Topics
سوال : ہم
اب تک ’صلوۃـ‘ کے معنی
’نماز‘ سنتے اور پڑھتے چلے آئے
ہیں۔ آپ کی گراں قدر تحریروں سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ صلوۃ کے معنی ’ربط اور تعلق‘ ہیں اور صلوۃ قائم کرنے سے مراد اللہ تعالیٰ سے
ربط اور تعلق پیدا کرنا ہے، نماز پڑھنا تو سب کی سمجھ میں باآسانی آ جاتا ہے ،
لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ ربط اور تعلق پیدا کرنا سمجھنا محال ہے ۔ برائے کرم صلوٰۃ
قائم کرنے کے معانی کی وضاحت فرمائیں کہ اس کا مفہوم کیا ہے؟
جواب :
زندگی تقاضوں کا نام ہے۔ کھانا، پینا ، سونا، جاگنا، گفتگو کرنا، آرام
کرنا۔ میل جول ، حصول معاش میں جد وجہد کرنا اور دیگر تمام دلچسپیاں ، سب کے سب
تقاضے ہیں۔ اور ان کا دارومدار حواس کے اوپر ہے۔ تقاضے جب حواس کے اندر جذب ہوجاتے
ہیں تب ہی ہمیں مظاہراتی خد وخال کا علم ہوتا ہے۔ قرآن پاک کے قانون کے مطابق
کائنات میں موجود ہر شئے دورُخوں پر قائم ہے۔ اس قانون کے مطابق انسان میں کام
کرنے والے حواس کے بھی دو رُخ ہے۔ ایک قسم کے حواس کو دن کے حواس، شعور ی حواس یا پابند حواس کا نام دیتے
ہیں۔ دوسری قسم کے حواس کو رات کے حواس ،
لاشعوری حواس یا آزاد حواس کا نام دیتے ہیں۔شعوری حواس میں انسان خود کو پابند
اور مقید محسوس کرتا ہے۔ یہ حواس اور کیفیت اللہ اور بندے کے درمیان فاصلہ پیدا
کرتی ہیں۔ لاشعوری حواس میں بندہ خود کو قید اور پابندیوں سے آزاد تصور کرتا
ہے۔ روززمرہ کی زندگی میں ہمارے اوپر
شعوری حواس غالب رہتے ہیں۔ اگر کسی طرح لاشعوری حواس متحرک ہوجائیں تو انسان شعوری
حواس کے پس پردہ غیب کی دنیا کا مشاہدہ کرنے لگتاہے۔ یہی مشاہدہ برزخ، جنت ، دوزخ،
ملائکہ اور ملاء اعلیٰ کے مشاہدہ کے بعد دیدار الہٰی کے شرف تک جا پہنچتا ہے۔ اس
بات کو حضور ﷺ نے یوں فرمایا ہے ’’ الصلوٰۃ معراج المومنین‘‘ یعنی یقین کے حامل لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے ربط
و تعلق مشاہدات سے گزر کر اس مقام تک جا پہنچتا ہے جہاںاسے اللہ سے ہم کلامی کا
شرف حاصل ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مشاہدہ کرلیتا ہے کہ ’’ میں تمہاری رگ جاں سے ذیادہ قریب ہوں‘‘ اب سوال یہ ہے کہ صلوٰۃ کس طر ح قائم کی جائے؟
اس کا سادہ ساجواب یہ ہے کہ صلوٰۃ قائم کرنے کے لیے دن کے حواس یا شعوری حواس سے
آزادی حاصل کرکے لاشعوری حواس حاصل کرکے لاشعوری حواس یا رات کے حواس میں داخل
ہونے کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ نماز ، روزہ ، عبادات اورمراقبے کے مختلف طریقے اس
غیب کی دنیا یا لاشعور ی حواس میں داخلے
کا پروگرام ہیں، ان پروگراموں پر عمل کرنے
سے فکر مجلّہ ہوجاتی ہیں، دل و دماغ میں ایک
روشنی پیداہوتی ہیں۔ یہ روشنی اس روشنی سے الگ ہے جوظاہراً حواس میں کام کرتی ہیں۔
یہ روشنی فکر کی راہنمائی کرتی ہے، یہی
روشنی صلوٰۃ قائم کرنے کا ذریعہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی تجلی کے دیدار کا باعث ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔