Topics
سوال : میں
نے پہلی بار روزنامہ جنگ کے جمعہ ایڈیشن میں روحانی ڈاک کا مطالعہ کیا اور پہلی
بار مراقبہ کے بارے میں پڑھا، سوال یہ ہے
کہ مراقبہ کیا ہے اور کس طرح کیا جاتا ہے اور مراقبہ کرنے سے کیا ہوتا ہے،ا س کے
کیا فوائد و نقصانات ہیں؟ میں مراقبہ کرنا چاہتی ہوں، برائے مہربانی مجھے کوئی
موزوں مراقبہ کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔
جواب ؛
انسان اپنی کوتاہ نظری کی بناء پر اربوں سال کی ارتقائی زندگی کزارنے کے
بعد بھی صرف پانچ حواس سے واقف ہوا ہے۔ انہی پانچ حواس پر اس کی جملہ ترقی اور عرج
کا دارو مدار ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے حواس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن آدم زاد
اسلاف کے ورثے ، ماحول کے اثرات اور پنے محدود علم کی وجہ سے صرف ان ہی پانچ حواس
سے کام لینے کا عادی ہے۔ باقی حواس سے ناواقفیت کی بناء پر ان سے کام لینے کا نہ
تو اسے خیال آتا ہے او رنہ ہی ان کے فوائد سے وہ مستفید ہوتا ہے یہ وجہ ہے کہ یہ
حواس اِس سے ہمیشہ مخفی اور پوشیدہ رہتے ہیں ۔ روحانی نقطہ نظر سے حواس کے دو درجے
ہیں ایک شعور اور ایک لاشعور، شعوری حواس کا دائرہ عمل مادی دنیا اور اس کے
مظاہرات کی حد تک محدود ہے۔ جبکہ لاشعوری حواس مادّے اور مادّی مظاہرات سے ماوراء
عالم مخفی سے متعلق ہیں، یہی وہ حواس ہیں جن کے ذریعے اسے غیب کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
جس کا تذکرہ قرآن پاک میں ہے۔ خالق کائنات اللہ کا ، حجابات، عرش، جنت و دوزخ،
اعراف ، حیات قبل از زندگی اور بعد از موت
کا مشاہدہ شعوری حواس سے کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ سورۃ البقرۃ کی ابتدائی آیات
میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ قرآن پاک ان متقی لوگوں کو ہدایت کرتا ہے غیب جن
کے یقین میں ہو اور یقین کی تکمیل کے لیے مشاہدہ ضروری ہے۔
اس
قانون کی رو سے وہ صاحب دل لوگ جن میں روحانی بصارت کام کرتی ہے اور جو غیب کے
نقوش کا مشاہدہ کے ساتھ یقین رکھتے ہیں وہی لوگ علم حقیقت سے واقف اور مستفید
ہوسکتے ہیں، روحانی بصارت کو روشن کرنے ، اس کو کھولنے کے لیے، اس سے مستفید ہونے
کے لیے انبیائے کرام اور ان کے واراثین اولیا اللہ نے کچھ اصول و ضوابط او رطور
طریقے مرتب کئے ہیں۔ ان ہی جسمانی اور روحانی وظائف کے ذریعے کائنات کے متوازی
عالم غیب اور اس کے مخفی گوشے، غیر مرئی مخلوقات اور اشیاء مشاہدے میں آجاتی ہیں۔
ہمارا ارتباط دوسری دنیاؤ ں سے بالکل اسی طرح قائم ہوجاتا ہے جس طرح ہم اس دنیا
میں رہتے ہوئے جمادات ، نباتات اور حیوانات کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اور ان
کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ مراقبہ غیب کے مشاہدے کی عینک ہے، روحانی بصر (Third Eye) مشاہدہ کرتی ہے ، مراقبے
کے لیے جب آنکھیں بند کرتے ہیں توگویا مادی مظاہرات سے چشم پوشی کرتے ہیں، شعوری
حواس کی نفی کرتے ہیں او ر اِس طرح شعوری حواس کی گرفت اور روشنی مدھم پڑجاتی ہے۔
مراقبے
میں ایک نقطے پر (اسی حالت میں جبکہ نقطہ بھی غیب میں واقع ہو) مرکوز کرنے سے دماغ کے اندر وہ خلیے جن کا تعلق
مشاہدے سے ہے، کھل جاتے ہیں اور آدمی رفتہ رفتہ ، قدم بقدم، منزل بہ منزل غیب کے
نقوش اور مظاہرات کا بالکل اس طرح مشاہدہ کرتا ہے جس طرح خواب نظر آتے ہیں، پھر
مشاہدات بیداری کی حالت میں منتقل ہونے لگتے ہیں۔ آپ کی طبیعت اور رجحان کے مطابق
آپ کے لیے یہ مشاہدہ موزوں رہے گا کہ رات کو سونے سے قبل یا صبح سورج نکلنے یس
پہلے باوضوکسی پرسکون آرام دہ نشست میں بیٹھ جائیں ، سو (100) بار درود شریف پڑھیں، آنکھیں بند کرکے تصور
کریں کہ میں روشنی کا نقطہ ہوں۔ یامظہر
العجائب دیکھئے کیا کیفیات و واردات وارد
ہوتی ہیں۔ جن کیفیا ت اور واردات کا مشاہد ہو
انہیں تاریخ وار لکھ لیں اور بھیج دیں تاکہ جہاں ضروری ہو مزید راہنمائی کی
جاسکے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔