Topics
سوال :
ٹیلی پیتھی کا علم کیا ہر شخص سیکھ سکتا ہے ؟ براہ کرم اس کی علمی حیثیت کے بارے میں کچھ
ارشاد فرمائیں ؟
جواب :
مابعد الفنسیات(Parapsychology) کی
رو سے کسی بہت طاقت ور چیز پر غلبہ پانے کے لیے یا عام آدمیوں کی سطح سے بلند
ترین انسان بننے کے لیے یہ امر لازم ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں سے باخبر ہو اور
اسے اپنے دماغ کی کارکردگی کا علم ہو۔سائنسی نظر یہ کے مطابق کائناتی وسعتوں میں
زندگی کے علاوہ کوئی دوسرا رخ نہیں ہے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق مادہ ختم ہوتاہے نہ
توانائی ختم ہوتی ہے ، البتہ ان کی شکلیں
بدلتی رہتی ہیں۔ انتقال افکار پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات پوری طرح سمجھ آجاتی
ہے کہ ’’افکار کبھی نہیں مرتے‘‘ بلکہ کسی نہ کسی طرح لہروں میں موجود رہتے ہیں
اور ان لہروں کا اثر مرتب ہوتا رہتا ہے۔ یہ ہی لہریں خیالات بنتی رہتی ہیں، ہر شخص کو اسکا ذاتی تجربہ ہے کہ جب آدمی
رنجیدہ ہوتا ہے اور اس کے اوپر لمحہ بہ لمحہ غمناک خیالات کی لہریں وارد ہوتی ہیں
اور جیسے جیسے ان لہروں کا پھیلاو اور دباؤ بڑھتا ہے ، آدمی اور زیادہ غمگین ہوتا چلاجاتا
ہے۔ اس طرح جب ہم خوش ہوتے ہیں، لہروں کی ٹھنڈک اور لطافت سے ہمارے دماغ میں سرور
کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسا سرور جو
ہمیں غمگین زندگی سے دور لے جاتا ہے۔ قصہ کوتاہ ہر علم ہمارے اندر موجود ہے اس کی
مثال یہ کہ جب کوئی مصور تصویر بناتا ہے تو استاد کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ شاگرد
کویہ بتا دیتا ہے کہ گراف کے اتنے خانوں کو اس طرح کشیدہ خط کردیا جائے تو ناک بن
جاتی ہے اور اگر گراف کے اتنے خانوں کو اس زوایہ سے کاٹ دیا جائے تو آنکھ بن جاتی
ہے۔ علیٰ ہذ القیاس استاد شاگرد کو تصویر بنانے کا طریقہ سکھا دیتا ہے، تصویر مصور خود بناتا ہے اور ہر مصور کی بنائی
ہوئی تصویر میں اس کی صلاحیتیں اور اپنا ذہن جھلکتا ہے۔ ہر مصور تصویر ایک ہی
بناتا ہے، ایک ہی بنانے سے مراد یہ ہے کہ کوئی مصور ایسی تصویر کشی نہیں کرتا، جس
تصویر میں ناک گردن پر لگی ہو، کان آنکھو ں کی جگہ بنائے گئے ہو۔ اس کے باوجودکہ
آنکھ ناک کان مقررہ قاعدوں اور ضابطوں کے سب مصور بناتے ہیں، لیکن ہر مصور کی تصویرالگ ہوتی ہے۔
تصویر
بنانے کے عمل کومابعد النفسیات
(Parapsychology ) میں خیالات کی منتقلی کا
نام دیا جاتا ہے۔ یعنی مصور نے اپنے خیالات تصویر کے نقش و نگار کے ذریعے کاغذ پر
منتقل کرئیے، خیالات کی منتقلی کا سلسلہ زندگی کے ہر عمل میں جاری و ساری ہے بلکہ
یوں کہنا چاہیے کہ ساری زندگی خیالات کے تانے بانے پر بنی ہوتی ہے۔ خیالات کے اس
عمل کو جان لینا اور اس عمل سے فائدہ اُٹھانا اور خیالات کو منتقل کردینا ’’ ٹیلی
پیتھی‘‘ ہے۔
ٹیلی
پیتھی ایک ایسا علم ہے جس کی وسعت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، ہر شخص کے اندر انتقال خیال کی صلاحیتیں بدرجہ
اُتم موجود ہیں، صرف ان صلاحیتوں کا
استعمال کرنا ہمیں نہیں آتا۔ سائنسدانوں کے ایک گروہ نے اس علم میں اتنی زیادہ
ترقی کرلی ہے کہ دوسرے سائنسدان سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ اگر ٹیلی پیتھی کے علم کی
ترقی کا یہی عالم رہا تو ایک دن کوئی ایک طاقت ساری دنیا پر حکمران ہوجائے گی اور
سب کو اپنا غلام بنالے گی۔
انتقال
افکار( ٹیلی پیتھی) کی تیاری کے لیے بعض مشقیں ایسی ہوتی ہیں جن میں کچھ ڈراونی
قسم کے حالات بھی متوقع ہوتے ہیں، اس قسم کی مشقوں کو شروع کرنے سے پہلے کچھ اور
مشقیں کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ ناخوشگوار حالات اگر پیش آجاییں تو ان پر قابو
پایا جاسکے۔ مثلاً شمع بینی کی مشق میں
کچھ مہیب قسم کی شکلیں بھی سامنے آنے کا امکان ہوتے ہیں جس کو براداشت کرنے کے
لیے غضلات اور اعصاب پر قابو پانے کے لیے مجوزہ مشقیں کرنا اور استاد کی نگرانی
لازمی ہوتی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔