Topics
سوال : جب
ہم مذہب اور غیر مذہب کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ دونوں
طرزوں کا کوئی عقیدہ ضرور ہوتا ہے۔ مذہب کا اپنا عقیدہ ہوتا ہے اور لامذہب کا اپنا
عقید ہ ہوتا ہے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مذہب کو نہ ماننے والے سکون کی زندگی نہیں
گزارتے، تو ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مذہب کو ماننے والے بھی بے سکون زندگی گزارتے
ہیں ۔ ان کی زندگی بھی بے یقینی سے بھرپور ہوتی ہے۔ درخواست یہ ہے کہ بتائیے مذہب کیا ہے ؟ مذہب کی حقیقت
کیا ہے؟ مذہب کو ماننے والے کو غیر مذہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں کس قسم کا
فائدہ حاصل ہونا چاہئے یا ہوتا ہے؟۔
جواب :
آدمی جس معاشرے میں تربیت پا کر جوان ہوتا ہے وہ معاشرہ اس کا عقیدہ بن
جاتا ہے۔ اس کا ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ اس عقیدے کا تجزیہ کرسکے۔ چنانچہ وہ
عقیدہ یقین کا مقام حاصل کرلیتا ہے۔ حالانکہ وہ محض ایک فریب ہے، کیونکہ آدمی جو
کچھ ظاہر کرتا ہے حقیقتاً ویسا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ہے ۔ اس قسم کی زندگی
گزارنے میں اسے بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں،
ایسی مشکلات جن کا حل اس کے پاس نہیں ہوتا۔ اب قدم قدم پر اسے یہ خطرہ
محسوس ہوتا ہے کہ اس کا عمل تلف ہوجائے گا اور بے نتیجہ ثابت ہوگا۔ بعض وقت یہ شک
یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کی زندگی تلف ہورہی ہے اور
اگر تلف نہیں ہورہی تو سخت خطرے میں ہے ، یہ سب کچھ ان دماغی خلیوں کی وجہ سے ہوتا
ہے جن میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے۔
جب
آدمی کی زندگی وہ نہیں جو وہ گزاررہا ہے تو جیسے وہ پیش کررہا ہے ، جس پر اس کا
عمل ہے، اس عمل سے وہ نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے جو اس کے حسب خواہ ہوں ، لیکن
دماغی خلیوں کی تیزی سے ٹوٹ پھوٹ اور ردوبدل قدم قدم پر اس کے عملی راستوں کو
بدلتی رہتی ہے اور وہ یا تو بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں یا ان سے نقصان پہنچتا ہے یا
ایسا شک پیدا ہوتا ہے جو قدم اٹھانے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ آدمی کے دماغ کی ساخت سے
مراد دماغی خلیوں میں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ ،
اعتدال میں ٹوٹ پھوٹ یا کم ٹوٹ پھوٹ ہونا ہے یہ محض اتفاقیہ امر ہے کہ
دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہو جس کی وجہ سے وہ شک سے محفوظ رہتا ہے۔ لیکن
جس قدر شک اور بے یقینی دماغ میں کم ہوگی اسی قدرآدمی کی زندگی کامیاب گزرے گی،
اور جس مناسبت سے شک اور بے یقینی کی زیادتی ہوگی زندگی ناکامیوں میں بسر ہوگی۔
آدمی
کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس نے اللہ کے عطا کردہ علوم کو خود ساختہ اور غلط بنیادوں پر
پرکھااور ان سے انکاری ہوگیا، اللہ تعالیٰ
نے ہر علم کی بنیاد روشنی کو قرار دیا ہے ، آدمی کو چاہیے یہ تھا کہ وہ زیادہ سے
زیادہ روشنیوں کی قسمیں اور روشنیوں کا طرزعمل معلوم کرتا لیکن اس نے کبھی اس طرف
توجہ نہیں کی اور یہ چیز ہمیشہ پردے میں رہی ، آدمی یہ قاعدے معلوم کرنے کی طرف
متوجہ ہی نہیں ہواجو روشنیوں کے خلط ملط سے تعلق رکھتے ہیں اگر آدمی یہ طرز عمل
اختیار کرتا تو اِ س کے دماغی خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کم سے کم ہوسکتی تھی اور وہ یقین
کی طرف قدم اُٹھاتا۔ اس نے روشنیوں کی
قسمیں معلوم نہیں کیں، نہ روشنیوں کی طبیعت کا حال معلوم کرنے کی کوشش کی، وہ یہ
بھی نہیں جانتا کہ روشنیاں بھی طبیعت اور ماہیت رکھتی ہیں اور روشنیوں میں رجحانات
بھی ہوتے ہیں اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ روشنیاں ہی اس کی زندگی اور اس کی حفاظت
کرتی ہیں ، وہ صرف اور صرف مٹی کے پتلے سے واقف ہے، اس پتلے میں جس کے اندر اپنی کوئی زندگی نہیں ،
جس کو اللہ نے سڑی ہوئی مٹی سے بنایا ہے، حقیقت وہ ہے جو اللہ نے روح کی شکل میں
پھونکی ہے۔
مذہب
ہمیں یقین کے اس پیٹرن میں داخل کردیتا ہے جہاں شک و شبہات اورو سوسے ختم ہوجاتے
ہیں۔ انسان اپنی باطنی نگاہ سے غیب کی دنیا اور غیب کی دنیا میں موجود چلنے پھرنے
والے فرشتوں کو دیکھ لیتا ہے کہ وہ خالق کی صفات کو اپنے اوپرمحیط دیکھتا ہے۔
روحانی نقطہ نظر سے اگر کسی بندے کے اندر باطنی نگاہ متحرک نہیں تو وہ ایمان کے
دائرے میں داخل نہیں ہوتا۔ جب کوئی بندہ ایمان کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے تو اس
کی طرز فکر میں تخریب اور شیطنت نکل جاتی ہے اور اگر بندے کے اوپر یقین (غیب کی
دنیا) منکشف نہیں تو ایسا بندہ ہر وقت تخریب اور شیطنت کے جال میں گرفتار رہتا ہے،
یہی وجہ ہے کہ آج ترقی یافتہ دنیا میں بے شمار ایجادات اور لامتناہی آرام و
آسائش کے باوجود ہر شخص بے سکون، پریشان، عدم تحفظ کا شکار ہے۔
سائنس
جو کہ میٹر یعنی مادہ پر یقین ریکھتی ہے اور مادہ عارضی اور فکشن ہے اس لیے سائنس
کی ہر ترقی ، ایجاد اور آرام و آسائش کے تمام سائل عارضی اور فنا ہوجانے والے
ہیں، جس شئے کی بنیاد ہی ٹوٹ پھوٹ اور فنا ہو اس سے کبھی حقیقی مسرت حاصل نہیں
ہوسکتی۔ مذہب اور لا مذہب میں یہ بنیادی فرق ہے کہ لامذہب انسان کے شکوک و شبہات
، وسوسے اور غیر یقینی احساسات کو جنم
دیتی ہے جبکہ مذہب تمام احساسات ، خیالا ت ، تصورات اور زندگی کے اعمال و حرکات کو
قائم بالذا ت اور مستقل ہستی سے وابستہ کر دیتا ہے، موجودہ دور بے یقینی کا دور اس
لیے بن گیا ہے کہ آدمی کا عقیدہ واحد ذات اللہ کے ساتھ کمزور ہوگیا ہے۔
خدا
نے دنیا میں سارے وسائل اس لیے پیدا کئے ہیں کہ آدم زاد ان کو اپنے آرام و
آسائش کے لیے خوش ہوکر استعمال کرے۔ لیکن باغی آدم زاد نے یہ سمجھ لیا ہے کہ
دنیا ہمارے لیے نہیں ہے ہم دنیا کے لیے ہیں، ایک شفیق باپ اپنے بیٹے کو طرح طرح کے
خوشنما کھلونے لا کر دیتا ہے، بیٹا ان کھلونوں میں اس طرح مگن ہوجاتا ہے کہ باپ کی
حیثیت ثانوی ہوجاتی ہے، کیا کوئی باپ بیٹے کی اس روش کو پسند کرے گا؟ہرگز نہیں،
پھر جب نوع انسان اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کو اپنی زندگی کا مقصد قرار دے لے اور
خالق کائنات سے اس کا تعلق صرف زبانی جمع خرچ کی طرح رہ جائے تو اِسے سکون کیسے مل
سکتا ہے،مذہب کی بنیاد یہ ہے کہ اول و آخر، ظاہر و باطن بندہ کی مرکزیت خالق
کائنات ہو، یہی وہ طرز فکر ہے جس کو مستحکم کرنے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر
آئے مگر المیہ یہ ہے کہ انسان نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی بات پر دھیان
نہیں دیا ایک شیطان کے پرفریب جال میں پھنس کر بے سکون ہوگیا۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔