Topics
سوال: اکثر ایسے بچے اور بڑے دیکھنے میں آتے ہیں
جن کی شخصیت دوسروں سے کچھ الگ تھلگ ہوتی ہے مثلاً انہیں کپڑے پہننے کا ہوش نہیں
رہتا ، کھانے پینے کا کوئی سلیقہ نہیں آتا، گفتگو بے تکی ہوتی ہے اور ان کی زندگی
بھی بے ترتیب اور انتشار کا شکار ہوتی ہے۔ چوں کو ایب نارمل کہہ کر علاج معالجہ
کیا جاتا ہے۔ خواتین پر جنوں، بھوتوں اور روحوں کا سایہ کہہ کر عملیات کا سہارا
لیا جاتا ہے یا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عموماً ایسے لوگوں سے غیر
معمولی واقعات بھی منسوب کئے جاتے ہیں۔ مثلاً غیب کی باتیں بتانا، ان کی کہی ہوئی
باتوں کا پورا ہونا وغیرہ وغیرہ۔ کچھ لوگ انہیں اللہ والا سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ
فراڈ اور ڈھکو سلا قرار دیتے ہیں۔ مگر حقیقت کیا ہے؟ اس پر سے پردہ آپ ہی اٹھا
سکتے ہیں۔ براہ کرم اس کی علمی توجیہہ سے عوام الناس کو مستفید فرمایئے۔
جواب: جسمانی افکار و اعمال، دماغ اور ذہن کے تابع
ہے۔ دماغ میں شعور اور لاشعور دو حصے ہیں۔ ذہن انسانی انہی دو رخوں پر سفر کرتا
ہے۔ انسانی دماغ میں خلئے ہوتے ہیں۔ انسانی شخصیت، صلاحیت اور افکار و اعمال کا
دارومدار انہی خلیوں پر ہوتا ہے۔ عام طور پر لوگوں کے دماغی خلئے کھلے ہوتے ہیں
لیکن اگر خلئے زیادہ تعداد میں کھل جائیں تو ایسا آدمی بیش بہا صلاحیتوں کا مالک
ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے دماغ کے دو سو خلئے کھل جاتے ہیں ان کا شمار دنیا کے بڑے بڑے
سائنس دانوں اور مفکروں میں ہوتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے
لئے ضروری ہے کہ خلیوں کے کھلنے کے ساتھ ساتھ شعور اور لاشعور دونوں کا بیلنس قائم
رہے لیکن اگر وہ خلئے جن کے اوپر حواس کے بیلنس(متوازن) رہنے کا انحصار ہے ضرورت
سے زیادہ چارج Chargeہو کر کھل جائیں اور متحرک ہو جائیں تو شعور کا
توازن برقرار نہیں رہتا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب انسان کے اندر ماورائی صلاحیتیں کسی
وجہ سے بیدار ہو جاتی ہیں اور ماورائی یا لاشعوری صلاحیتیں، شعوری صلاحیتوں کی
نسبت زیادہ کام کرنے لگتی ہیں لیکن ان میں توازن نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ کیفیت
بیماری اور (Abnormal) شمار کی جاتی ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ روحانی صلاحیتوں کا
حامل کوئی ماہر، دماغ کے ان خلیوں کو جو ضرورت سے زیادہ متحرک ہو گئے ہیں، تصرف کر
کے متوازن اور نارمل کر دے۔ یہ کام اولیاء اللہ اور وہی لوگ کر سکتے ہیں جو
روحانیت، روحانی طاقتوں اور صلاحیتوں کا علم رکھتے ہوں، ان کے استعمال اور ان کے
ذریعے علاج معالجے کے طریقوں سے واقف ہوں۔ بصورت دیگر ایسے لوگوں کو ان کے حال پر
چھوڑ دیں اور مارنے پیٹنے اور کسی بھی طرح سے گزند پہنچانے سے گریز کریں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔