروں کی ان عالمانہ نکتہ آفرینیوں میں منہمک تھے کہ مجلس میں ایک مولوی صاحب تشریف لے آئے، چہرے پرطویل و عریض داڑھی تھی سر پر عمامہ تھا ،آنکھوں میں سرمےیا کاجل کے ڈورے تھے، سفید براق لباس زیب تن تھا، کلف لگا ہوا ململ کا کرتا اور ٹخنوں سے اونچے پاجامے میں حضرت مولانا بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ مجلس میں داخل ہوئے تو ان کی شخصیت کا رعب پڑا اور حاضرین مجلس میں کھڑے ہو گئے، لوگوں نے جھکی ہوئی گردنوں سے مصافحہ کیا اور ان میں سے کچھ نے عقیدت و احترام کے جذبے سے مغلوب ہوکر معانقہ کیا، حضرت مولانا کی تشریف آوری کے بعد مجلس کا رنگ ہی بدل گیا۔ بات سائنسی دائرے سے نکل کر مذہب اور تصوف پر آگئی۔ مولوی صاحب نے فرمایا۔ صوفیا نے اسلام میں تصوف کی پیوند کاری کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر بلند مرتبہ کوئی ذات ہے تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔صحابہ کرام کے دور میں تصوف کی اصطلاحات اور تصوف کی مشقیں ریاضت و مجاہدات اور مراقبات کا تذکرہ نہیں ملتا۔ لوگ اپنے روحانی استاد یا مرشد کی کرامات بیان کرتے ہیں۔ صحابہ کرام اور صحابیات کی کرامات کا تذکرہ کہیں نہیں ہوتا ۔

فقیر نے کچھ دیر خلا میں اس طرح دیکھا جیسے اسے کسی چیز کی تلاش ہو، لوگ خوش ہوئے کہ مولوی صاحب کے علم کا جادو فقیرپر چل گیا ہے۔ روشنی کا ایک جھماکہ ہوا، فقیر کے چہرے پر ملکوتی تبسم پھیل گیا، آنکھوں میں سچے موتیوں جیسی چمک ظاہر ہوئی، ایک عجیب خمار اور سرشاری کی کیفیت میں آواز گونجی لگتا تھا کہ آواز خلا کے اس پار سے کہیں سے آ رہی ہے۔ آواز یہ تھی۔۔ میں نے اعلیٰ علیین میں صحابہ کرام اور صحابیات کی ارواح طیبات کو دیکھا ہے ان کی روحیں نور نبوت سے لبریز ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام اور صحابیات کی توجہ زیادہ تر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غور و فکر میں صرف ہوتی تھی اور ان کی روحانی تشنگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر اور آپ کی احادیث پر توجہ کرنے سے پوری ہوجاتی تھی۔ صحابہ کرام اور صحابیات کو مرتبہء احسان حاصل تھا مرتبہ احسان یہ ہے کہ بندہ یہ محسوس کرے اور دیکھے کہ اسے اللہ دیکھ رہا ہے اور مرتبہ احسان یہ ہے کہ بندہ محسوس کرے کہ میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ یہی طرز عمل تصوف اور روحانیت ہے۔ مرتبہ احسان دراصل ذہنی یکسوئی، تفکرکنسنڑیشن مراقبہ یا Meditation ہے. اب رہ گئی بات کرامات کی، تاریخ اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور صحابیات کی کرامات اور خرق عادات کا ریکارڈ موجود ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا، میں نے تمہیں بیس وسق کھجوریں ہبہ کی تھیں اس مال میں تمہارے دو بھائی اوردو بہنیں شریک ہیں ۔حضرت عائشہ نے عرض کیا بابا جان میری تو ایک ہی بہن اسماء ہے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا تمہاری سوتیلی ماں بنت خارجہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پیٹ میں لڑکی ہے یہی وہ لڑکی تھی پیدائش کے بعد جن کا نام ام کلثوم رکھا گیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ممبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ دوران خطبہ فرمایا :یاساریہ ۔۔۔الجبل۔ تاریخ اسلام شاہد ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی آواز ہزاروں میل دور شہر نہاوند میں ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ اور لشکر اسلام نے سنی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک خاتون آئیں اور تین مرتبہ اپنے جرم کا اعتراف کر کے کہا کہ مجھے سنگسار کر دیا جائے۔ حضرت عثمان نے اس کو کھجوریں، کشمش اور آٹے کے تھیلے دے کر روانہ کردیا، بعد میں معلوم ہوا کہ اس عورت نے مصیبتوں اور فاقوں سے تنگ آکر یہ جھوٹ بولا تا کہ اسے تکلیفوں سے نجات مل جائے ۔جناب حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ خیبر جیتی جاگتی اور منہ بولتی زندہ کرامت ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اس دروازے کو پھینک دیا تو تو سات آٹھ آدمیوں نے اس دروازے کو پلٹنے کی کوشش کی لیکن پلٹ نہ سکے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ جبرائیل علیہ السلام تم کو سلام کر رہے ہیں میں نے کہا ان پر اللہ کی سلامتی ،رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ حضرت بی بی فاطمہ نے خوب اچھی طرح غسل کر کے نئے کپڑے پہنے اور گھر کے صحن میں بستر پر لیٹ گئیں۔  قبلے کی طرف منہ کرکے  اپنا ایک ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھا اور کہا میں اپنے اللہ  سے ملنے جا رہی ہوں اور بالکل پاک ہوں۔ اب  کوئی شخص بلا ضرورت مجھے نہ کھولے اس کے بعد ان کی روح پرواز کر گئی ۔صحابہ کرام اور صحابیات کی بے شمار کرامات تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں ۔



Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔