Topics

امت مسلمہ کے چودہ سو سال

 

۱۴ سو سال پورے ہونے کے بعد آج بھی یہ سوالیہ نشان اپنی جگہ موجود ہے کہ:

اُمّت مسلمہ کو  موجود  بحران اور ذلّت کی زندگی سے کس طرح نکالا جائے۔ اُمّت کی اصلاح کی کشتیاں ساحل سلامتی تک پہنچانے تک لے جانے والی ہر کشتی میں عوام ذوق و شوق سے سوار ہوگئے۔لاکھوں مخلص اور ہزاروں زاہد لوگوں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کی تعداد میں منافق بھی شامل ہوتے رہے۔ان تنظیموں نے شب و روز کام بھی کیا، لیکن اتنے طویل عرصے میں کامیابی کسی کا بھی مقّدر نہ بنی۔ کوئی ایسی تنظیم سامنے  نہیں آئی جس کا سفینہ کُلیتا اخلاص کا پیکر ہو۔ ہر تنظیم نے اللہ کی کتاب اور رسول ؐ کی سّنت کا پر چار کرنے کا دعوٰی کیا۔ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا رہا کہ ہم اللہ کی پسندیدہ منزل پر پہنچانے کا ادراک رکھتے ہیں، ہمارے پاس اسلامی نشاۃ ثانیہ کا ورثہ ہے۔ ہم  اس نقشے سے واقف ہیں جس نقشے پر فتوحات رقم ہیں۔ جن راہوں پر چل کر عمر فاروق  ؓ کی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔جب کہ عمر فاروق  ؓ کی داخلی اور خارجی زندگی کا ایک ایک عمل ، پورا کرداری خاکہ تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔

ہم جب تاریخ کے اوراق الٹنے ہیں تو اس کے علاوہ کوئی بات سامنے نہیں آتی کہ امّت نے جس تنظیم کے ساتھ امیدیں والبستہ کیں ، امید پوری نہیں ہوئی بلکہ امّت کے اوپر بے حسی ، خود غرضی اور مزید مایوسی مسلّط ہوگئی ۔انتہا یہ کہ امّت میں سے خود احتسابی کا عمل ختم ہوگیا۔ ایک گروہ کے بعد دوسراگروہ آتا رہا اور ناکامی کے اسباب بیان ہوتے رہے۔ کسی نے کہا، ناکامی کی وجہ خارجی ہے۔ دوسرے گروہ نے کہا ، ناکامی کے اسباب خارجی نہیں داخلی ہیں۔

خارجی اسباب کو وجہ سمجھنے والوں نے بتایا کہ غیر مسلم لابی نے کشتی کو کنارے نہیں لگنے دیا اور خارجی رہزنوں نے سمندر کو طوفانی بنا دیا۔اور ان طوفانی لہروں نے کشتی کو کنارے نہیں لگنے دیا۔ اس طرزِ کے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات کے پھیلاؤمیں باہر کی مداخلت دیوار بنتی رہی۔ پالیسی بنانے والوں کے اوپر ہمیشہ خارجی طاقتوں کی گرفت مضبوط رہی ہے۔  اس کے بر عکس دوسرا گروہ ناکامی اسباب داخلی اثرات کو قرار دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تنظیم کا سربراہ اور کارکنان جو کچھ کہتے ہیں فی الواقع ان کا عمل اس کے خلاف ہوتا ہے۔ ہر شخص الا ماشاء اللہ اقتدار کا خواہش مند اور ہوس کا بھوکا ہے۔ دوسروں کو عبرت کی باتیں سناتا ہے لیکن خود اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا۔

دوسروں کو نصیحت ، تلقین اور تبلیغ اس لیے کرتا ہے کہ اس عمل سے اس کی اَنا کو تسکین ملتی ہے۔ خدائی نظام کو قائم کرنے کے لیے جن صعوبتوں اور مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہے، اس پر بہت کم لوگ پورے اترتے ہیں۔ تنظیموں اور تحریکوں نے جو لائحہ عمل مرتب کیا ہے وہ ایسا نہیں ہے جس پر عوام زیادہ عرصے تک اپنے شب و روز گزار سکیں۔ آج ایک آدمی بھوکا ہے۔ رہنے کے لیے اُسے گھر چاہیئے۔

بچّوں کی تعلیم کے لیے اُسے روپیہ چاہیئے۔ بدن ڈھانپنے کے لیے کپڑا چاہیئے۔ یہ تمام بنیادی ضرورتیں محض وعدئہ  فرد اسے پوری نہیں ہو سکتیں۔

ہر نئی تنظیم کا سر براہ ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ اسلامی نظامِ عمل قائم کرنے میں میری پالیسیوں پر عمل کر لیا گیا تو میں اسلامی فلاحی مملکت کو دوبارہ زندہ کردوں گا۔ لیکن کس طرح فلاحی مملکت قائم ہوجائے گی یہ دستور کوئی نہیں دیتا۔

ہر وہ شخص جو اسلامی ریاست کا پر چار کرتا ہے اس کی زندگی عمر فاروق  ؓ کی زندگی سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ اسے بہترین لباس بہترین رہائش، بہترین گاڑی، سفر میں جہازوں کی سہولت ، انواع و اقسام کے کھانے اور بچّوں کی اعلیٰ تعلیم کی سہولت حاصل ہے۔ اُمّت مسلمہ کے عوام ان سہولتوں سے محروم ہیں۔ عوام کی زندگی میں ان کی رمق بھی نظر نہیں آتی۔

جبہ و قبا کے ساتھ منبر نشین ہو کر وعظ و نصیحت بلا شبہ کوئی بُری بات نہیں ہے بلکہ ہر اعتبار سے احسن عمل ہے۔ لیکن جب داخلی زندگی کا تجزیہ کیا جاتا ہے وہ سراسر اس کے برعکس ہوتا ہے جس کی تبلیغ کی جاتی ہے۔

اللہ کہتا ہے:۔

جو لوگ ہماری آیتوں کا کاروبار کرتے ہیں ہم ان کا پیٹ دوزخ کے انگاروں سے بھریں گے۔

محراب و منبر سے علمائے سُو پیٹ میں انگارے بھرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ ہر مسلک کا ہادی یہ کہتا ہے کہ میں حق پر ہوں ناجی ہوں ۔باقی تمام لوگ بدعتی، کم یقین اور ناری ہیں۔باری یا ناجی ہونے کے لیے کسی کے پاس بھی سند نہیں ہے۔کچّے ذہن کے عوام چوپایوں کی طرح ہیں ۔ جس نے جوشِ خطابت سے متاثر کردیا اس کے پیچھے ہو لیئے۔۔۔ ہر تنظیم اپنے ہی کو اسلامی تنظیم تصوّر کرتی ہے۔دعویٰ یہ ہے کہ وہ حق پر ہے ، باقی گم کردہ راہ ہیں۔

بات یہ ہو رہی تھی کہ چودہ سال گزرنے کے بعد ہمارا قرآن وہی ہے جو نبی برحق پر نازل ہوا۔ نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ سب وہی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ذلّت اور گمراہی کے گہرے گڈھے میں زندہ درگور ہو رہے ہیں۔ نماز، روزہ ، حج ، زکوٰۃ وہی عمل ہے، جس پر ثابت قدم رہ کر ہمارے اسلاف نے پوری دنیا پر حکومت کی ہے۔ ایک وقت تھا کہ آج کا سائنسی دور ہمارے زیرِ اثر تھا۔ ایجادات و اختراعات کا اعلان اسلام کے دروازے سے ہوتا تھا۔ اسلام کے پیروکاروں کو عروج نصیب تھا۔ اسلام کے در سے اللہ کی مخلوق سیراب ہو کر کھاتی پیتی تھی۔ آج ہم بد نصیب ہیں۔ بھکاری ہیں۔ خستہ اور مفلوک الحال ہیں۔

اللہ کہتا ہے، سود لینے والا اور سود دینے والا میرا دشمن ہے اور میرے ساتھ حالتِ جنگ میں ہے۔ جس بندہ کو اللہ اپنا دشمن قرار دیدے ، کیا اس کی نمازہو سکتی ہے، کیا اُس کا حج قبول ہوگا؟

اسلامی چولا پہننے والی تنظیمیں کیسے اسلامی نظام نافذ کر سکتی ہیں جب کہ ان کی زندگی بھی مو جودہ بد ترین دور کی محتاج ہے۔ہم نے اس المیے پر سوچ بچار کیا ہے۔ ہمارے سامنے ایک ہی بات آتی ہے:۔

ہر اسلامی تنظیم کا پہلے یہ منشو ہونا چاہیئے کہ امّت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے۔ دیو بندی، بریلوی ، دھابی نجدی  شعیہ ، سنّی طبقات کو اس طرح باہم دگر شیر و شکر کردیا جائے کہ امّت مسلمہ اللہ کے اس فرمان پر عمل پیرا ہوجائے۔

اللہ کی رسّی کو متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔

اُمّتِ مسلمہ مِلّت سے کٹ کر تفرقہ سے، طبقات میں تقسیم ہو کرملّی اور جتماعی تقاضوں سے آنکھیں بند کر کے انفرادی خوشحالی ذاتی معاشی ترقی، ذاتی منصب و اغراض پر کبھی با عزّت زندگی نہیں گزار سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس قوم نے بھی ذاتی مفاد کے گروہی تعصب کو ہوا دی، ملّت میں تفرقہ ڈالا اور اس تفرقہ کی بنیاد پر خود کو جنّتی ، اور دوسروں کو دوزخی قرار دیا وہ تباہ کر دی گئی۔ اس کا نام صفئحہ ہستی سے مٹ گیا۔اس کو ذلیل و خوار کر کے زمین پر دربدر کر دیا گیا۔

اللہ کہتا ہے کہ:۔

جو قوم اپنی حالت میں بہتری پیدا نہیں کرتی، اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اور اس قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ایسی قوم دربدر ٹھوکریں کھا کر بالآخر اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔

جس نسل ، جس ملک ، جس قوم نے اللہ کے قانون کو  توڑا ، اور اجتماعی سوچ کو نظر انداز کرکے ریشم کے کیڑے کی طرح انفرادی سوچ کے غلاف میں بند ہوگئی، وہ ختم ہوگئی۔ اپنی کوتاہ نظری، کوتاہ اندیشی سے حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی۔ ایسی قوموں کی زندگی کا تار و پودبکھر گیا۔

اندلس، بخارا،سمرقند،اسپین، ہندوستان کی تاریخ اور ان پاکستان کا دہ لخت ہونا ہمارے سامنے ایک کُھلی ہوئی کتاب ہے۔

ہائے افسوس! خود انسانوں کے ہاتھوں  زمین پر، بیابانوں میں،بحر و بر میں فساد پھیل گیا۔

ؓظہرالفسادنی البر و البحر بما کسبت ایدی الناسء (سورئہ روم آیت ۴۱تا)



Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔