Topics

خوشی غمی کا معیار کیا ہے؟

سکون آشنا زندگی          

سوال  :  عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ روپے پیسے یا وسائل کی کمی سے پریشانیاں پید ا ہوتی ہیں، لیکن یہ بھی مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگ بھی ذہنی پریشانیوں اور اعصابی امراض میں مبتلا رہتے ہیں جن کے پاس دولت کی کمی نہیں ہوتی، حد یہ ہے کہ خودکشی کرنے والوں میں صاحب حیثیت لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔وہاں امراء بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں،یہ الگ بات ہے کہ امراض کی نوعیت الگ الگ ہوسکتی ہے ۔ جب ایسا ہے توپھر خوشی غمی کا معیار کیا ہے؟

جواب  :   انسان سکون آشنا زندگی چاہتا ہے ،ایسی زندگی جس میں رنج و غم نہ ہو، وہ فنائیت سے دور رہنا چاہتا ہے اور ایسی زندگی کا طلب گار ہے جس میں امراض اور بڑھاپا نہ ہو۔ ان تمام باتو ں کے باوجود کبھی بھی زندگی کے نشیب و فراز سے نجات حاصل نہیں کرسکتا ۔ اس لیے کہ زندگی میں کوئی چیز بے ثباتی سے خالی نہیں، انسان جب بے ثباتی میں گھِر جاتا ہے تو تکلیف اور غم کا غلبہ ہوجاتا ہے اور یہیں سے پریشانیاں جنم لیتی ہیں۔ آدمی جس چیز کو اپنا مطمع نظر بنا تا ہے یا جس منزل کی طرف بڑھتا ہے وہ بھی بے ثبات ہوتی ہے۔ جب وہ چیز یا منزل نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے تو ذہن پر حسرت و مایوسی کا سایہ پڑنے لگتا ہے۔ جن جذبات و احساسات کو وہ حقیقی سمجھتا ہے وہ ایک موقع پر غیر حقیقی ثابت ہوجاتے ہیں۔

                قانون فطرت میں جھول نہیں ہے۔ ہر چیز وقت کے تانے بانے میں حرکت کررہی ہیں۔ وقت جس طرح چابی دیتا ہے شئے حرکت میں آجاتی ہے۔ وقت اپنا رشتہ توڑ لیتا ہے تو کھلونے میں چابی ختم ہوجاتی ہے۔کل پرزے سب ہوتے ہیں لیکن قوت باقی نہیں رہتی۔ وقت قوت کا مظاہرہ ہے۔ قوت ایک مرکز رکھتی ہے اور اسی مرکز کو آسمانی صحائف نے قدرت کے نام سے متعارف کرایا ہے۔ قدرت قائم بالذات ہے ۔ ایسا مرکزی نقطہ ہے جس سے پوری کائنات کے افراد بندھے ہوتے ہیں۔ انسان جب اس مرکزی نقطہ سے اپنا رشتہ تلاش کرلیتا ہے تو بے ثبات کیفیات سے توقعات ختم ہوجاتی ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو رنج و غم اِ س کے قریب نہیں آسکتے۔

                عملی اعتبار سے اس طرز فکر کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان کسی سے توقع نہ رکھے۔ اس لیے جو کسی سے توقع نہیں رکھتا وہ ناامید بھی نہیں ہوتا۔ امیدیں توزان کے ساتھ کم سے کم رکھنی چائیں۔ انسان کسی بات پر غصہ ، پیچ و تاب نہ کھائے۔ عملی جدوجہد میں کوتاہی نہ کریں لیکن نتائج کے اوپر نظر نہ رکھی جائے مطلب یہ کہ نتائج  سے ذہن کو متاثر نہ ہونے دیا جائے۔

                قرآن پاک کی اصطلاح میں اسے غیب پر ایمان یا استغناء کہا جاتا ہے غیب پر ایمان کا مطلب ہے کہ زندگی کے تمام قدریں غیب سے زندگی پاتی ہیں اور غیب ایسی ہستی کے ہاتھ میں ہے جو رحیم و کریم ہے۔ غیب میں جو ہے وہ بہتر ہی بہتر ہے ۔ انسان کی روح بھی غیب سے تعلق رکھتی ہے چنانچہ اپنی روح کی معرفت غیب تک پہنچاتی ہے۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔