Topics

رنگوں کی ساٹھ قسمیں


سوال :      قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا  ’’ اور تو دیکھ رہا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں تیری طرف وہ کچھ نہیں دیکھ رہے‘‘  اس آیت کا کیا مطلب ہے؟ جبکہ حضور اکرم ؐ  کے زمانے میں موجود لوگ حضور ؐ سے گفتگو کرتے تھے  لین دین کرتے تھے اور ان سے فیض یاب ہوتے تھے براہ کرم ذرا تفصیل سے روشنی ڈالئے۔

جواب؛     دیکھنے اور سمجھنے کی طرزیں دو رُ خ پر قائم ہیں ایک براہ راست اور دوسری بالواسطہ ، ہم اپنی روزمرہ زندگی میں جن تحریکات سے دوچار ہوتے ہیں وہ بالواسطہ دیکھنے اور سمجھنے کے دائرے میں آتا ہے، باالفاظ دیگر ہم بالواسطہ دیکھنے کے عادی ہیں اور براہ راست دیکھنے کی طرز سے واقف نہیں ہیں۔ بالواسطہ دیکھنا یہ ہے کہ علمی اعتبار سے ہم دو وجود کا تعین کرتے ہیں ایک وجود شاہد یعنی دیکھنے والا اور دوسرا وجود مشہود یعنی جو دیکھا جارہا ہے مثلاًجب کوئی آدمی گائے کو دیکھ کر کہتا ہے کہ گائے ہے تو یہ دیکھنا بالواسطہ دیکھنا ہے اس کے برخلاف براہ راست دیکھنا یہ ہے کہ گائے ہمیں دیکھ رہی ہے اور ہم گائے کے دیکھنے کو دیکھ رہے ہیں۔ یعنی گائے کی زندگی کو قائم کرنے والی لہریں ہمارے دماغ کی اسکرین پر بصورت اطلاع وارد ہوئیں دماغ نے ان لہروں کو نقش و نگار میں تبدیل کیا اور یہ نقش و نگار جب شعور کی سطح پر نمودار ہوئےتو گائے کی صورت میں مظہر بن گئے۔

                اس کی مزید تشریح یہ ہے کہ سائنس کے نقطہ نظر اور مخفی نظر اور مخفی علوم کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر شئے دراصل شعاعوں یا لہروں کے مجموعے کا نام ہے جب ہم لکڑی یا لوہے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لکڑی یا لوہے کی شعاعیں ہمارے دماغ کو باخبر کردیتی ہیں ، باخبری کیلئے یہ ضروری نہیں کہ لکڑی یا لوہے کی سختی کو چھو کر محسوس کیا جائے۔عجیب بات یہ ہے کہ شعاع یا لہر اپنے اندر نہ سختی رکھتی ہے اور نہ نرمی پھر ہمیں یہ علم کیسے ہوجاتا ہے کہ فلاں چیز سخت ہے یا نرم ، ہم پانی کو دیکھتے ہیں یا چھوتے ہیں تو فوراً ہمارے  دماغ میں یہ بات آجاتی ہے کہ یہ پانی ہے حالانکہ ہمارے دماغ میں پانی کا کوئی اثر نہیں ہوتا یعنی دماغ بھیگتا نہیں ، سوال یہ ہے کہ جب ہمارا دماغ بھیگا نہیں تو ہم کیسے کہہ دیتے ہیں کہ یہ پانی ہے۔

                اب تک رنگوں کی جتنی قسمیں دریافت ہوچکی ہیں ان کی تعداد ساٹھ سے زیادہ ہے جب ہم کوئی رنگ دیکھتے  ہیں تو نہ صرف یہ کہ ہم اس رنگ کو پہچان لیتے ہیں بلکہ رنگ کے ہلکے یا تیز اثرات سے براہ راست متاثر بھی ہوتے ہیں، ہرا رنگ ہریالی دیکھ کر ہمیں سکون محسوس ہوتا ہے۔مسلسل اور متواتر سرخ رنگ سامنے رہنے سے ہمارے دماغ پر ناگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں یہی نہیں بلکہ اعتدال سے زیادہ سرخ رنگ کے اثرات حواس کو غیر متوازن بھی کردیتے ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ ہر شئے الگ اور معین مقدار کے ساتھ قیام پذیرہے لہروں یا شعاعوں کی معین مقداریں ہی ہر شئے کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہیں اور ہر شئے کی یہ لہریں یا شعاعیں ہمیں وجود کی اطلاع فراہم کرتی ہیں۔دراصل ہر موجود شئے لہروں یا شعاعوں کا دوسرا نام ہے اور ہر شئے کی لہر یا شعاع ایک دوسر سے الگ او ر مختلف ہے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ  کو جن شعاعوں اور لہروں سے تخلیق فرمایا ہے وہ  نور علیٰ نور ہیں۔

                حاصل کائنات فخر موجوداتؐ  کے قدسی نفس میں اللہ تعالیٰ کی جو تجلیات اور انوار کام کررہے ہیں وہ منافقین کی آنکھوں سے مخفی ہیں اور ان تجلیات و انوار کو نہ دیکھنا ہی اللہ کے ارشاد کے مطابق کچھ نہ دیکھنا ہے۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔