Topics

روشنی کی بنیاد اللہ کا نور ہے

سوال   :  مابعد النفسیات سے متعلق علوم میں سانس کی مشقوں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے،  یوگا اورتصوف میں بھی سانس کی مشقوں کی اہمیت مسلمہ ہے۔ براہ کرم اس بات پر روشنی ڈالئے کہ سانس روکنے سے روحانی صلاحیتوں کا کیا تعلق ہے؟

جواب  :   انسان اور ہر اس مخلوق کی زندگی جو ذی روح سمجھی جاتی ہیں مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے،  جب تک سانس کی آمد وشد جاری ہے زندگی رواں دواں ہے اور جب سانس میں تعطل ہوجاتا ہے تو مظاہراتی اعتبار سے زندگی ختم ہوجاتی ہے۔  سانس کا عمل بھی دو رخوں پر قائم ہے ،  ۱)  سانس کا اندر جانا او ر  ۲)  سانس کا باہر آنا۔  روحانی نقطہ نظر سے سانس کا اندر جانا انسان کو اِس کی روح کے قریب کردیتا ہے اور سانس کا باہر آنا انسان کو اِس کی روح سے عارضی طور پر دور کردیتا ہے۔ انسان روشنیوں سے مرکب ہے اور اس روشنی کی بنیاد اللہ کا نور ہے۔ جس طرح سانس کی آمد وشد زندگی ہے اسی طرح خیالات کو بھی زندگی کہتے ہیں باالفاظ دیگر سانس اور خیالات زندگی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اب اگر ہم زندگی کا تجزیہ کریں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ جس طرح سانس دورخوں پر قائم ہے  بالکل اسی طرح خیالات بھی دو رخ پر سفر کرتے ہیں، خیالات کا ایک رخ وہ ہے جس کا نام اسفل رکھا گیا ہے  اور دوسرا رخ وہ ہے جو ہمیں اسفل سے دور کرکے اعلیٰ مقام میں لے جاتا ہے۔  عرف عام میں اِ س کو خیالات کی پاکیزگی یا خیالات میں پیچید گی اور تاریکی کہا جاتا ہے۔  خیالات میں پاکیزگی دراصل ایک طرز فکر ہے۔ اگر طرز فکر پاکیزہ ہے تو انسان سکون و راحت کی زندگی بسر کرتا ہے۔ سکون و راحت انسان کے اندر ذہنی یکسوئی پیدا کرتے ہیں،  اس کے برعکس تاریک طرز فکر انسان کو حزن و ملال، رنج و آلام سے آشنا کرتی ہے، حزن وملال ذہنی یکسوئی ختم کرکے انسان کو دماغی انتشار میں مبتلا کردیتا ہے۔

                اِس بات کو ہم دوسری طرح بیان کرتے ہیں ،  تمام آسمانی صحائف میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی اصل تخلیق ازل میں ہوئی ،  پھر انسان نافرمانی کا مرتکب ہوکر اس دنیا میں آیاہے ،  ایسی دنیا میں جہاں ازل غیب ہے،  لیکن غیب سے اس کا ایک مخفی رشتہ قائم ہے ازل میں موجودگی کا تعلق انسان کی روح سے ہے اور دنیاوی حواس ،  ایسے حواس جو انسان کو عارضی طور پر روح سے دور کردیتے ہیں۔

                جب ہم سانس اندر لیتے ہیں تو ازل سے قریب ہوجاتے ہیں اور جب سانس باہر نکالتے ہیں تو خود کو ازل سے دور محسوس کرتے ہیں،  یعنی سانس کا باہر آنا اس زندگی اور ازل کی زندگی کے درمیان پردہ ہے۔ جب سانس کو اندر روکتے ہیں تو ہمارا رشتہ ازل سے قائم ہوجاتا ہے یعنی ہم اپنی روح سے قریب ہوجاتے ہیں اور روح سے قریب ہونا ہی کسی ماورائی علم میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔