Spiritual Healing
سوال: میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں عرصہ 9سال سے یہاں
متحدہ عرب امارات میں مقیم ہوں۔ دو تین یا چار سال کے وقفوں میں اپنے ملک جاتا
رہتا ہوں۔ لوگ پردیس میں اتنا عرصہ گزارنے کے بعد اپنے گھر جا کر خوشی و مسرت
محسوس کرتے ہیں لیکن بھائیوں کے ذہن پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ ان کی تعلیم متاثر ہو
رہی ہے۔ والدہ صاحبہ نماز روزے کی پابند ہیں۔ میں خود اس گھر میں جانے سے اس لئے
ڈرتا ہوں کہ اب مجھ میں یہ سب تماشا دیکھنے کی ہمت نہیں ہے اور دوسری صورت گھر میں
والد صاحب سے ٹکراؤ کی ہے۔ جس کا شکار میرا بڑابھائی ہو چکا ہے۔ مجھے اس ٹکراؤ سے
اپنا گھر جہنم سے بھی بدتر معلوم ہوتا ہے۔ گھر میں ایک دو منٹ رہنے کو جی نہیں
چاہتا۔ سارا دن بھٹکتا رہتا ہوں اس کی واحد وجہ میرے والدصاحب اور ان کے پیرومرشد
ہیں۔ سارا زمانہ اگر کہے کہ دن ہے اور پیر صاحب کہیں کہ رات تو وہ رات کہیں گے۔
پیر صاحب ان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ والدصاحب کو اس قدر بے وقوف بنایا
ہوا ہے کہ ان کو پورے خاندان اور سوسائٹی میں ایک آدمی بھی اچھا نہیں کہتا۔ ہم
یہاں دن رات محنت کر کے پیسے بھیجتے ہیں۔ پیر صاحب خود اپنی زبان سے کہتے ہیں کہ
تمہارا والد اتنا مخلص مرید ہے کہ تم جتنا پیسہ روانہ کرتے ہو وہ سب کا سب لا کر
مجھے دے دیتا ہے۔ پیر صاحب کی داڑھی ہے نہ مونچھ۔ پانچ وقت میں سے ایک نماز بھی
نہیں پڑھتے۔ اپنے مریدوں سے کہتے ہیں کہ دل صاف رکھو بس کافی ہے۔ لوگوں کے سامنے
اپنی کرامات بیان کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ میری نافرمانی سے خدا ناراض
ہو جاتا ہے اور پھر اس کے اوپر ادبار برستا ہے۔ اس آدمی نے ہماری گھریلو زندگی
تباہ کی ہوئی ہے۔ والد ہ صاحبہ اور گھر کے دوسرے افراد پیر صاحب کو بالکل پسند
نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے والدہ اور والد صاحب گھر میں لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ
کرتے ہیں۔
اگر والد کو میری ضرورت نہیں ہے تو کیا
ہوا میرے بہن بھائیوں اور ماں کو میری اشد ضرورت ہے۔ میں برسرروزگار ہوں۔ تھوڑا
پیسہ بھی ہے۔ یہ میری مختصر یا لمبی داستان ہے خدارا میری کسی بھی صورت میں مدد
کیجئے میں شدید انتشار اور پریشانی میں مبتلا ہوں۔ آپ کا زندگی بھر احسان مند رہوں
گا۔
جواب: ڈرافٹ والد صاحب کے نام نہ بھیجیں۔ انہیں اتنا
پیسہ دیں کہ جس میں ان کے ضروری اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ پیر صاحب کو جب پیسے نہیں
ملیں گے وہ خود ہی اپنے مخلص مرید سے بے نیاز ہو جائیں گے۔ والدصاحب چونکہ شعوری
طور پر پیر صاحب کے معمول بن چکے ہیں۔ اس لئے ان سے اس سلسلہ میں کچھ کہنا مناسب
نہیں ہے۔ کچھ وقت گزرنے پر انشاء اللہ وہ خود صراط مستقیم پر گامزن ہو جائیں گے۔