Topics
ہر آدمی کا کوئی نہ
کوئی دوست ہوتاہے۔ کیس کے پاس دوستوں کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے۔ اور کوئی پوری
زندگی دوست کی تلاش میں سرگرداں رہ کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ میرا بھی ایک
دوست ہے۔ وہ دوست مجھ سے اسوقت سرگوشی کرتا ہے جب میرے اوپر سے حواس کی گرفت ٹوٹ
جاتی ہے۔اس دوست کے دوست بھی بہت ہیں ۔ میں نے سوچا کوئے یار میں دوست کے دوستوں
سے جمالِ یار کا تذکرہ ہو جائےایک لاکھ سے زیادہ ان گریبان چاک مخمور نظردوستوں سے
ملاقات ہوئی پتہ چلا ۔ایک لاکھ حق پرست دوستوں نے یار کا جلوہ الگ الگ روپ میں
دیکھا۔ ہر دوست نے یار کو جس جلوہ میں دیکھا۔ دوسرے نے اس سے مختلف تجلی میں
مشاہدہ کیا۔ان دوستوں میں سے ایک دوست شمس تبریزی کے غلام مولانا روم بھی ہیں۔ ان
کی روح گو یا ہوئی۔
آدمی
دیداست باقی پوست است
دیدآں
باشد کہ دید دوست است
آئیے!
آج کی نشست میں مولانا روم رحمت اللہ علیہ کے اس شعر پر گفتگو کی سعادت حاصل کریں
کوئی
اطلاع یا کسی شے کا علم ہمیں لازمانیت سے موصول ہوتا ہے۔ یہی لازمانیت نئی نئی
اطلاعات زمانیت (وقت) کے اندر ارسال کرتی رہتی ہے۔ اگر ہم لازمانیت کو ایک نقطے سے
تشبیہ دیں تو یوں کہیں گے کہ اس نقطہ میں کائنات کا یکجائی پروگرام نقش ہے۔ لہروں
کے ذریعے اس نقطے سے جب کائنات کا یکجائی پروگرام نشر ہوتا ہے تو انسانی حافظے سے
ٹکرا کر بکھرتا ہےبکھرتے ہی ہر لہر ایک مختلف شکل و صورت میں تصویری خدو خال
اختیار کرلیتی ہے۔ لہروں کا حافظےکی سطح پر آکر بکھرنا ہی وقت کو وجود میں لاتا ہے
چونکہ حافظہ جبلی طور پر(فطری طور پر نہیں) محدود ہے اس لیے تصویر کے مابین فاصلہ
بن جاتا ہے اسی فاصلے کا دوسرا نام دوری کا احساس اور وقت کو طوالت ہے اگر ہم اس
بیس BASE یا
نقطہ کو تلاش کر لیں جہاں کائنات کا یکجائی پروگرام نقش ہے تو فاصلہ کالعدم ہو جاتا
ہے۔
آپ
نے سنیما گھروںمیں دیکھا ہوگا کہ اسکرین کے بالمقابل ایک جگہ پروجیکٹر نصب ہوتا ہے
آپریٹر اس پر فلم چڑھا کر سوئچ آن کر دیتا۔ فلم کے فیتے پر محفوظ نقوش روشنی کی
لہروں کے ذریعے سفر کرتے ہوئے اسکرین پر مظاہر بن جاتےہیں ۔ اگر آپ پروجیکٹر اور
اسکرین کے درمیان خلاء میں نظر دوڑائیں تو صرف روشنی کا یک دھارا نظرآئےگا۔ روشنی
انہی لہروں میں تمام تصوریریں محفوظ ہوتی ہیں جو روشنی کے دوش پر سفر کرتی ہوئی
اسکرین تک پہنچ رہی ہیں۔ اس طرح تین رُخ قائم ہوتے ہیں ایک فلم پر نقش شدہ نقوش
دوسرا روشنی یا لہرں کا نطام جس کے ذریعہ تصاویر سفر کرتی ہیں اور تیسرا وہ اسکرین
جہاں یہ لہریں ٹکرا کر تصویری خدوخال بن جاتی ہیں۔ پہلےدورخوں کو ہم لازمانیت کہہ
سکتے ہیں ان دونوں میں وہ تمام نقوش موجود ہوتے ہیں جو اسکرین سے ٹکرا کر مظاہر
بنتے ہیں اسی طرح لازمانیت میں کائنات
سےمتعلق تمام اطلاعات موجود ہیں زندگی کا کوئی نقش یا کوئی حرکت لازمانیت کے دائرے
سے باہر نہیں ہے یہ اطلاعات تیسرے رخ میں جب ذہن کی سطح پر وارد ہوتی ہے تو انسان
اپنی شعوری ساخت کی بنا پر انہیں فاصلے اور وقت کے خانوں میں دیکھتا اور محسوس
کرتا ہے سمجھا یہ جاتا ہے کہ گوشت پوست سے مرتب اور رگ پٹھوں بنے ہوئے جسم کی
صلاحیتیں اور صفات صلاحیتوں کی انتہاہے اور گوشت پوست کے جسم سے ہی تمام انسانی
صلاحیتیں متحرک ہیں ایسا نہیں ہے اس بات کو مثال سے بیان کیا جائے تو کہا جائے گا انسان گوشت پوست سے بنے ہوئے جسم کی
حفاظت کے لیے لباس بناتاہے۔ فی الحقیقت اس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا حرکت نہیں
ہوتی جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے یعنی اس کی حرکت جسم
سے منتقل ہو کر اسے ملتی ہے لیکن حقیقت میں وہ جسم کےاعضاء کی حرکت ہوتی ہے اگر اس
لباس کو جسم پر سے اُتار دیا جائے تو اس کے اندر کوئی حرکت باقی نہیں رہتی اب ہم
اس لباس کا مادی جسم کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں آدمی مرگیا اس کے مردہ جسم میں زندگی
کا کوئی شائبہ کسی لمحہ بھی پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے اگر چہ زندگی کے تمام
عوامل ہوا ، پانی، غذا، روشنی وغیرہ سب موجود ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرنے کے بعد
جسم کی حیثیت صرف لباس کی رہ جاتی ہے اصل انسان اس میں موجود نہیں رہتا اگر یہ جسم
اصل انسان ہوتا تو کسی نہ کسی نوعیت سے اس کے اندر زندگی کا کوئی شائبہ ضرور پایا
جاتا اس صورت حال میں ہم انسان کا تجسس کرنے پر مجبور ہے جو انسان مادی جسم کو
چھوڑ دیتا ہے وہی تمام صلاحیتوں کا مخزن و منبع ہے یہی وہ انسان ہے جس کی حرکات
وسکنات کو ہم زندگی کہتے ہیں مادیت کے دائرے میں کتنی چیزیں ایسی ہیں جنہیں ہماری
آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں۔ بہت چھوٹے ذرات ایٹم اور ایٹم میں الیکٹران پروٹان اور
دیگر ایٹمی ذرات ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں جیسے جیسے فاصلہ بڑھنتا ہے۔ ہم
اشیاء کی صحیح ہیئت اور ان کی تفصیلات نہیں دیکھ سکتے۔ چند سوگز دور کا درخت اور
اس کے پتے نظر نہیں آتے۔ عمارتیں اور ان کے خدوخال نگاہ کی ناتوانی کی وجہ سے
دھندلے دکھائی دیتے ہیں سائنسی علوم کہتے ہیں کہ ایٹم میں ارتعاش ہوتا ہے اور بعض
حالتوں میں الیکٹران ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں مائع میں مالیکیول بے
ترتیب حرکت کرتے ہیں اور گیس میں ایٹم اور مالیکیول ایک جگہ سے دوسری جگہ اُڑتے
پھرتے ہیں لیکن اشیاء ہمیں ساکت نظر آتی ہیں بہت سی چیزیں ہمیں دکھائی نہیں دیتیں لیکن
ان کے اثرات سے انھیں پہچانا جاتاہے مثلاََ بجلی کا بہاؤ۔ مقناطیسی میدان اور
دوسری بہت سے لہریں جب ہم طبعی فارمولوں کو سامنے رکھتے ہوئے کسی ایجاد کی مدد
لیتے ہیں تو بہت سی چھپی ہوئی چیزیں اور مستور زاویے نظر آجاتے ہیں جب خوردبین کا
لینس آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے تو چھوٹے سے چھوٹا جراثیم ، وائرس اور دیگر باریک
زرات دکھائی دینے لگتےہیں الیکٹران مائکرو اسکوپ کے ذریعے الیکٹران کا ہیولا نظر
آجاتا ہے۔ دوربین کا عدسہ نگاہوں پر فٹ ہو جائے تو دور دراز کی چیزیں قریب نظر آنے
لگتی ہیں جس قسم اور جس طاقت کا لینس آنکھوں پر لگ جائے اس مناسبت سے اَن دیکھی
چیزیں مشاہدہ بن جاتی ہیں۔
روحانیت
آدمی کی دو مادی آنکھوں کے علاوہ ایک اور نگاہ کا تذکرہ کرتی ہے۔ یہ نگاہ گوشت
پوست کی دوآنکھوں پر انحصار نہیں کرتی اور اس کا دائرہ عمل مادی آنکھوں کی نسبت لا
متناہی ہے۔ یہ نگاہ روحانی علوم میں مشاہدے کے ذریعہ یا بصارت کا لینس ہے جب یہ
نگاہ کام کرتی ہے تو نگاہ پر غیب بینی کا لینس فٹ ہو جاتا ہےغیب میں کیا حرکات ہو
رہی ہیں وہ نگاہ کے سامنے آجاتی ہیں آدمی چھپی ہوئی چیزوں کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے
اور اشیاء کے باطنی خدو خال نظر آجاتے ہیں یہ نگاہ ٹائم اور اسپیس کے دائروں میں
جہاں چاہے بہ یک وقت لمحات کا احساس ہوئے بغیر دیکھ لیتی ہے۔
مادی
حواس یا شعوری حواس میں ہم گوشت پوست کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ اگر آنکھیں بند کر
لی جائیں تو وہ اطلاعات جو روشنی کے ذریعے پردہ بصارت تک پہنچتے ہیں رُک جاتی ہیں
اور ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ مادی آنکھوں کا عمل ہے جسے ظاہری بینائی بھی
کہاجاتا ہے۔
عام
طور پر مشہور ہے کہ ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ
دیکھنے کے لیے صرف آنکھوں کا ہونا کافی نہیں ہے اگر اعصاب کو وہ نظام حذف کر دیا
جائے جو بصارت کے پردے سے اطلاع دماغ تک پہنچاتا ہے تو آنکھ کے موجود ہوتے ہوئے
بھی آدمی کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بصارت کے میکانزم میں آنکھیں
جزو ہیں کل نہیں۔ اکثرایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص سویا ہوا ہے اس کی آنکھیں کھلی
ہوئی ہیں لیکن وہ ماحول کی چیزوں کو دیکھ نہیں سکتا روشنی ، آنکھیں اور دماغ کا
اعصابی نظام سب کچھ موجود ہوتا ہے لیکن اس کےباوجود اسے کچھ نظر نہیں آتا۔
روز
مرہ زندگی میں یہ بات مشترک ہے کہ مناظر کو دیکھتے وقت یا مناظر کے عکس کو محسوس
کرتے وقت ہماری مادی آنکھوں کا عمل دخل صفر ہوتا ہے بتانا یہ مقصود ہے کہ انسانی
نگاہ اپنے عمل میں مادی عوامل کی احتیاج سے آزاد ہے۔ایک طرز میں وہ مادی آنکھ کے
وسیلے سے حرکت کرتی ہے اور دوسری طرز میں اس کا عمل مادی آنکھوں کے عمل سے ماورا
ہے نگاہ کا وہ رُخ جو مادی آنکھ کے بغیر
کام کرتا ہے باطنی نگاہ اندرونی نظر یا
دیدِ دوست ہے۔روحانی علم کی روشنی میں آدمی کی تعریف بیان کی جائے تو اس کو نگاہ
کا نام دیا جائے گا اور نگاہ کا دارو مدار اطلاعات پر ہے اطلاعات ذہن میں آتی رہتی
ہیں اور ذہن میں آکر نگاہ بن جاتی ہیں
خیال،
ادراک، تصور، حافظہ،بصارت ظاہری و باطنی یہ سب نگاہ کی مختلف شکلیں یا مختلف درجات
ہیں اور انہی کے مظہر کا نام انسان اور انسانی زندگی ہے۔ اس حقیقت کو مولانا روم
رحمتہ اللہ علیہ نے اس طرح بیان کیا ہے۔
آدمی نگاہ ہے۔ گوشت پوست مفروضہ (FICTION) ہے
اور نگاہ یہ ہے کہ آنکھ دوست (اللہ) کی تجلی کا مشاہد ہ کرتی رہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔