Topics

استاد ازل

 

ایک وقت تھا کہ کچھ نہیں تھا۔ کوئی یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ کہکشانی نظام کس نے بنایا ہے۔کون ہے وہ ذات جسکے ذہن کی بو قلمونی نے کروٹ بدلی تو رنگ رنگ کہکشائیں۔ کہکشا ؤں میں شمسی نظام اور شمسی نظام میں سیاروں اور ستاروں کی قندیلیں ، قطاردر قطار وجود میں آگئیں۔ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود پھر بھی کچھ نہیں تھا۔ کیوں نہیں تھا، اس لیے نہیں تھا۔ کہ ہونا اس وقت ہوتا ہے جب اسکا علم ہو۔

استاد ازل نے سب کچھ اپنے لیے۔اپنے ذہن کے لیے ، اپنے علم کے لیے مخصوص کر لیا تھا۔ استاذ ازل کے ذہن میں حرکت ہوئی تو علم کے نو ادرات ، علم کے نقش و نگار ، علم کی گہرائی اور علم کی افادیت کے خزانے منظر عام پر آنے کے لیے مچلنے لگے۔ علم میں حرکت اور مسلسل حرکت سے استاذ ازل کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ علم کو سمیٹ کر رکھنے کی بجائے پھیلا دینا چاہئیے ، بکھیر دینا چاہئیے۔ اس طرح پھیلا دینا اور بکھیر دینا  اور بکھیر دینا چاہیے کہ ایک کائنات بن جائے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔کائنات بن گئی۔ کائنات بن گئی تو کائنات کو پھیلانے کے لیے ، زینت دینے کے لیے، چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنا کائنات کی ایک ضرورت بن کر سامنے آئی۔منظم اور مربوط تقسیم در تقسیم کائناتی پروگرام کے لیے نوعی پروگرام عمل میں آیا۔ ہر نوع کو ایک دوسرے سے ممتاز رکھا گیا۔ تاکہ آپس میں تعارف قائم رہے۔ اور پھر ہر نوع افراد پر تقسیم ہوگئی۔ اسطرح افراد کا کنبہ اجتماعی روپ میں جلوہ گر ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب تو ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ سب ہونے میں علم بنیاد بنا ۔ علم  سکھانے کے لیے استاد کی ضرورت کے پیش نظر خود علم کا خالق استاد بن گیا۔اس مقدس بااختیار صاحب قدرت استاد نے پہلے فرشتوں پھر جنات کا بحیثیت شاگرد انتخاب کیا۔ان کو وہ علوم سکھادیئے۔ جن علوم کو پڑھ کر فرشتے اور جنات یہ جان گئے کہ کائنات ’’ نوعی حلقوں ‘‘  میں حرکت کررہی ہے۔ نوعی تقاضوں اور نوعی انرجی کو فرشتوں اور جنات نے صاحب قدرت استاد کے دیئے ہوئے اختیار سے منظم کیا اور۔۔۔۔۔۔ کائناتی تسلسل اپنے محور پر حرکت میں آگیا۔

کوئی نہیں جانتا کہ یہ سلسلہ کب تک قائم رہا کتنی صدیاں گزر گئیں اور کتنے قرن بیت گئے۔ مگر نظام چلتا رہا۔ پھر یہ ہوا کہ تعمیر کی جگہ علم میں جنات شاگردوں نے تخریب کو شامل کر دیا۔  تخریب سے کائناتی تسلسل میں رخنہ در آیا تو ایک چھوٹا نظام عالم ناسوت (دنیا) افراتفری کا شکار ہوگیا۔ فسادات پھوٹ پڑے۔ ایک نوع کاہر فرد خود کو اپنی ہی نوع کے دوسرے فرد سے ممتاز سمجھنے لگا۔ کبرو نخوت نے نوع کے افراد کو درندہ صفت بنا دیا۔ بے رحمی نے جنات برادری کو رحم و کرم سے دور کردیا۔

صاحب قدرت رحیم و کریم، مشفق اور محب استاذ ازل اپنے علم کو یوں پائمال ہوتے نہیں دیکھ سکا۔ اس کے ذاتی علم ’’ امر‘‘ نے ارادہ کر کے کائناتی نظام کو ازسر نو ترتیب دیا۔ایک نئی نوع کی تخلیق پر کام ہوا۔ اور اس طرح تیسری نوع نوع آدم بن گئی۔

آدم کو صاحب استاد نے موجود دو نوعوں کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت ، زیادہ طاقت ور زیادہ فہم و فراست سے معمور ذہن عطا کیا۔ اور اس کو وہ علم سکھا دیے۔ جو پہلے موجود نوعوں کو نہیں سکھلائے تھے۔

فرشتوں نے احتجاج کیا کہ یہ نوع جس کو آپ نے ہمارے اوپر برتر کردیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خون خرابہ اور فساد برپا کر دیگی۔ صاحب قدرت استاد نے احسن تقوم نوع کے ایک فرد آدم کو خصوصی اسرار و رموز سکھا کر حکم دیا۔۔۔۔۔۔۔اے ہمارے ہونہار شاگرد ہم نے تجھے جو علوم سکھا دیے ہیں وہ تو بیان کردے۔ آدم نے فر فر پڑھنا شروع کردیا۔فرشتے انگشت بد نداں رہ گئے اور برملا پکار اٹھے۔

ہم آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں

ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں

جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے۔

فرشتوں نے اپنی بے بضاعتی اور آدم کے مقابلے میں اپنی کم علمی کا اعتراف کر کے خود کو محفوظ و مامون کر لیا۔ نوع جنات کے ایک اعلی اورممتاز فرد ابلیس نے آدم کی فضیلت کو اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ وہ خود کو علم کا امین نہیں، عالم سمجھتا تھا۔غرور و تکبر میں وہ گویا ہوا۔میں تو آگ کا بنا ہوا ہوں۔ اور میرے بعد آنے والا آدم مٹی کا بنا ہوا ہے۔آگ مٹی کے سامنے کیسے جھک جائے؟

ابلیس نے یہ نہیں سوچاکہ آگ کا کام جھلس دینا، جلا دینا ، فنا کر دینا اور بھسم کر دینا ہے۔جبکہ مٹی میں نمو ہوتی ہے۔ مٹی میں سے ہرے بھرے درخت اگتے ہیں۔رنگ رنگ پیراہن پہنے ہوئے پھول کھلتے ہیں۔

سبزہ زار قالین بھی مٹی سے بنتا ہے۔مٹی کی کوکھ سے پاتی کے چشمے ابلتے ہیں۔ آبشاریں گرتی ہیں تخلستان بنتے ہیں۔پرندوں کی ڈاریں فضا میں اڑتی ہیں تو مٹی کی کشش انہیں دوبارہ مٹی پر لے آتی ہے۔ ریگستانوں میں اونٹوں کی قطاریں اور انکے گلوں میں بجتی گھنٹیوں کی باز گشت بھی مٹی کے طفیل ہے۔ مٹی کیا ہے۔ مٹی ظہور عجائب ہے۔

مٹی کیا ہے۔ انکساری کا ایک عمل ہے۔ مٹی کیا ہے ۔ آدم کی پیشانی پر انسانیت کا جھومر ہے۔مٹی کیا ہے۔ اللہ کا گھر ہے۔مٹی کیا ہے ۔ بیت المقدس ہے۔ مٹی کیا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی جنم بھومی ہے۔مٹی کیا ہے۔ اس ذات صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکن ہے جس کے لیے یہ ساری کائنات بنائی گئی ہے۔مٹی ہی تو ہے جسکے وجود سے سورج کی روشنی روشنی ہے۔ مٹی ہی تو ہے جس پر چاند کی رو پہلی چاندنی جب درختوں میں سے چھن کر نیچے آتی ہے تو درختوں پر ہوا سے ہلتے ہوئے پتے ایک دلآویز رعنائی بن جاتے ہیں۔ مٹی نہ ہو تو چڑیوں کی سریلی آواز، چکور کی اڑان ، شاہین کی پرواز اور معصوم صورت فا ختہ آنکھوں سے اوجھل ہوجائے گی۔

قصہ کوتاہ ! استاد ازل نے اپنے شاگرد رشید آدم کو ایسا علم سکھا دیا جو آدم کے علاوہ کسی کو نہیں آتا تھا اور آج بھی نہیں آتا۔ صاحب قدرت استاد نے اپنے بھولے شاگرد بندے کو رہنے کے لیے جگہ دی۔ کھانے کے لیے پھل دیئے۔پینے کے لیے شیریں پانی دیا اور اس وسیع و عریض قطعہ کو استعمال کرنے کے لیے کلی اختیار بھی دے دیا۔مقام کی وسعت، ماحول کی خوشنمائی۔ معطر معطر فضا، خراماں نسیم ، خوبصورت پر رونق اور روشن روشن پھولوں کی اس دنیا کا نام جنت رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آدم کی تنہائی دور کرنے کے لیے ایک رفیقہ بھی اس کے سپرد کردی گئی۔

نوع جنات کا ممتاز فرد ابلیس، آدم کے اوپر صاحب قدرت استاد کی عنایات و اکرامات کو نہ دیکھ سکا حاسد بن گیا۔ اور خفیہ ریشہ دوانیوں سے آدم کو ورغلا کر اس راستے پر لے آیا جس کی وجہ سے خود راندئہ درگاہ ہوا تھا۔ صاحب قدرت استاد نے اپنے شاگرد  آدم سے باز پرس کی۔آدم نے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ استاد کے سامنے ہاتھ باندھ لیے۔ آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہائے دئیے۔ گداز دل کے ساتھ اپنی تقصیر کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ التجا کی اے میرے مربی مشفق استاد، میرے خالق اللہ ،  تو نے معاف نہیں کیا تو میں کہاں جاؤں گا۔ میری ہستی بکھر جائے گی۔میرا اپنا ظلم مجھے ہست سے نیست کردے گا۔ تو نے مجھے احسن تقویم بنایا ہے۔ میرے پیارے اور شفیق استاد اللہ، اپنی رحمت سے مجھے معاف کردے۔

صاحب قدرت استاد کو اپنی تخلیق آدم کی یہ ادا پسند آئی اور وہ خوش ہوگیا۔آدم اس طرح معاف کر دیا گیا کہ صاحب قدرت استاد نے اسکی نسل پر اپنے علوم کے خزانے کھول دئیے۔ اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری ہوگیا۔ آدم کے بعد ایک اور آدم ثانی نے اس علم کو اپنی نسل میں پھیلایا۔ پھر ابراہیم  ؑ کی نسل میں محمدؐ  تشریف لائے اور باعث تخلیق کائنات ہمراز سبحان ربی الاعلی ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل میں استاد ازل کے فیض یافتہ شاگرد قلندر با با اولیا  ؒ کا ظہور ہوا۔

عظیم روحانی سائنسداں د قلندر با با اولیا  ؒ جن کا نام حسن اخریٰ محمد عظیم برخیاؔ ہے۔ صاحب قدرت استاد اللہ جل شانہ کے ایسے ہی نورانی شاگرد اور بندے ہیں جیسے شاگرد نوع انسانی کے جد امجد باوا آدم تھے۔

ستائیس جنوری انیس سو اناسی عیسوی کو عالم علم لدنی اللہ کے نائب ( خلیفتہ الارض ) ایک کائناتی حلقے سے رخصت سفر ( علم الاسماء) باندھ کر  دوسرے حلقے عالم اعراف میں چلے گئے۔ دوسرے حلقے سے تیسرے حلقے حشر و نشر کا انتظام و انصرام  ابھی با قی ہے۔ تیسرے حلقے سے چوتھے حلقے  آدم وحوا کے وطن مالوف میں قلندر بابا اولیا  ؒ کے لیے حور و غلماں چشم براہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون جانے یہ ازلی سعید ، صاحب اختیار ہستی اپنی آخری قیام گاہ جنت کو بناتی ہے۔ یا اعلیٰ علیئین استاد ازل کی قربت کے لیے مرتبہ حضوری میں فائز المرام ہوتی ہے۔

دوستو! ہم مشرب مے نو شو ، جلوہ یار کے پروانو ، صورت سرمدی کے مستانوں ، آؤ ہم تمنا کریں

                                                                کل نفس ذائقہ الموت

کے بعد ا علیٰ علیئین میں اپنے مشفق و کرم فرما استاد قلندر با با اولیا  ؒ کے ساتھ ہمارا قیام ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(آمین)

خوش نصیب ہیں وہ روحیں جو اپنے جسمانی لباس کے ساتھ ۲۷۔ جنوری کو صاحب قدرت استاد ازل کے شاگرد احسن الخالقین اللہ کے دوست ابدال حق حسن اخریٰ سید محمد عظیم برخیا المعروف قلندر با با او لیا  ؒ کے عرس مبارک میں شریک ہو رہے ہیں۔


 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔