Topics
مراقبہ
دراصل لاشعوری تحریکات کو شعوری حواس میں منتقل کرنے کا نام ہے ۔ ہر انسان کے اندر
دو دماغ کام کرتے ہیں ، ایک دما غ انسان کو زمان و مکان
(Time & Space) میں قید رکھتا ہے اور دوسر ادماغ حواس
کو زمان و مکان کی گرفت سے آزاد کردیتا ہے۔ دوسرے تمام علوم کی طرح لاشعوری
تحریکات سے کام لینے کے لیے بھی پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشق کے ذریعے انسان اپنی
اندرونی صلاحیت کو اتنا بیدار کرلیتا ہے کہ وہ بیداری کے اندر رہتے ہوئے بھی
لاشعوری حواس میں داخل ہوکر ماورائی دنیا کا شعور حاصل کرلیتا ہے۔ کئی طالب علموں
اور طالبات نے مراقبے کی کیفیات لکھی ہیں۔ روحانی علوم کے متلاشی خواتین و حضرات
کے کیلیے یہ کیفیات دلچسپی کا باعث بنیں گی اور انہیں مراقبہ کی افادیت کا مجموعی
اندازہ ہوجائے گا۔
مذہبی
نقطہ نظر سے مراقبہ ہر عبادت میں شامل ہے۔ مثلاً جب ہم نماز قائم کرتے ہیں تو ہمیں
ذہنی یکسوئی کے ساتھ اللہ کی ذات کو مرکز بنانا ہوتا ہے۔ کسی نکتہ پر ذہنی مرکزیت
قائم کرنا ہی ’’مراقبہ ‘‘ ہے۔ ہمارے آقا رسول اللہ ﷺ نے
بھی غار حرا میں مراقبہ کیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ’’ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز وں
سے غافل ہیں‘‘ یعنی نماز تو ادا کرتے ہیں
لیکن نماز میں اللہ کی ذات پر ذہنی مرکزیت قائم نہیں ہوتی۔ آج امت مسلمہ کا یہ
بڑا اہم المیہ ہے کہ نماز میں نمازی کو کنسنٹریشن نہیں ہوتی اور خیالات کی یلغار
اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ نماز ادا کرنے کے بعد شرمندگی ہوتی ہے۔ مراقبہ کی مشق کے
ذریعے نماز میں خیالات کی یلغار سے نجات مل جاتی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔