Topics

مراقبہ

پیراسائیکالوجی  ( مراقبہ)

سوال  :  میں آپ سے روحانی علوم سے متعلق چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں جو کہ بنیادی باتیں ہیں۔ محترم خواجہ صاحب آپ کی مہربانی ہوگی اگر اس خط میں پوچھے گئے بنیادی سوالات اور ان کے جوابات شائع کرا دیں، کیونکہ روحانیت کے بہت سے متوالوں اور شائقین کے لیے راہنمائی ہوجائے گی۔

س  ۱  :  کیا ایک ہی وقت میں مختلف مراقبے کئے جاسکتے ہیں؟  مثلاً نیلی روشنی اور سبز روشنی کا مراقبہ ، ایک وقت سے مراد یہ ہے کہ رات کو ایک مراقبہ اور صبح کو دوسرا مراقبہ۔

ج  ۱  :   جی ہاں دونوں مراقبے الگ الگ اوقات میں کئے جاسکتے ہیں، جبکہ کسی استاد کی راہنمائی میں ایساکرنے کوکہا گیا ہو،  استاد ذہنی سکت  دیکھ کر ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے ورنہ ازخود کوئی بھی اپنی سکت کا اندازہ نہیں کرپاتا۔

س  ۲  :  کیا ایک ساتھ مختلف علوم سیکھے جاسکتے ہیں مثلاً ہپناٹزم، مسمریزم، مراقبہ اور یوگا وغیرہ

ج  ۲  : آپ نے بنیادی سوال روحانی علوم سے متعلق پوچھنے کیلیے لکھا تھا ، جبکہ درج بالا میں صرف مراقبہ کا تعلق روحانیت سے ہیں۔

س  ۳  :  کیا کوئی معمولی قوت ارادی والا شخص بھی مراقبہ کرسکتا ہیْ

ج  ۳  :  جی ہاں؛  مراقبہ دراصل قوت ارادی اور ذہنی سکت کو بڑھانے کے لیے ہی کیا جاتا ہے۔ تمام شعوری حواس رکھنے والے بندے مراقبہ کرسکتا ہیں ۔

س  ۴  ؛   اگر کوئی شخص ان علوم میں ماہر ہوجائے تو اس کی ذہنی صلاحیت کس قدر بڑھ جاتی ہے اور وہ محض اپنی ذہنی صلاحیت سے کیا کچھ کرسکتا ہے۔

ج  ۴  :  ان علوم سے آپ کی مراد اگر روحانی علوم ہے تو کوئی بھی روحانی طالب علم پی ایچ ڈی کا طالب علم ہوتا ہے کیونکہ روحانیت کا واسطہ علم حضوری سے ہوتا ہے نہ کہ علم حصولی یعنی کتابی علم۔ علم حضوری کے کسی بھی طالب علم کی ذہنی صلاحیتیں علم حصولی کے طالب علم کی صلاحیتوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔

س  ۶  :  کیا مراقبہ صرف بیٹھ کر کیاجاتا ہے یا لیٹ کربھی کرسکتے ہیں؟

ج  ۶  :   مراقبہ صرف بیٹھ کر ٹیک لگائے بغیر کیا جانا ضروری ہے۔ کیونکہ مراقبہ کے دوران نزول ہونے والی روشنیاں ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز کے ذریعہ انسانی ذہن اور جسم میں دور کرتی ہیں۔ اس لیے ٹیک لگا کر مراقبہ کرنے یا لیٹ کر مراقبہ کرنے سے نزول ہونے والی روشنیاں ارتھ ہوجاتی ہے اور مراقبہ کا حاصل کچھ نہیں رہتا

س  ۷  :  کیا مراقبہ سے پہلے وظائف پڑھنا ، مثلاً درود شریف پڑھنا ضروری ہوتا ہے ، اگر نہ پڑھیں تو کوئی حر ج تو نہیں؟

ج  ۷  :  مراقبہ سے پہلے وضو کرنا، درود شریف یا استا د کے بتلائے ہو اسباق پڑھ لینا اس لیے ضروری ہوتا کہ روحانی جسم یا نسمہ یا  Aura کو غذافراہم ہوجاتی ہیں اور روحانی جسم تازگی اور قوت پکڑ لیتا ہے، جس سے مراقبہ کے دوران وارد ہونے والی روشنیاں نسمہ میں تیزی سے جذب ہوجاتی ہیں۔ بغیر وضو او ر بغیر درود شریف یا وظیفہ کے مراقبہ کرنا ایساہی ہے جیسے بھوکے پیٹ محنت کرنا اور نتیجہ میں ضعف اور کمزوری لاحق ہوجاتا ہے۔

س  ۸  :  مستقل مزاجی سے مراقبہ کرنے والوں کوکتنے دنوں میں کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔

ج  ۸  :  مراقبہ میں کامیابی کا سارا دارومدار باقاعدگی، ذہنی سکت ، قوت برداشت اور روحانی استاد کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ مثال اس طرح سمجھیں کہ عام سڑک یا میدان میں ہوائی جہاز کونہیں دوڑایا جاسکتا ہے، جہاز ا ُڑنے کیلیے ضروری ہے کہ اس کی جسامت اور قوت پروازکے مطابق  ’’رن وے‘‘  تیار ہو اور  کوئی بھی ’’ رن وے‘‘  اس جگہ کی زمین کی ساخت پر منحصر ہے۔ اگر زمین نرم اور پولی ہوتو اسی مناسبت سے رن وے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں کنکریٹ ڈالا جائے گا اور زیادہ محنت درکار ہوگی۔ زمیں مضبوط اور اچھی گرفت والی ہے تو وہاں بنائے جانے والے رن و ے پر محنت اور لاگت کم آئے گی۔ کیفیت کیسی ہی کیوں نہ ہو دونوں حالتوں میں’’رن وے‘‘  بنانا ضروری ہوتاہے۔یہی رن وے بنانے کے عمل کو ذہنی سکت سمجھ لیں، جس مناسبت سے ذہنی سکت مضبوط ہوگی اسی مناسبت سے کامیابی ہوگی۔

س  ۹  :  میں نے سنا ہے کہ مراقبہ سے پہلے کچھ سانس کی مشقیں بھی کی جاتی ہیں؟اگر اس کے بارے میں معلومات دے سکیں تو بہتر ہے۔

ج  ۹   :  جی ہاں  :  مراقبہ سے پہلے کچھ سانس کی مشقیں بھی کی جاتی ہیں، مگر ایسی مشقوں کا تعین استا د کی مرضی پر ہوتا ہے۔ اگر ذہنی استعداد کے لیے استاد سانس کی مشقیں تجویز کرے تو کرنا ضروری ہے ورنہ نہیں

س  ۱۰  :  کیا مراقبہ روشنی میں بھی کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

ج  ۱۰  :  مراقبہ کی کامیابی کا دارومدار اندھیرے سے ہوتا ہے، تاہم روشنی میں آنکھیں بند کرکے اپنے اوپر رات کے حواس یعنی اندھیرے کے حواس طاری کئے جائیں تو روشنی میں بھی مراقبہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر ایسی صورت میں مراقبہ کے نتائج بہت مدھم اور یکسوئی دیر سے قائم ہوتی ہے۔

س  ۱۱  :   آپ کہتے ہیں کہ بغیر کامل استاد کے روحانی علوم کو حاصل نہ کریں، لیکن مجھے بازار میں مختلف علوم سے مطلق مختلف مضمون کی کتابیں نظر آتی ہیں جن میں آپ کی کتابیں بھی شامل ہیں،کیاہم محض کتابوں کے ذریعے روحانی علوم حاصل نہیں کرسکتے؟

ج  ۱۱  :  جی ہاں روحانی علوم کتابوں کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتے جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ،  روحانیت کا تعلق  ’’علم حضوری ‘‘  سے ہوتا ہے نہ کہ  ’’علم حصولی‘‘ یعنی کتابوں کے علم سے ۔ اس لیے علم حضوری کے لیے کامل استاد کی ضرورت لازم ہے۔ کتابوں کے ذریعے ان علوم سے استفادء کو اجاگر کیا جاتا ، مگر کامل استاد کے بغیر ان کو سیکھا نہیں جاسکتا ہے،

س  ۱۲  :  کیا ہر خاص و عام کو مراقبہ ہال میں آنے کی اجازت اور داخلے کی اجازت ہے؟

ج  ۱۲  :   ہر خاص و عام کو مراقبہ ہال آنے اور داخلے کی اجازت ہے۔

س  ۱۳  :  کیا ذہنی سکون کا مراقبہ کرنے سے گندے اور برے خیالات او رخواب سے نجات حاصل کی جا سکتی ہیں؟

ج   ۱۳ :   گندے اور برے خیالات اور خواب کا تعلق انسان کے اندر دور کرنے والی منفی روشنیوں سے ہوتا ہے ۔ جبکہ مراقبہ کے ذریعے انسان کے اندر دور کرنے والی روشنیاں اعلیٰ اور مثبت ہوتی ہیں، ظاہر ہے جہاں اعلیٰ اورمثبت روشنیوں کا اجتماع ہوگا، وہاں اسفل منفی روشنیوں کا کیا کام۔

س  ۱۴  :کیا آپ کی ذات کے علاوہ بھی آپ کے علوم سیکھلانے والے لوگ موجود ہے ۔ اگر ہیں تو کہاں کہاں ؟

ج   ۱۴  ؛  الحمد اللہ میں نے اپنی روحانی اولادوں میں کئی افراد کی ایسی تربیت کردی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق ، سیدنا حضور  ﷺ کی عطا کی ہوئی ہمت ، حضور قلندر بابا اولیاؒ کے فیضان کرم اور میری اپنی نگاہ خاص سے وہ میدان عمل بر سر پیکار ہیں۔ ایسے لوگوں کی لسٹ اور پتے ان کالموں میں شائع کرنا محال ہے۔ آپ سلسلہ عظییمہ کے لڑیچریا مراقبہ ہال آمد پر ایسے لوگوں کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔

س  ۱۵  ؛  آخری سوال بلکہ آخری درخواست یہ ہے کہ مراقبہ کی تعریف اور طریقہ کو ایک بار پھر شائع کرادیں؟

ج  ۱۵  :  آ پ کی اور آپ جیسے دیگر شائقین کی یہ خواہش پہلے ہی پوری کی جاچکی ہے ۔ اس سلسلہ میں آپ جمعہ ۱۷  اگست اور جمعہ ۲۹ اگست  ۱۹۹۰؁  کے جنگ اخبار میں روحانی ڈاک کے کالم کا مطالعہ فرمائیں۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔