Topics

روح اور اسلام

  

سوال  :  تصّوف میں تصور شیخ کی بڑی اہمیت ہے،  کیا آپ اس سلسلہ میں کچھ بتانا پسند کریں گے کہ روحانیت سیکھنے کے لیے تصور شیخ کیوں ضروری ہے؟ کیا روحانیت تصور شیخ کے مراقبہ کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے؟

جواب  ؛  انسان کا ذہن اور طر ز فکر ماحول سے بنتی ہے، جس قسم کا ماحول ہوتا ہے اسی ہی طرز کے نقوش درو بست یا کم و بیش ذہن میں نقش ہوجاتے ہیں ۔ جس حد تک نقش گہرے اور ہلکے ہوتے ہیں اسی مناسبت سے انسانی زندگی کا ایک طرز یقین بن جاتا ہے، اگر بچہ ایسے ماحول میں پرورش پاتا ہے جہاں والدین اور ارد گرد ذہنی پیچیدگی ، بد دیانتی  اور تمام ایسے اعمال کا عادی ہو جو دوسروں کے لیے ناقابل قبول اور ناپسندید ہ ہیں۔  بچہ لازمی طور پر و ہی طرز فکر قبول کرلیتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی بچہ کا ماحول پاکیزہ ہے تو وہ پاکیزہ نفس ہوگا۔

عام مشاہدہ یہ ہے کہ بچہ و ہی زبان سیکھتا ہے جو ماں باپ بولتے ہیں و ہی عادات واطوار اختیار کرتا ہے جو اس کے والدین سے ورثہ میں اسے منتقل ہوتے ہیں، بچہ کا ذہن آدھا والدین کا ورثہ ہوتا ہے اور آدھا ماحول کے زیر اثر بنتا ہے۔یہ مثال صرف بچوں کے لیے مخصوص نہیں افراد اور قوموں پر بھی یہ ہی قانون نافذ ہے۔ابتدائے آفرنیش سے تا دم تحریر جو کچھ ہوچکا ہے ، ہورہا ہے، یا آئندہ ہوگاسب کا سب نوع انسانی کا ورثہ ہے،  یہ ہی ورثہ قوموں اور افراد میں منتقل ہوتا رہے گا۔

قانون  :  جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو شعوری اعتبار سے بالکل کورا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اندر شعور کی داغ بیل پڑچکی ہوتی ہے،  شعور کی یہ داغ بیل ماں و باپ کے شعور سے بنتی ہے۔ یعنی ماں کا شعور +  باپ کا شعور برابر ہے بچہ کا شعور۔  یہی شعور بتدریج زندگی کے تقاضوں اور حالات کے ردو بدل کے ساتھ ضرب ہوتا رہتا ہے،

۱)     فرد کا شعور =  بچہ کا شعور +  ماحول کا شعور

۲)    قوم کا شعور =  تاریخی حالات و واقعات کا شعور + اسلاف کا شعور

۳)    اسلاف کا شعور=  تاریخی حالات و واقعات کا شعور +آدم کا شعور

                بتانا یہ مقصود ہے کہ ہمارے شعور میں آدم کا شعور شامل ہے اور یہ جمع در جمع ہوکر ارتقائی شکل وصورت اختیار کر رہا ہے۔  دو چیزیں جب ایک دوسرے میں باہم ملکر جذب ہوجاتی ہے تو نتیجہ میں تیسری چیز وجود میں آجاتی ہیں،  جیسے پانی میں شکر ملانے سے شربت بن جاتا ہے،  پانی میں اتنی حرارت شامل کردی جائے جو آگ کے قریب ترین ہوتو پانی کی وہی صفات ہوجائیں گی جو آگ کی ہوتی ہیں۔ اگر پانی میں اتنی سردی شامل کردی جائے جو برف کی ہو تو پانی کی وہی خصوصیات ہوجائیں گی جو برف کی ہوتی ہیں ،  اس طرح جب ماں اور باپ کا شعور ایک دوسرے میں جذب ہوتا ہے تو نتیجہ میں تیسرا شعور وجود میں آتا ہے جس کو ہم بچہ کہتے ہیں،

                ابھی ہم نے انسانی ارتقاء کا ذکر کیا ہے،  یہ ارتقاء شعوری حواس پر قائم ہے اس ارتقاء میں ہر آن اور ہرلمحہ تبدیلی ہورہی ہے باالفاظ دیگر یوں کہا جاسکتا ہے کہ ان دو لمحا ت میں تبدیلی کا نام ارتقاء ہے، فطرت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، البتہ جبلت تبدیل ہوتی رہتی ہے ،  بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسکے اندر فطرت کا غلبہ ہوتا ہے ،  جیسے جیسے والدین کے شعور کا حامل شعور ماحول کے شعور سے ضرب ہوتا ہے ،  اصل شعور میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ، اور جیسے جیسے اضافہ ہوتا ہے بچے کے اوپر جبلت غالب آجاتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو جبلت کا غلبہ فطرت کے لیے پردہ بن جاتا ہے اور جوں جوں پردہ دبیز ہوتا ہے آدمی فطرت سے دور ہوتا چلاجاتا ہے۔

                قرآن پاک میں جن انبیاء کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس پر معمولی سمجھ بوجھ والا آدمی بھی غور کرے تویہ بات سامنے آجاتی ہے کہ ان پیغمبران کرام کا سلسلہ ایک ہی خاندان سے وابستہ ہے۔  تذکرہ ان پیغمبروں کا ہو ر ہاہے جن کا تذکرہ قرآن پاک میں کڑی در کڑی کیا گیا ہے۔ وہ سب حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ایک قانون بنا دیا ہے اس کی قدرت اس قانون پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق زمین کے ہرحصے میں پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں روایت بیان کی جاتی ہے کہ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث ہوئے ، لیکن سرزمین عرب میں جو پیغمبر مبعوث ہوئے اور جن کا تذکرہ قرآن پاک میں کیا گیا ہے  وہ سب حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں،  اس بات کو اس طرح بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی طرز فکر ان کی اولاد کو منتقل ہوتی رہی ہے۔

                ہم یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ انسانی ارتقاء مسلسل اور متواتر شعور کی منتقلی کا نام ہے، ایک زمانہ تھا لوگ غاروں میں رہتے تھے،  پھر پتھر کے زمانے میں آگئے،  اس کے بعد پتھر کی عبادت پتھر کا ہتھیار یا ضرورت زندگی کا سامان دوسری دھاتوں میں منتقل ہوتا چلا گیا،  علیٰ ہذالقیاس نوع انسانی ابھی بھی اس ورثہ پر چل رہی ہیں جو اس کو آدم سے منتقل کیا گیاہے۔ آدم نے نافرمانی کی آدم کی اولاد کو نافرمانی کا ورثہ بھی منتقل ہوگیا،  آدم نے عجز و انکساری کے ساتھ عفو و درگزاری کی درخواست کی، یہ طرز فکر بھی آدم کی اولاد کو منتقل ہوگئی،  ان تمام باتوں کا حاصل یہ ہے کہ آدم کی اولاد کو و ہی ورثہ ملتا ہے جس ماحول میں پرورش پاتا ہے۔

                 طرز فکر دو ہیں، ایک طرز فکر سب کو خالق سے دور کرتی ہے، اور دوسری طرز فکر سب کو خالق سے قریب کرتی ہے، ہم جب کسی انعام یافتہ شخص سے قربت حاصل کرلیتے ہیں ، جس کو وہ طرز فکر حاصل ہے جو خالق سے قریب کرتی ہے تو قانون قدرت کے مطابق ہمارے اندر وہی طرز فکر کام کرنے لگتی ہے اور ہم جس حد تک اس انعام یافتہ شخص سے قریب ہوجاتے ہیں اتنا ہی ہم اس کی طرز فکر سے آشنا ہوجاتے ہیں اور انتہا یہ ہے کہ دونوں کی طرز فکر ایک بن جاتی ہے۔

                لوح محفوظ کے قانون کے مطابق دیکھنے کی طرزیں ۲ ہیں، ایک دیکھنا براہ راست ہوتا ہے اور ایک دیکھنا بالواسطہ ۔  براہ راست دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ جو چیز دیکھی جارہی ہے کسی میڈیم کے بغیر دیکھی جارہی ہے،  بالواسطہ دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز ہمارے سامنے ہے وہ کسی پردہ میں ، کسی ذریعہ یا کسی واسطے سے دیکھ رہے ہیں۔اب ہم نظر کے اس قانون کو دوسری طرح بیان کرتے ہیں۔کائنات میں جو کچھ ہے،  جو کچھ تھا،  جوکچھ ہورہا ہے، یا آئندہ ہونے والا ہے سب کا سب لوح محفوظ پر نقش ہے۔  اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان بذات خود اور تمام نوع انسانی کے حواس بھی لوح محفوظ پر نقش ہے،  لوح محفوظ پر نقش ہونا یہ ہے کہ انسان اور انسانی تقاضے جس طرح لوح محفوظ پر نقش ہے  اس میں ان تقاضوں کی کنّہ موجود ہے۔ کنّہ یعنی ایسی بنیاد جس میں چوں و چراں ، نفی و اثبات اور اُونچ نیچ نہیں ہے بس جو کچھ ہے وہ ہے۔

                لوح ومحفوظ پر اگر بھوک پیاس کے حواس موجود ہیں تو صرف بھوک پیاس کے حواس ہیں، جب یہ حواس لوح محفوظ سے نزول کرکے لوح دوئم پر آتے ہیں تو ان میں معنویت پیدا ہوجاتی ہے،  یعنی پیاس پانی سے بجھتی ہے اور بھوک کا مداوا غذا سے ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔  براہ راست نظر کے قانون میں صرف بھوک پیاس کا تقاضہ آتا ہے ، یہ نہیں ہوتا کہ بھوک پیاس کے تقاضے پورے کیسے کئے جائیں۔  بھوک اور پیاس کو کیسے رفع کیا جائے، یہ بالواسطہ نظر کے قانون میں آتا ہے، یعنی ایک اطلاع ہے اور جب تک وہ محض ایک اطلاع ہے ،  یہ براہ راست طرز فکر ہے اور جب اس اطلاع میں معنی شامل کرلیے جائے تو بالواسطہ طرز فکر ہے اس کی مثال بہت ساد ہ اور آسان ہے۔  

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔