Topics
سوال :
زندگی توہم بھی گزاررہے ہیں مگر ایک آپ کی زندگی ہے کہ محبتوں اور مسرتوں
سے لبریز زندگی ہے، میری طرح روئے زمین کا ہر فرد خوش کن زندگی گزارنا چاہتا ہے
مگر زندگی کی مادیت ہمیں مایوس کردیتی ہے آپ ہمیں بتائیں کہ سچی خوشی کیا ہوتی
ہے؟ اور حقیقی مسرت کس طرح حاصل کی جاتی
ہے تاکہ رہی سہی زندگی ہم بھی سکون سے گزار سکیں۔ آپ میرے سوال کو اہمیت دیتے ہوئے
روحانی طرزوں میں اس کا جواب شائع کریں۔
جواب : آپ
کی یہ بات درست ہے اور زندگی کے تجزیہ سے ہمارے سامنے ایک ہی بات آتی ہے کہ آدم
کا ہربیٹا اور حوا کی ہر بیٹی خوش کن زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ لیکن زندگی کا مادی
نظریہ ہر قدم پر انہیں مایوس کرتا ہے اس لیے کہ ہماری زندگی ہر ہر لمحہ فانی اور
متغیر ہے، مادی اعتبار سے ہمیں یہ بھی علم
نہیں کہ سچی خوشی کیا ہوتی ہے؟ اور کس طرح
حاصل کی جاسکتی ہے ، حقیقی مسرت سے واقف ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی اصل
بنیاد کو تلاش کریں۔جب ہم کچھ نہ تھے تو کچھ نہ کچھ ضرور تھے اِس لیے کہ کچھ نہ
ہونا ہمارے وجود کی نفی کرتا ہے۔
ہماری
زندگی ماں کے پیٹ سے شروع ہوتی ہے اور یہ مادہ جب ایک خاص پروسیس سے گزر کر اپنی
انتہاکو پہنچتا ہے تو ایک جیتی جاگتی تصویر عدم سے وجود میں آجاتی ہے۔ ماحول سے
اِس تصویر کو ایسی تربیت ملتی ہے کہ اسے اِس بات کا علم نہیں ہوتا کہ سچی خوشی
حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اور کس طرح سچی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ حقیقی خوشی اور
مسرت سے ہم آغوش ہونے کے لیے انسان کو سب سے پہلے یہ جاننا چاہے کہ زندگی کا
دارومدار جسم پر نہیں بلکہ اِس حقیقت پر ہے کہ جس حقیقت نے خود اپنے لیے جسم کو
لباس بنا لیا ہے۔ ہم اِ س حقیقت تک اِس طرح رسائی حاصل کرسکتے ہیں کہ ہم یہ جان
لیں کہ جیتی جاگتی تصویرایک جسم نہیں بلکہ ایک شعور ہے ۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ
جسم کے ختم ہونے پر مادی کثافت اور آلودگی ختم ہوجاتی ہے لیکن شعور فنا نہیں ہوتا
بلکہ شعور کسی دوسرے عالم میں منتقل ہوجاتا ہے۔
جتنی
آسمانی کتابیں ہیں ان سب میں ایک بات کا بار بار تذکرہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ
آدمی صرف مادی جسم نہیں بلکہ ایک شعور ہے،
شعور کا گھٹنا اور بڑھنا عمر کا تعین کرتا ہے ، شعور ایک زمانے کو ’’ بچپن ‘‘
دوسرے کو ’’ جوانی‘‘ اور شعور تیسرے زمانے کو ’’بڑھاپا‘‘
کہتا ہیں، بالاخر جو شعور اس مادی زندگی کو سنبھالے ہوئے ہے اور جس شعور پر
یہ جسم ارتقا کی منازل طے کررہا ہے قائم رہتا ہے۔ انسان جب اپنے آپ کا مطالعہ
کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے پاس ایک محدود اور فنا ہونے والا جسم ہے اسی جسم کو
زندگی کی پہچان کہتا ہے یہ انسانی جسم جو ہمیں نظر آرہا ہے اسکے اجزائے ترکیبی کثافت، گندگی ، تعفن، سرانڈ
ہیں۔ اس سرانڈ کی بنیاد اس نظریہ پر قائم ہے کہ ہر آدمی سمجھتا ہے کہ میں مادّہ
ہوں اور اس مادّی دنیا کی پیدائش ہوں ، یہ محدود نظریہ آدمی کو کسی ایک مقام پر
محدود کردیتا ہے اور ہر آدمی یک محدودیت کے تانے بانے میں خود کو گرفتار کرلیتا
ہے اور اس طرح محدود اور پابند نظریہ کے ساتھ زندگی پرمادیت کا ایک خول اپنے اوپر
چڑھالیتا ہے، نتیجہ میں کنویں کے مینڈک کی طرح اِس خول کو ہی زندگی کا اثاثہ
سمجھتا ہے حالانکہ وہ سب کچھ اِس خول میں اِسے نہیں ملتا جس کی اسے حقیقی تلاش
ہوتی ہے ۔ یہ محدودیت اورمادّیت کا خول ہی
دراصل آدمی کو مایوس رکھتا ہے۔ خوش
کن زندگی گزارنے کے لیے انسان کو یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری کائنات اللہ کی آواز
ہے، خدا جب اپنا تعارف کرواتا ہے توکہتا ہے کہ میں مخلوق کا دوست ہوں جس طرح ایک
باپ اپنے بیٹے کو نہیں بھولتا اِسی طرح خدا بھی اپنی مخلوق کو فراموش نہیں کرتا۔
اگر انسان ربّ کو اپنا دوست اور کفیل سمجھ لے تو دنیاوی وسائل خود بخود اس کے آگے
سرنگوں ہوجاتے ہیں اور نتیجہ میں انسان پرمسرت زندگی سے آشنا ہوجاتا ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔