Topics
محترم میں آپ سے ایک اہم مسئلے پر سوال کرنا چاہتی
ہوں جو ہمارے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ امید ہے کہ آپ روحانی اور اسلامی نقطہ نظر
سے جواب دے کر ممنون فرمائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں اور میرے شوہر کراچی میں رہتے
ہیں جبکہ میرے سسرال والے پنجاب میں رہائش پذیر ہیں۔ میرے سسرال والے ناخواندہ ہیں
یعنی وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور جو تعلیم یافتہ ہیں وہ بھی پرانی رسم و رواج کے
قائل ہیں۔ جن کی ایک رسم ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے بال دو تین چار ماہ
بعد یا پھر سال بعد کٹواتے ہیں اور ان کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے روحانی پیشوا جو
شہید ہیں ان کے مزار پر جا کر بچے کے بال کاٹتے ہیں۔ پوری برادری کے لوگ جاتے ہیں،
خوشی مناتے ہیں اور دیگیں وغیرہ پکتی ہیں اور وہیں سب کو کھانا کھلایا جاتا ہے،
وہیں مزار پر بال کاٹے جاتے ہیں۔ اگر وہاں جا کر بال نہ کاٹے جائیں تو بقول میرے
سسرال والوں کے یا تو بچہ مر جاتا ہے یا بچے پر کوئی آفت آ جاتی ہے اور جب تک بال
نہ کاٹے جائیں بچے کی ماں کسی بھی قسم کا گوشت نہیں کھا سکتی۔ آپ کو یہ بھی بتاتی
چلوں کہ میرے سسرال والے بتاتے ہیں کہ شہید بزرگ کے ساتھ ایک کتا بھی تھا جو ان کے
شہید ہونے کے بعد ان کی لاش کے پاس بیٹھا رہا اور لاش کی نگرانی کرتا رہا۔ جب شہید
کے وارث آئے تو کتا مر گیا۔ عقیدت مندوں نے کتے کی قبر بھی بنا دی اور ان بزرگ کو
ایک دو نہیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ان کے مزار پر
حاضری دیتے ہیں۔ اور اپنے تمام بچوں کے بال مزار پر ہی کٹواتے ہیں جبکہ میں اور
میرے شوہر ان خرافات کو نہیں مانتے۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے بھی اپنے نواسوں کے بال
ساتویں دن گھر میں کٹوا دیئے تھے مگر خاندان والے کہتے ہیں کہ ایسا نہ کیا تو بچہ
مر جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ موت خدا کے ہاتھ ہے لیکن ہم ان باتوں سے بہت پریشان
ہیں۔ خدارا ہماری رہنمائی فرمائیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ اس سوال کا مجھے تسلی بخش
جواب دیں۔
جواب: یہ بات کہ مزار پر حاضری دینے کے بعد ہی بچہ
کا عقیقہ ہوتا ہے یا گھر میں بال کاٹنے سے بچہ فوت ہو جاتا ہے صحیح نہیں ہے۔
فارسی کی ایک کہاوت ہے۔
پیر نہیں اڑتا البتہ مرید اس کی شان میں قصیدے پڑھ
کر اسے اڑا دیتے ہیں۔
عقیدہ کے سلسلہ میں ایک بات زیادہ توجہ طلب ہے کہ
جب کسی بات پر یقین ہو جاتا ہے تو وہ بات ہو بھی جاتی ہے مثلاً اگر ماں باپ اور
دوسرے قریبی رشتہ دار یہ بات ذہنی طور پر تسلیم کر لیں کہ فلاں کام نہ کرنے سے
نقصان ہو گا تو نقصان ہو جائے گا اور اگر اللہ کے اوپر یقین ہے تو نقصان نہیں ہو
گا۔ اسلام نے اس ہی باطل عقیدہ کو ختم کرنے کی دعوت دی ہے۔ خانہ کعبہ میں تین سو
ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ جب وحدانیت کی تعلیم دی گئی تو لوگ اس وجہ سے بھی گھبرا
گئے کہ ان کے ذہنوں میں یہ وسوسہ یقین کا درجہ حاصل کر چکا تھا کہ اگر بت ناراض ہو
گئے تو تباہی پھیل جائے گی اور جب یہ وسوسہ یا شیطانی عقیدہ باطل ہو گیا تو تین سو
ساٹھ بت ختم ہو گئے ، کوئی تباہی نہیں پھیلی بلکہ واحد ذات اللہ کا فضل عام ہو
گیا۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔