Topics
سوال:
میں نے حروف مقطعات کی تفسیر و توجیہہ کے سلسلے میں جب مختلف مفسرین اور علماء کی
تشریحات کی طرف رجوع کیا تو مجھے تسلی و تشفی نہیں ہوئی۔ مثلاً ایک مشہور عالم دین
اور مفسر نے لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے شعراء اپنے شعروں میں عجیب و غریب
الفاظ استعمال کرتے تھے۔ جن کے کوئی معانی نہیں ہوتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے
اپنے کلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے اس قسم کے الفاظ(حروف مقطعات) بعض سورتوں کے
شروع میں استعمال کئے ہیں۔ ان الفاظ کے کوئی معانی نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے
کہ کیونکہ ان الفاظ کی تفہیم سے اور ان الفاظ کو سمجھنے سے ایمان کا کوئی تعلق
نہیں ہے یا ان الفاظ کے معانی سمجھنے یا نہ سمجھنے سے ہم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اس لئے ان پر غور کرنا بے کار ہے۔یہ پڑھ کر میں مطمئن نہیں ہوا اس لئے کہ اس سے
قرآن پاک کی عظمت پر حرف آتا ہے۔ حروف مقطعات کو عرب شعراء کے کلام کو جواب کہہ کر
نعوذ باللہ قرآن پاک کو ایک شعری مجموعہ کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ قرآن
پاک کا خود کہنا ہے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو شاعری نہیں سکھائی۔
دوسرے یہ خیال کہ حروف مقطعات کے کوئی معانی نہیں اور ہمیں ان پر توجہ دینے کی
کوئی ضرورت نہیں ہے گویا قرآن پاک کے ایک حصے کو بے معنی سمجھتا ہے۔ براہ کرم آپ
اس بات کی وضاحت کریں کہ حروف مقطعات کیا ہیں؟
جواب:
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے اپنی تصنیف ’’لوح و قلم‘‘میں بتایا ہے کہ حروف مقطعات
دراصل نوری تحریر کی مختصر شکلیں ہیں۔ جب علم ربی کا کوئی عالم حروف مقطعات پر
اپنا ذہن مرکوز کرتا ہے یا اس کو پڑھتا ہے تو پوری تفصیل اس کی نگاہوں کے سامنے
آجاتی ہے۔ جس کی یہ مختصر شکل ہے مثلاً وہ الم
پڑھتا ہے تو اس پروقت کو درمیان میں لائے بغیر وہ تمام اسرار و رموز منکشف ہو جاتے
ہیں جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں بیان فرمائے ہیں۔ اور اس کو ڈھائی پارے میں
پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔اگر اس بات کو موجودہ علمی ذہن کے مطابق سمجھنے کی کوشش
کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ حروف مقطعات میں سے ہر حرف ایک مائیکروفلم کی طرح
ہے جس میں ہزار ہا تصاویر اور ذیلی تفصیلات جمع کر دی جاتی ہیں اور ٹائم اسپیس کی
ایک بہت بڑی فصل کو سمیٹ کر ایک ننھے سے نقطے میں محفوظ کر دیا جاتا ہے۔اس طرح
حروف مقطعات کے خول میں بھی اسرار و رموز کی ایک پوری فلم بند کر دی گئی ہے اور جس
شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے علم لدنی عطا کرتے ہیں وہ ان کے مفہوم کو
جانتا ہے اور اس علم کو دیکھ اور پڑھ سکتا ہے۔کائنات میں دو علوم رائج ہیں۔
1۔ رشد
و ہدایت اور برائی اور بھلائی کا علم اور اس پر عمل کر کے اپنے لئے منزل کا تعین
کرنا۔
2۔
تکوین۔ ان قاعدوں اور ضابطوں کا علم جن کے اوپر یہ دنیا اور دوسرے کہکشانی نظام چل
رہے ہیں۔ انتظامی امور میں جو بندے کام کرتے ہیں۔ ان کے ذہن کی رفتار عام ذہن سے
تقریباً ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے بندوں کو جب انتظامی امور میں قرآن پاک
سے ہدایت لینا ہوتی ہے تو وہ حروف مقطعات سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔