Topics
سوال: خواب کی کیا اہمیت ہے؟ کیا خواب محض خیالات
کا سلسلہ نہیں ہوتا؟ کیونکہ خواب کے اعمال کا ہماری جیتی جاگتی زندگی سے کوئی
واسطہ نظر نہیں آتا۔ مگر جب ہم حضور سرور کونین صلی اللہ و آلہ و سلم کا فرمان
پڑھتے ہیں کہ خواب نبوت کا چالیسواں حصہ ہے۔ تو روئے حدیث خواب کی انتہائی اہمیت
نظر آتی ہے۔ مگر تجربہ اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ آپ سے اس معاملے میں رہنمائی کی
درخواست ہے۔
جواب: خواب دیکھنے کا عمل ہمیں روح اور روح کی
صلاحیتوں کا سراغ دیتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم سوئے ہوئے ہیں تمام جسمانی اعضاء بالکل
معطل ہیں۔ صرف سانس کی آمد و شد جاری ہے۔ لیکن خواب دیکھنے کی حالت میں ہم چل پھر
رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں، سوچ رہے ہیں، غمزدہ اور خوش ہو رہے ہیں۔ کوئی کام ایسا
نہیں ہے کہ جو ہم بیداری کی حالت میں کرتے ہیں اور خواب کی حالت میں نہیں کرتے۔
یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ خواب دیکھنا صرف ایک
خیالی چیز ہے اور خیالی حرکات ہیں کیونکہ جب ہم جاگ اٹھتے ہیں تو کئے ہوئے اعمال
کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ یہ بات بالکل لا یعنی ہے۔ ہرشخص کو زندگی میں ایک ،
دو، چار، دس، بیس ایسے خواب ضرور نظر آتے ہیں کہ جاگ اٹھنے کے بعد یا تو اسے نہانے
اور غسل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے یا کوئی ڈراؤنا خواب دیکھنے کے بعد اس کا پورا خوف
اور دہشت دل اور دماغ پر مسلط ہو جاتا ہے یا جو کچھ خواب میں دیکھا ہے وہی چند
گھنٹے چند دن یا چند مہینے یا چند سال بعد من و عن بیداری کی حالت میں پیش آتا ہے۔
ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں ملے گا۔ جس نے اپنی زندگی میں اس طرح کا ایک خواب یا
ایک سے زائد خواب نہ دیکھے ہوں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اس بات کی تردید ہو جاتی ہے
کہ خواب محض خیالی حیثیت رکھتا ہے جب یہ مان لیا گیا ہے کہ خواب محض خیال نہیں ہے
تو خواب کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔اب ہم بیداری کے اعمال اور واقعات نیز خواب کے
اعمال اور واقعات کو سامنے رکھ کر دونوں کا موازنہ کرتے ہیں۔
یہ روزمرہ ہوتا ہے کہ ہم گھر سے چل کر بازار پہنچ
گئے۔ کسی ایک خاص دکان پر کھڑے ہیں۔ اور ایک سودا خرید رہے ہیں۔ اگر اس وقت کوئی
شخص ہم سے سوال کرے کہ دکان پر پہنچنے تک راستے میں آپ نے کیا کیا دیکھا تو ہم فوراً
یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے کچھ خیال نہیں کیا۔ بات یہ معلوم ہوئی ہے کہ بیداری کی
حالت میں ہمارے ارد گرد جو کچھ ہوتا ہے اگر ہم پوری طرح متوجہ نہ ہوں تو کچھ نہیں
معلوم ہوتا کہ کیا ہوا کس طرح ہوا اور کب ہوا؟
اس مثال سے یہ معلوم ہوا کہ بیداری ہو یا خواب، جب
ہمارا ذہن کسی چیز کی طرف یا کسی کام کی طرف متوجہ ہے تو اس کی اہمیت ہے ورنہ
بیداری اور خواب دونوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بیداری کا بڑے سے بڑا وقفہ بے خیالی
میں گزرتا ہے۔ اور خواب کا بھی بہت سا حصہ بے خبری میں گزرجاتا ہے۔ کتنی ہی مرتبہ
خواب کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور کتنی ہی مرتبہ بیداری کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی
پھر کیوں کر مناسب ہے کہ ہم خواب کی حالت اور خواب کے اجزاء کی جو زندگی کا نصف
حصہ ہے نظر انداز کر دیں۔
باعث تخلیق کائنات فخر موجودات سید المرسلین حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ خواب علم نبوت کا چالیسواں باب ہے۔ اس سے خود
بخود خواب کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ پیغمبران علیہ السلام اور اللہ تعالیٰ کے وہ
برگزیدہ بندے جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم الاسماء یعنی اپنی صفات کے علم سے جسے علم
لدنی بھی کہتے ہیں ، نوازا ہے۔ وہ بندے ہر شخص کے دیکھے ہوئے خواب کی تعبیر اور
خواب میں موجود غیبی ارشادات و کنایات کا مفہوم پوری طرح واضح کرنے کے اہل ہوتے
ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کوئی بھی شخص جو پیغمبران علیہ السلام کے علوم اور صلاحیتوں
سے استفادہ کرنا چاہتا ہے۔ تو اس کا حصول خواب ہی کی صلاحیتوں کے ذریعے ممکن ہے۔
ہم کسی خاص طریقے سے اس کا سراغ لگا سکتے ہیں اور اس صلاحیت کو بیداری میں استعمال
کر سکتے ہیں۔ انبیاء علیہ السلام کا عمل یہیں سے شروع ہوتا ہے اور یہی وہ علم ہے
جس کے ذریعے انبیاء کرام نے اپنے شاگردوں کو یہ بتایا ہے کہ پہلے انسان کہاں تھا
اور اس عالم ناسوت کی زندگی پوری کرنے کے بعد وہ کہاں چلا جاتا ہے۔
خواب کی صلاحیت کو بیداری میں استعمال کرنے کا
پہلا سبق ’’مراقبہ”ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔