Topics

ورد اور وظائف

سوال

مسائل کے حل کے سلسلے میں آپ طب یونانی، نفسیات، مابعد نفسیات، طبیعیات اور روحانیت کا تذکرہ کرتے ہیں اور ورد وظائف سے مسائل کا حل بھی بتاتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ ورد و وظائف سے شعور متاثر ہوتا ہے۔ زیادہ ورد و وظائف سے دماغ کے خلئے متاثر ہو جاتے ہیں؟

۱۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھ کر انسان بیمار ہو جائے؟

۲۔ جب ورد و وظائف نقصان پہنچاتے ہیں تو آپ خود ورد و وظائف کیوں بتاتے ہیں؟

۳۔ کیا آپ کی تحریر سے یہ تاثر قائم نہیں ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا سہارا لینے سے انسانی دنیاوی مصائب میں مبتلا ہو جاتا ہے؟

جواب

اگر کوئی مریض تین چار ڈاکٹروں سے بیک وقت علاج کرائے اور ہر ڈاکٹر الگ الگ دوا تجویز کرے یا مریض کتابوں میں پڑھ کر خود اپنے لئے بہت سی دواؤں کا انتخاب کر کے انہیں استعمال کرنا شروع کر دے۔ ایسی صورت میں مریض کو فائدہ ہو گا یا نقصان؟

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔

’’اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو۔ فانوس جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑک پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، روشنی پر روشنی اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے رہنمائی فرماتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔‘‘(سورۃ النور۔ آیت ۳۵)

آواز روشنی ہے

آیات مقدسہ ہمیں بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہر چیز روشنی ہے۔ کوئی حرف اور لفظ روشنی کے اس ہالے سے باہر نہیں۔ آواز الفاظ کو لہروں کے ذریعے ہمارے کانوں تک پہنچاتی ہے۔ سائنس دان بتاتے ہیں کہ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار دو سو بیاسی میل فی سیکنڈ ہے۔

کوئی وظیفہ ہو یا عمل، روشنیوں کے تانے بانے سے مرکب ہوتا ہے۔ ان میں روحانی طاقت کام کرتی ہے اور روحانی قوت براہ راست انسان کے ذہن کو متاثر کرتی ہے اور یہ تاثر ایک کردار ادا کرتا ہے۔

مثال

مقدار میں اگر توازن نہ ہو تو دوا فائدہ پہنچاتی ہے اس سے نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ وظیفہ میں چونکہ روشنیوں کا عمل دخل ہوتا ہے اور روشنیاں مقداروں پر قائم ہیں۔ مقدار میں توازن ضروری ہے آتش بازی کا تعلق بھی مقداروں سے ہے۔ ایک قسم کا توازن پھلجڑی کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے اور دوسری قسم کا توازن جسے ہم ایٹم بم کہتے ہیں اس کا مظاہرہ ہلاکت کا باعث بن جاتا ہے۔

یہ سمجھے بغیر کہ انسان میں روشنیاں قبول کرنے کی کتنی صلاحیت ہے۔ اس کے لئے کوئی عمل یا وظیفہ تجویز کر دیا جائے تو یہ عمل نقصان کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔

غور فرمایئے! ذہن انسانی پر اگر اتنا وزن ڈال دیا جائے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں متاثر ہو جائیں، ایسی حالت میں وسائل کے حصول میں جتنی بھی کوششیں ہوں گی اس کا نتیجہ برعکس ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ قانون کے تحت ہر وظیفہ میں الگ الگ مخصوص قسم کی لہریں کام کرتی ہیں اور یہ لہریں انسانی ذہن میں ایسے تاثرات قائم کرتی ہیں جو وسائل کے حصول اور بیماریوں سے نجات دلاتے ہیں۔ لیکن اگر اس میں عدم توازن پیدا ہو جائے تو صورتحال بدل جاتی ہے۔

مسلسل اور بہت سارے وظائف پڑھنے سے ذہن میں روشنیوں کا ذخیرہ ہو جاتا ہے اور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وسائل اور صحت کے حصول میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ میں جب کسی سائل کے لئے وظیفہ یا کوئی عمل تجویز کرتا ہوں تو دیہ دیکھتا ہوں کہ وظیفے کے الفاظ میں روشنی کی کتنی مقدار کام کر رہی ہے اور مریض میں ان کو برداشت کرنے کی کتنی صلاحیت ہے۔ فقیر اپنی تحریر میں اس بات کو ہمیشہ اولیت دیتا ہے کہ قانون قدرت سے علاج اور مشورہ ہم رشتہ ہو۔

اللہ تعالیٰ کے کلام کا سہارا لینا ہمارا دین ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ہم بغیر جانے بوجھے معاشی وسائل کے حصول اور بیماریوں سے نجات پانے کے لئے جو چاہیں پڑھتے رہیں۔ ہمارے لئے یہی صراط مستقیم ہے کہ ہم اپنی زندگی قانون فطرت کے مطابق بسر کریں۔ ارکان اسلام کو پورا کریں اور دماغی صلاحیتوں کے مطابق ہاتھ پیروں کے عمل کے ساتھ ساتھ قادر مطلق اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں۔ نماز کی پابندی کریں۔ قرآن ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق وظیفۂ اعضاء پورا کریں۔

Topics


Agahee

خواجہ شمس الدین عظیمی

”آگہی “کے عنوان سے شائع ہونے والی یہ کتاب اُن مضامین پر مشتمل ہے جو ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کتاب میں چند تقاریر بھی شامل ہیں جو عظیمی صاحب نے ملکی و غیر ملکی تبلیغی دوروں میں کی ہیں۔ ان مضامین کو یکجا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ موتیوں کو پرو کر ایک خوبصورت ہار بنا دیا جائے تا کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ ورثہ محفوظ ہو جائے۔

مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے قلم اور زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ قیمتی موتی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مضامین موجودہ اور آنے والے دور کے لئے روشنی کا مینار ہیں۔