Topics

ماضی اور مستقبل کا مشاہدہ

       

سوال  :  آ پ کی تحریروں میں کہیں پڑھا ہے کہ بعض حالات صلاحیتوں کے بیدار ہونے کہ صورت میں انسان لاکھوں سال پہلے اور بعد کے واقعات کا مشاہدہ کرسکتا ہے ، ہمارے لیے یہ انکشاف بڑا عجیب و غریب اور حیرت انگیز ہے۔  یہ تو بڑی عجیب بات ہے بھلا لاکھوں سال پہلے اور بعد کے واقعات کو کس طرح دیکھا جاسکتا ہے ۔  اس کی تفصیلاًوضاحت فرمائیں؟

جواب  :  مشاہدہ کا اصل مبدا ء اور سرچشمہ یقین ہے۔ہماری بدقسمتی اور بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارا یقین اس قدر کمزور ہے کہ ہم اپنے سامنے دیکھنے کی بجائے پیچھے دیکھتے ہیں، غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر مقصود پیچھے دیکھنا ہوتا تو آنکھیں پیشانی کی بجائے سر کے پچھلے حصے میں ہوتیں، ہمارے تمام تر عقائد ، نظریات ، روایات اور طرز فکر کی بنیاد ماضی پر ہے۔ جہاں کہیں ہمیں ضرورت پیش آتی ہے ، جہاں کہیں ہمارا ذہن اٹکتا ہے، جہاں کہیں ہمارے قدم لڑ کھڑاتے ، ہم بجائے اس کے کہ جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے موجود یا ہمارے علم اور تجربے اور مشاہدے میں ہیں اس کی روشنی میں نتائج اخذ کریں ہم ماضی اور اپنے بزرگوں کے تجربات سے استفادہ کرتے ہیں۔ اور انہوں نے اپنے تجربات اپنی محدود اور مخصوص طرز فکر سے جو نتائج اخذ کئے ہیں، اس سے قطع نظر صحیح  یا غلط ان پر بلا سوچے سمجھے یقین کرلیتے ہیں۔

                جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے ہماری اپنی آزاد سوچ اور طرز فکر پر شدید ضرب لگتی ہے جس کا لازمی نتیجہ یقین کے متاثر ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یقین ہی کے کمزور ہونے کی وجہ سے ہم کسی چیز کے بارے میں شک و شبہات ،  توہمات اور طرح طرح کے وسوسوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔غلط طرز فکر، فرسودہ روایات اور بے سروپا نظریات ، ذہنی انتشار، قلبی اضطراب کا باعث بنتے ہیں ۔  یہی انتشار و اضطراب ، دل و دماغ کا تضاد، انسان کے اندر خوابیدہ ، ماورائی حواس ، لاشعوری صلاحیتوں کو پہلے مجروح پھر آہستہ آہستہ معدوم کردیتا ہے۔ قرآن پاک کے قانون کے مطابق قدرت نے ہر چیز کو دو رُخوں پر پیدا کیا ہے ۔ اس قانون کی رو سے انسانی ذہن کے بھی دو رُخ ہیں، شعور اور لاشعور۔ ان دونوں رُخوں کی صلاحیتیں اور دائرہ عمل الگ الگ ہیں شعور ی ذہن اور صلاحیتوں کا رُخ مادے کی طرف ہے اور اس کا مظاہرہ مادی دنیا تک محدود ہے، لیکن لاشعوری ذہن اور صلاحیتوں کا رُخ اس کے برعکس ہے اور مظاہرہ مادے سے ماورا ء اور لامحدود ہے۔  قدرت نے ماورائی علوم جس کا تعلق شعور سے پس پردہ خوابیدہ لاشعوری طاقت اور صلاحیت سے ہے سیکھنے کی صلاحیت ہر انسان کے اندر ودیعت کردی ہے۔ اپنے اندر چھپی ہوئی ان خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرکے انسان لاکھوں سال پہلے یا بعد کے واقعات کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔

                سائنس نے تو بہرحال ثابت کردیا ہے کہ آدمی ہزاروں میل دور رہنے والے دوستوں اور عزیزوں سے بغیر کسی مادی وسیلے کے ہم کلام ہو سکتا ہے۔ لیکن آج سے سو سال پہلے یہ انکشاف بڑ ا عجیب اور مضحکہ خیز تھا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ہمارے سامنے کوئی لندن ٹاور کا تذکرہ کرتا ہے تو ایک لمحہ کے دسویں حصہ میں پورا لندن ٹاور ہماری نظروں کے سامنے گھوم جاتا  ہے۔ جب ہم کوئی تاریخی واقعہ پڑھتے یا سنتے ہیں تو ہم اس واقعے کو تمام جزویات کے ساتھ اپنے ذہن کی اسکرین پر زندہ اور متحرک دیکھتے ہیں۔ بسا وقت جب ہمارے سامنے کسی پھول کا نام آتا ہے تو نہ صرف ہمارے ذہن کی اسکرین پر اِس کی شکل و صورت ابھرتی ہے بلکہ ہم اِس کی مہک کوبھی محسوس کرتے ہیں۔

                ہزاروں میل دور واقع لندن ٹاور کو کس آنکھ نے دیکھا؟  صدیوں پرانے ان واقعات کے مناظر کس طرح ذہن کی اسکرین پر زندہ اور متحرک ہوگئے؟ حواس نے کس طرح پھول کی مہک کو محسوس کیا؟ آخر یہ سب کس طرح ممکن ہواہے؟  ارادہ یقین کا محض ایک یونٹ ہے،  حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں موجود اس یونٹ کا علم رکھنے والے ایک بندے نے ہزاروں میل دور سے چشم زدن میں تخت بلقیس کو دربار سلیمانی میں حاضر کرکے سب کو حیرت ذدہ کردیا تھا۔ یہ واقعہ قرآن میں موجود ہے یہ کس طرح ممکن ہوا؟ اگر ہم اپنے اندر چھپی ہوئی ماضی اور مستقبل بینی کی صلاحیت کے اس یونٹ کو بیدار اور متحرک کرنا چاہیں توپہلے ہمیں مفروضہ حواس ، شکوک و شبہات اور وسوسوں سے خود کو آزاد کرنا پڑے گا۔ اِس کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے روحانی استاد کر رہنمائی اور نگرانی میں اس سفر کا آغاز کریں جو ماورائی علوم پر پوری دسترس رکھتا ہو۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔