Topics

کیا ٹیلی ویژن کی شعاعیں سرطان کا باعث بنتی ہیں

ٹیلی ویژن                          

سوال  :  روزنامہ جنگ میں رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ ٹیلی ویژن سرطان پھیلاتا ہے ۔ آج کل ٹیلی ویژن گھر گھر پہنچ رہا ہے مگر تہذیب جدید کے بہت سے دوسرے تحفوں کی طرح ٹیلی ویژن اپنے اندر روحانی اور جسمانی تباہی کا سامان رکھتا ہے ۔ امریکہ اور یورپ کے ڈاکڑ اس بات کے قائل ہوچکے ہیں کہ ٹیلی ویژن کی شعاعیں سرطان کا باعث بنتی ہیں۔ ذرا تفصیل سے اس بارے میں بتائیے

جواب   ؛  قرآن پاک میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ اللہ سماوات اور ارض کا نور ہے ۔ دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ہم نے ہر تخلیق معین مقداروں سے مرکب کی ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ تمام موجودات ایک ہی اصل سے تخلیق ہوتی ہیں۔ خواہ وہ موجودات بلندی کی ہوں یا پستی کی ہوں۔ یہ اصل نور یا روشنی ہے۔ نور یا روشنی (جس کو لہر بھی کہا جاسکتا ہے) کی مقداریں معین ہے ۔ بعض مقدواروں کی وجہ سے کائنات میں تنوع پایا جاتا ہے ۔ اس کو مثال سے سمجھنا آسان ہے۔

                شیشے کا ایک گلوب ہے ، اس گلوب کے اندر ایک دوسرا گلوب ہے اور اس کے دوسرے گلوب کے اندر ایک تیسرا گلوب ہے ۔ او ر اس تیسرے گلوب کے اندر حرکت کا مظاہر ہ ہوتا ہے۔ یہ حرکت شکل و صورت جسم و مادیت کے ذریعے ظہور میں آتی ہے۔ گلوب تجلی ہے ۔ تجلی موجودات کے ہر ذرہ سے لمحہ بہ لمحہ گزرتی رہتی ہے تاکہ موجودات کی فیڈنگ ہوتی رہے۔ دوسرا گلوب نور ہے۔ یہ بھی تجلی کی طرح لمحہ بہ لمحہ کائنات کے ہر ذرہ سے گزرتا رہتا ہے۔ تیسرا گلوب روشنی ہے ۔ یہ روشنی زندگی کے کرداروں کو اور زندگی میں خدمات اور احساسات کوبرقرار رکھتی ہے۔ چوتھا گلوب گیسوں کا ذخیرہ ہے۔ جب موجودات میں گیسوں کا ہجوم ہوتا ہے تو روشنی کی شکل میں مادی وجود بن جاتی ہے۔ آسمانی کتا ب انجیل کے اندر بھی اس قانون ،  فارمولے یا Equation کو بیان کیا گیا ہے۔

                اگر روشنی اور گیسوں کے اندر اعتدال اور قانون برقرار رہتا ہے تو اسکے اثرات مثبت اور نتائج مفید ہوتے ہیں۔ اور اگرگیسوں کے اندر اور روشنی کے اندر اعتدال و توازن برقرار نہیں رہتا تو اثرات منفی اور نتائج نقصان دہ مرتب ہوتے ہیں۔ موجودہ سائنس اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ کائناتی نظام میں لہروں کا عمل دخل ہے اور لہروں کے کم یا زیادہ ہونے سے براہ راست نتائج کا تعلق ہے۔

                ٹیلی ویژن میں جس قدر لہریں کام کرتی ہیں وہ انسان کے اندر روشنی یا لہر سے بہت زیادہ ہیں ۔ جب کرنٹ کے اصو ل پر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ مقدار سے زیادہ کرنٹ سے انسان کو جھٹکا لگتا ہے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ نہایت لطیف کرنٹ سے (ریڈیو تھراپی) کینسر جیسی سخت جان مرض سوخت ہوجاتا ہے (یہ الگ بات ہے کہ یہ علاج نہیں ہے) ہر پڑھا لکھا آدمی یہ جانتا ہے کہ ویولینھ کم یا ذیادہ ہونے سے حس کے عمل میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ ٹیلی ویژن کا سارا کھیل لہروں کے اوپر قائم ہے۔ ٹیلی ویژن کے اندر سے جو لہریں نکلتی ہیں ان کا دماغ پر اثر ہوتا ہے اور دماغ کے اندر خلیے کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔مسلسل اور اعتدال سے ہٹ کر ٹی وی کی سکرین پر نظر جمائے رکھیں یا متعین فاصلے کا خیال نہ رکھنا بہت سے امراض کا سبب بنتا ہے۔

                ان امراض میں کینسر بھی ہوسکتا ہے۔ ہمارے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم سائنسی ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن جن باتوں کا خیال رکھنا چاہے یا احتیاط کرنی چاہے اس طرف توجہ نہیں دیتے ۔ مثلاً ٹی وی دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ جتنے انچ کا ٹی وی ہو اتنے فٹ کے فاصلے سے ٹی وی دیکھنا چاہے ۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ چھوٹے سے کمرے میں ٹی وی ، فریج، مائیکرویو وغیرہ رکھی ہوتی ہیں۔ ان کے اندر نکلنی والی لہروں کو فضاء میں براہ راست نکلنے کا راستہ بھی نہیں ہے۔ اونچی آوازیں دماغ کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں۔ یہاں بلاضروت ہر گھر میں ریڈیو بج رہا ہے ۔ بجلی کی تیز روشنی آنکھوں کو نقصان پہنچاتی ہے مگر ہر گھر بقعہ نوربنا ہوا ہے۔ فوم اور فوم کے گدے سرد ممالک کے لیے ہیں۔ہمارے یہاں سخت گرمی میں لو گ فوم کے گدوں پر سوتے ہیں، جسم گرم ہو یا جسم میں فوم کی گرمی سے جلن ہو، بے حسی کا مظاہرہ ہورہا ہے اس لیے کہ فو م کا گدا اس طرح سے امارت کی نشانی بھی ہے۔

                ٹیلی ویژن اگر احتیاط اور فاصلے کے تعین سے دیکھا جائے تو نقصان کم سے کم ہوتا ہے اور اگر اعتدال سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ٹیلی ویژن سے کئی جسمانی اور دماغ امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔