Topics

نسلوں کو آئندہ آنے والے دردناک عذاب سے کس طرح تحفظ فراہم ہوسکتا ہے؟

ہماری نسلیں              

سوال  :  موجودہ دور میں ہرقسم کی آسائش اور سہولتوں کے باوجود نوع انسانی پریشان حال اور پراگندہ دل ہے اور جیسے جیسے ترقی کے پُرفسوں نعرے بلند ہورہے ہیں اور انسانی شعور ارتقاء کے اولین درجہ پر فائز ہورہا ہے ۔ انسان مضطرب اور بے حال ہے مایوس اور مجبور نوع انسانی کونسا طریقہ اختیار کرے کہ جس سے آنے والی نسلیں عدم تحفظ کے احساس کے دباؤ  سے آزاد ہوں۔ آج کی دنیا تباہی کے کنارے ایک آتش فشاں بنی ہوئی ہے کوئی نہیں کہہ سکتا کب کس کا دماغ اس آتش فشاں کا رُخ بھری پُری دنیا کی طرف موڑدے اوریہ خوب صورت رنگ برنگ دنیا اپنی آگ میں بھسم ہوجائے اور ہم خود جہنم کی آگ بن جائیں اور ہم خسرۃ الدنیا والاخرۃ کی مصدق بکھر بکھر کے زمین کے ذرات میں تبدیل ہوجائے۔ آپ سے مودبانہ درخواست ہے آپ بتائیں کہ نسلوں کو آئندہ آنے والے دردناک عذاب سے کس طرح تحفظ فراہم ہوسکتا ہے؟

جواب :  انسان کے اندر دو طرح کے حواس کام کرتے ہیں۔ ہم ان حواس کو اگر دو کرداروں میں سمجھنا چاہیں تو یہ دو کردار اعلیٰ اور اسفل ہے ۔ ان دو کرداروں کو قرآن پاک نے علین اور سجین کہا ہے۔ علین اعلیٰ کردار ہے اور سجین اسفل۔ حواس میں دونوں کردار ریکارڈ ہوتے ہیں۔ عالم ناسوت (مادی دنیا) میں ان کرداروں کا ریکارڈ نگاہوں کے سامنے نہیں رہتا، بلکہ حواس کے اندر مخفی رہتا ہے۔ قرآن کی زبان میں ان دونوں ریکارڈوں کو کتاب المرقوم کہا گیا ہے۔ قیامت کے دن جب کائنات کا پہلا سفر طے ہوجاے گا ، انسان اور جنات جو کائنات کا حاصل سفر ہیں اسلیے جمع کئے جائیں گے کہ کائنات کے دوسرے سفر کا آغاز ہو۔ کائنات کا دوسرا سفر جنت دوزخ کے درمیان کا راستہ ہے۔ حواس کے ان کردروں میں ایک کردار متعین ہے یہ کردار اپنی حدود ایک طرز پر دیکھتا ، سوچتا اور محسوس کرتا ہے۔

                اس کردار میں کائناتی ذرہ یا فرد کے لیے کوئی امتیاز نہیں پایا جاتا ، یہ کردار ہرذرہ میں ایک ہی زوایہ رکھتا ہے اس میں (لامکانی شعور) سے دوسرا شعور تخلیق پاتا ہے۔ اس شعور کی حرکت اگرچہ بہت ٹھوس ہوتی ہے تاہم اس کا سفر خیال سے کروڑوں گنا زیادہ تیز رفتار ہے ، لیکن جب یہ شعور ابھر کر تیسرے شعور کی سطح پر وارد ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت کم ہوجاتی ہے،  یہ رفتار بھی روشنی کی رفتار سے لاکھوں گنا ہے ، یہ شعور بھی ایک نمایا ں سطح کی طرف جدو جہد کرتا ہے اور اس نمایاں سطح میں داخل ہونے کے عالم ناسوت کے عناصر میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ عناصر کا یہ مجموعہ فرد کا چوتھا شعور ہے،  جو بالکل سطحی کردار رکھتا ہے۔ اس ہی لیے اس کا ٹھہر اؤ  اور ٹھوس پن بہت ہی کم وقفہ پر مشتمل ہے۔ یہ ہی شعور باعتبار حواس سب سے ذیادہ ناقص ہے۔

                حواس میں اگرچہ اپنے تقاضوں کا مجموعہ ہیں جو زیادہ سے زیادہ جمال کی طرف میلان رکھتے ہیں ، مگر جمال کے مدارج سے کامل آگاہی نہیں اس ہی واسطے ان میں پہیم اور مسلسل خلا پائے جاتے ہیں ۔ ساتھ ہی خلاوں کو پُر کرنے کے لیے حواس میں ایسے تقاضے بھی موجود ہیں جن کو ضمیر کے نام سے تعبیر کرتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان ہی خلاؤ ں کو پُر کرنے کے لیے انبیا ء کے ذریعے شریعتیں نافذ کی ہیں۔ ہر شریعت کا منتہا یہ ہے کہ ایک واحد ہستی ہے جو کائنات کی کفیل اور نگران ہے۔ اس کے تخلیقی اور تکوین امور میں کوئی شریک نہیں ہے، انبیاء اکرام پر یہ منتہا وحی کے ذریعے منکشف ہوتا ہے۔ انبیاء کو نہ ماننے والے فرقے توحید کو ہمشہ اپنے قیاس میں تلاش کرتے ہے۔ چنانچہ ان کے قیاس نے غلط راہنمائی کرکے ان کے سامنے غیر توحیدی نظریات رکھے ہیںاور یہ نظریات کہیں نہ کہیں دوسرے فرقوں کے غلط نظریات سے متصادم ہوتے رہتے ہیں۔ قیاس کا پیش کردہ کوئی نظریہ کسی دوسرے نظریہ کے چند قدم ضرور ساتھ دیتا ہے مگر پھر ناکام ہوجاتا ہے ۔ توحیدی نظریہ فکر کے علاوہ نوع انسانی کو کسی ایک طرز فکر پر مجتمع کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔لوگوں نے بزعم خود جتنے طریقے واضع کئے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ مرحلے میں غلط ثابت ہوکر رہ گئے ہیں۔ توحید کے علاوہ جتنے نظام حکمت بنائے گے وہ تمام یا تو اپنے ماننے والوں کے ساتھ مٹ گئے یا آہستہ آہستہ مٹتے جارہے ہیں۔ موجودہ دور میں تقریباً تمام پرانے نظامائے فکر فنا ہوچکے ہیں یا ردوبدل کے ساتھ اور نئے ناموں کا لباس پہن کر فنا کے راستے پر سرگرم سفر ہیں۔ اگرچہ ان کے ماننے والے ہزار کوشش کررہے ہیں کہ تمام نوع انسانی کے لیے روشنی بن سکیں لیکن ان کی ساری کوشش ناکام ہوتی جارہی ہیں۔

                آج کی نسل گزشتہ نسلوں سے کہیں زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر محبور ہوں گی ، نتیجہ میں نوع انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطہ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا، بجز اس نقطہ کے نوع انسانی کسی ایک مرکز پر کبھی جمع نہیں ہوسکے گی۔ موجودہ دور کے مفکر کو چاہے کہ وہ وحی کی طرز کو سمجھے اور نوع انسانی کی غلط راہنمائی سے دست کش ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ مختلف ممالک اور مختلف قوموں کے جسمانی وظیفے جداگانہ ہیںاور یہ نا ممکن ہے کہ تمام نوع انسانی کا جسمانی وظیفہ ایک ہوسکے ۔ اب صرف روحانی وظائف باقی رہتے ہیں جن کا مخرج توحید اور صرف توحید ہے۔ اگر دنیاکے سب مفکر ین جد وجہد کرکے ان وظائف کی غلط تعبیروں کو درست کرسکے تو وہ اقوام عالم کو وظیفہ روحانی کے ایک دائرے میں اکھٹا کرسکتے ہیں اور وہ روحانی دائرہ محض قرآن کی پیش کردہ توحید ہے، اس معاملے میں تعصبات کو بالائے طاق رکھنا پڑے گا۔ کیونکہ مستقبل کے خوفناک تصادم چاہے وہ معاشی ہوں، نظریاتی ہوں نوع انسانی کو مجبور کردیں گے کہ وہ بڑی سی بڑی قیمت لگا کر اپنی بقاءتلاش کرے اور بقاء کے ذرائع قرآنی توحید کے سوا کسی نظام حکمت سے نہیں مل سکتا۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔