Topics
جواب : اللہ
تعالیٰ نے ہر مرد و عورت کو روحانی علوم سیکھنے کی صلاحیت ودیعت کی ہے ، لیکن دیگر
صلاحیتوں کی طرح اس صلاحیت کو بیدار کرنے اور بروئےکار لانے کے لیے ایک قاعدہ اور
ایک قانون ہے۔ قانون کے مطابق وہ ہی بندہ راہنمائی کرسکتا ہے جو بذات خود قانون سے
واقفیت رکھتا اور مذکورہ صلاحیت خود اس کے اندر بیدار ہو۔
آج
کے دور میں روحانی استاد اور شاگرد کے رشتہ کا قیام جسے عرف عام پیری مریدی کہتے
ہیں ایک رسم بن گیا ہے لوگ شکل و صورت دیکھ کر اور یہ دیکھ کر اس آدمی کے بے شمار
مرید ہیں مرید بن جاتے ہیں۔ لیکن تحصیل علم کے سلسلے میں نتیجہ زیادہ تر صفر ہی
ہوتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے اس تعلق خاطر کی بنیاد رسم کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔ سیدنا
حضورعلیہ الصلوۃ السلام کا ارشاد ہے کہ بیعت کرنے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا
چاہے، پہلے اچھی طرح اس بات کا اطمینان کرلیا جائے کہ وہ بندہ جس کے ہاتھ میں ہم
اپنا ہاتھ دے رہے ہیں روحانیت کے قانون سے واقفیت بھی رکھتا ہے یا نہیں ۔ حضور
علیہ الصلوۃ السلام نے یہ بھی قانون بنایا ہے کہ ایک دفعہ بیعت کرنے کے بعد کوئی
آدمی اپنی مرضی سے بیعت توڑ نہیں سکتا۔
رسول ﷺ کے
اس ارشاد ا قدس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ جب اللہ کے راستے پر قدم بڑھائے تو اس کے
اندر یہ یقین مستحکم ہونا چاہے اس کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ روحانی استاد کو پرکھ
لیا جائے اور اس کے ہاتھ پر بیعت ہونےسے پہلے یقین کی حد تک اس بات کا اطمینان
کرلیا جائے کہ اس آدمی میں روحانی صلاحیتیں موجود ہیں اور وہ ان صلاحیتو ں کا
استعمال بھی جانتا ہے۔ زندگی کی عام طرزوں میں بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہم اپنے
بچوں کوایسے استادوں کے سپرد کرتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں یقین ہوتا ہے کہ یہ
استاد صحیح معنوں میں ہمارے بچے کی تعلیم و تربیت کرے گا۔ اِسی طرح روحانی استاد
بنانے میں بھی یقین ہونا ضروری ہے ۔ چونکہ روحانی علم کا حصول اور غیب بینی کی
صلاحیت کا بیدار ہونا یقین پر منحصر ہے اس لیے استاد کے معاملے میں بے یقینی سے
آدمی روحانی راستے میں سفر نہیں کرسکتا ۔
روحانی
علوم کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک علم استدراج
کا ہے جس کے ضمن میں جادو وغیرہ کے علوم آتے ہیں اور دوسرے علم کا نام روحانیت یا
روحانی علوم ہیں۔ علم استدراج اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ، اللہ کی مخلوق کو تکلیف پہچانے اور دنیا میں
تخریب پھیلانے ، خرق عادت سے اپنی نمائش
کرنا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کی خوشنودی
حاصل کرنے ، اللہ کا عرفان حاصل کرنے اور اپنی روحانی صلاحیت اور طاقت سے اللہ کی
مخلوق کو فائدہ پہچانے والے تمام روحانی علوم اللہ سے ہم رشتہ ہیں۔ جس طرح کوئی
بندہ قدم بقدم سفر کر کے اللہ کا عرفان حاصل کرتا ہے اِسی طرح کوئی بندہ اس راستے
کے متضاد قدم بقدم سفر کرکے شیطان کا عرفان حاصل کرلیتا ہے ، شیطان کے عارف
استدراج کے عامل کہلاتے ہیں۔
روحانیت
کے یہ دورُخ بیا ن کرنے کا منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے پر چلنے کے لیے
انسان کو پہلے چھان بین کرلینی چاہے کہ جس بندے کو ہم نے اپنا راہنما یا پیرومرشد
تسلیم کررہے ہیں اس کے اندر روحانی صلاحیت موجود ہے یا نہیں او رکیا روحانی علوم
کا وہ رُخ اس کے اندر کام کررہا ہے جو بندے کو بارگاہ نبوی علیہ الصلواۃ السلام
میں پہنچادیتا ہے یا وہ رُخ کام کررہا جس کو استدراج یا شیطانی علوم کہا گیا ہے۔
اس لیے کہ استدراج کے ماہرین سے بھی مافوق العادت سرذدہوتی ہے۔ جنہیں ناواقف لوگ
کرامت یا رحمانی قوتوں کا اظہار سمجھ لیتے ہیں۔
کسی
پر اعتراض کرنا مقصود نہیں بتانا یہ ہے کہ عرفان کے راستہ پر قدم اٹھانے سے پہلے
اس بات کو اطمینان کرلینا ضروری ہے کہ وہ بندہ جسے آپ اپنا راہنما بنارہے ہیں وہ
اللہ تعالیٰ کا عرفان رکھتا ہے یا نہیں اور اس کے شب وروز بظاہر ہی نہیں ، باطنی
طور پر حضور ﷺ کی زندگی سے مطابقت رکھتے
ہیں یا نہیں۔ کتنا ہی طویل عرصہ کیوں نہ گزرجائے جب تک ایسا بندہ نہ ملے جو
واقعتاً حضور ﷺ کے روحانی ورثہ سے واقفیت رکھتا اور حضور ﷺ کے
نقش قدم پر چلتا ہو، بیعت نہیں کرنا چاہے اور یہ معلوم کرنے کے لیے کسی بندے کے
اندر کیا بھرا ہوا ہے اس کے قریب ہونا پڑے گا۔ اس کے شب و روز پر نظر رکھنی ہوگی
اس کے معاملات کو دیکھنا ہوگا ۔ اس کے ذہن کو پڑھنا ہوگا کہ وہ دنیا کی ہوس میں
کہاں تک مبتلا ہے اس کے اندر استغناء ہے یا نہیں اور وہ اپنے ذاتی معاملات اللہ
تعالیٰ کے اوپر چھوڑتا ہے یا بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ایسے بندہ کی ایک پہچان
اللہ کے دوستوں نے یہ بتائی ہے کہ ایسے بندے کے پاس بیٹھنے سے ذہن پوری استعداد
اور صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوجاتا ہے ، گناہوں اور تخریبی عمل
سے ذہن میں دوری واقع ہونے لگتی ہے ۔ اللہ کی مخلوق کی محبت دل میں جاگزیں ہوجاتی
ہے ، غصہّ ، نفرت جیسے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔