Topics
سوال : ہم
نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ سادھو اور جوگی دنیاوی لذتو ں سے تعلق ختم کرکے اونچی
پہاڑیوں پر بسیرا کرلیتے تھے اور وہاں روحانی اور جسمانی ریاضت اور مجاہدے سے
روحانی کمالات حاصل کرلیتے ہیں۔ اس سلسلے
میں کہا جاتا ہے جوگی کوسانس کے اوپر اتنا
عبور حاصل ہوتا ہے کہ کپالی چڑھا کر سو،
سو سال زندہ رہتا ہے اور جتنا عرصہ کے لیے وہ سانس کو اندر لے کر یہ ارادہ کرتا کہ
اتنے سال میرے اوپر موت غالب رہے گی وقت پورا ہونے پر اتنی مدت کے بعد وہ شعوری
طور پر زندہ ہوجاتا ہے۔ اس بات کا تذکرہ بے
شمار کتابوں میں ملتا ہے آپ سے درخواست ہے کہ آپ سانس کی اہمیت اور سانس کے
ذریعے موت اختیار کرنے کے بارے میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔
جواب :
موجودہ علمی اور سائنسی دور نے یہ بات معلوم کرلی ہے کہ انسان کو اگر کچھ
وقفے کے لیے آکسیجن نہ ملے تو اس کے دماغ کے کھربوں خلیوں کا عمل ختم ہوجاتا ہے۔
سارا جسم آکسیجن کے اوپر قائم ہے اور سانس کی آمدوشد یا عمل تنفس ہوا سے آکسیجن
حاصل کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔
ھوا
منہ یا ناک کے ذریعے جسم میں کھینچی جاتی ہے اور آواز کے خانے (Larynx ) سے
گزرتی ہوئی ھوا کی خالص نالی (Trachea) میں
جاتی ہے اور پھر وہاں سے نالیوں کے ایک نازک نظام میں داخل ہوجاتی ہے۔ جیسے جیسے
ھوا آگے بڑھتی ہے اور ھوا کا دباؤ زیادہ
ہوجاتا ہے ، ان نالیوں کا قطر بتدریج
چھوٹا ہوتا رہتا ہے،چنانچہ ھوا پھیپھڑوں کی انتہائی گہرائیوں تک پہنچ جاتی
ہے، جہاں تقریباً تین سو ملین ھوا کی
تھیلیوں سے گزر کرآکسیجن خون میں داخل ہوجاتی ہے۔ اگر ھو ا کا دباؤ صحیح اور آکسیجن کی مقدار بھی صحیح ہوتو پھر
آسانی کے ساتھ ھوا تھیلیوں اورباریک رگوں کی جھلیوں میں سے ہوکر اندر تک پھیل
جاتی ہے۔ جب ہم سانس اندر کھینچتے ہیں تو سینے کی خالی جگہ بڑی ہوجاتی ہے، لہذا ھوا تیزی سے اندر چلی جاتی ہے، پھر جب ہم سانس باہر نکالتے ہیں تو پھیپھڑوں کا
لچکدار نظام ھوا کو باہر پھینک دیتا ہے،
سانس لینے کا مقصد بھی یہی کہ جسم کو مناسب آکسیجن پہنچتی رہے تاکہ خلیوں
میں ننھی ننھی انگیٹھیاں دہکتی رہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی رہے۔ انسان جب آرام کرتا ہے ، اس وقت وہ ایک منٹ
میں دس سے سولہ بار تک سانس لیتا ہے اور تقریباً ایک پوائنٹ ھوا اندرونی جسم میں
داخل ہوتی رہتی ہے، جب زیادہ آکسیجن کی
ضرورت پیش آتی ہے تو سانس لینے کی رفتار میں اضافہ ہوجاتا ہے ، عام طور پر سانس کی رفتار اور گہرائی خودبخود
دماغ کنٹرول کرتا رہتا ہے۔
قدر
ت نے انسان کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی ہے کہ وہ حسب ضرورت سانس کی رفتار میں تیزی
یا کمی پیدا کرسکتا ہے، انسان اگر ذہنی
طور پر صحت مند ہے تو پیشتر حالات میں سے اپنے سانس پر اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ تیراکی کے دوران جب آدمی
غوطہ لگا کر نیچے چلاجاتا ہے تو اسے سانس روکنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور وہ یہ
کام آسانی سے کرلیتا ہے، جب جمائی آتی
ہے یا گہرا سانس لیا جاتا ہے تو اس سے سکون حاصل ہوتا ہے اور جب سانس کی نالی میں
کوئی خرابی واقع ہوجاتی ہے تو آدمی بے حد سراسمیہ ہوجاتا ہے اور اس کا دم گھٹنے
لگتا ہے۔ مختصر یہ کہ زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے، سانس جاری ہے تو زندگی
برقرار ہے اور جب سانس کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے۔
سانس
کا تعلق آکسیجن کے اوپر ہے، آکسیجن کا ایک بہت بڑا ذخیرہ دماغ کے ایک مخصوص حصے
میں جمع رہتا ہے۔ دماغ کا وہ ہی حصہ ہے جو دل کی دھڑکن اور عمل تنفس کو برقرار
رکھتا ہے، فی الواقع انسان کی موت اس وقت
واقع ہوتی ہے جب دماغ کے اندرموجود آکسیجن کا ذخیرہ ختم ہوجائے۔ اگر دماغ میں آکسیجن کا ذخیرہ موجود ہے تو
مرنے کو موت نہیں کہتے ، طبعی اصطلاح میں
اسے ’’سکتہ ‘‘ کہاجاتا ہے۔ اب روزمرہ کے
مشاہدہ کی بات ہے کہ بیمار کو نازک حالت میں آکسیجن دی جاتی ہے اور اس طرح بڑی سے
بڑی بیماری پر عارضی طور پر ہی سہی غلبہ حاصل کرلیا جاتا ہے، احسن الخالقین اللہ نے ہمارے پھیپھڑوں کی تخلیق
کچھ اس طرح کی ہے کہ تمام جسم کا خون تین منٹ میں پھیپھڑوں کے راستے آکسیجن لے کر
واپس جسم میں چلا جاتا ہے مطلب یہ کہ تین منٹ کے بعد جسم میں دور کرنے والا خون
آکسیجن لینے کے لیے دوبارہ پھیپھڑوں میں آجاتا ہے۔ہم سانس اندر کھنچتے ہیں تو
ھوا میں موجود ۲۱
فیصد آکسیجن ہمارے اندر چلی جاتی ہے اور جب ہم سانس باہر نکالتے ہے توآکسیجن خرچ
ہونے کے بعد تقریباً بارہ فیصد رہ جاتی ہے۔ مشق کے ذریعے اگر دماغ کے اندر آکسیجن
کا ذخیرہ کرلیا جائے اور روحانی طرزوں میں اس ذخیرے کا استعمال کرنے کا طریقہ سیکھ
لیا جائے تو اپنے ارادے اور اختیار سے دل کی دھڑکن اور عمل تنفس کو بند کرکے آدمی
مہینوں تک زندہ رہ سکتا ہے اور پھر اپنے ارادے اور اختیار سے دنوں، ہفتوں اور
مہینوں کی عارضی موت سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔