Topics
سوال :
خواجہ صاحب آپ کی خدمت میں یہ سوال عرض کررہا ہوں اگرچہ سوال طویل ہے مگر
یہ سوال ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں آتا ہوگا۔ عرض یہ ہے کہ قرآن پاک میں ارشاد
ہے ’’ اے مومنوں تم مجھ سے مانگو میں تمہاری
دعائیں پوری کرونگا‘‘ جب سے ہوش سنبھالایہ
دعائیں سن رہے ہیں اور مانگ رہے ہیں کہ
اللہ مسلمانوں کا بول بالا کردے ، مسلمانوں کو تمام عالم میں حکمرانی عطا فرمادے،
فلسطین آزاد کردے، کشمیر آزاد کردے، ہرطرف
دین اسلام کا چراغ روشن ہو،۔ مدت دراز سے
فلسطین کے لیے دعائیں مانگی جارہی ہیں اس کے نتیجہ میں بیت المقدس ہی گنوا بیٹھے،
کشمیر کے لیے دعا مانگی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کشمیر تو خیر کیا آزاد ہوتا مشرقی
پاکستان ہاتھ سے نکل گیا۔آخر یہ سب کیا ہے؟ قرآن حکیم میں اللہ کا وعدہ کیوں
پورا نہیں ہورہا؟ ہمیں (مسلمان قوم
کو) کیا ملا؟۔ اس سے بہتر کہ دعا نہ مانگی
جائے، آپ برائے کرم اس پر روشنی ڈالے۔
جواب :
عزیزم یہ بہت بد نصیبی اورا فسوس کا مقام ہے کہ ہماری دوسری عبادتوں کی طرح
دعا بھی ایک رسم بن کررہ گئی ہے۔ قرآن پاک میں جہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی
طرف دعا کے لیے رجوع کرنے کو کہا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے قانون واضع فرمادیا
ہے ’’ بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں
بدلتا جو خود اپنی تبدیلی نہیں چاہتی۔(قرآن)‘‘
لوگ یہ تو پوچھتے ہیں کہ اربوں کھربوں مسلمان دعا کرتے ہیں وہ دعائیں کہاں
جاتی ہیں، مگر کبھی بھی اس طرف غور نہیں کرتے کہ اسی دنیا میں چوبیس گھنٹے گانا
بجانا ،غضب، حق تلفی، قتل وغارت گری، تعصب، بددیانتی، اقرباء نوازی، خویش پروری،
حرص ولالچ، دھوکہ دہی اورفریب کے اعمال ہوتے رہتے ہیں یہ سب کہاں جاتے ہیں۔ بلاشبہ
دعائیں اگر صدق دل سے نہ ہوں، گداز نہ ہو، ایسا گداز جو وجدان کو حرکت میں لے آئے
تو ایسی دعاوں کا بھی وہی حشر ہوتا ہے جو ہمارے غیر حقیقی اعمال کاہوتا ہے۔اس قسم
کی جتنی دعائیں مانگی جاتی ہے وہ سب بیکار اور بدنصیبی پر محمول کی جاتی ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ آج کا مسلمان بدنصیبی اور پھٹکار کے شکنجے میں اس طرح جکڑا گیا ہے کہ
اب مسلمان کو مسلمان کہتے ہوئے شرم آتی ہے
یہ
ساری دنیا اللہ کی مخلوق ہے، اس مخلوق کے طفیل دنیا قائم ہے اللہ کی مخلوق سے ہی
دنیا میں رونق قائم ہے اللہ کے بندوں سے ہی یہ دنیا ارتقائی منازل طے کررہی ہیں۔
آپ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے کہ قوم نام ہے افراد کا، افرا جب اپنے ہی نبی ﷺ کے مشن سے دور ہوجاتے ہیں تو ان کے اندر
احساس کمتری پیدا ہوجاتا ہے اور احساس کمتری صلاحیتوں کو نیست ونابود کردیتا ہے۔
شیطانی گروہ اللہ کی مخلوق کی اس کمزوری سے واقفیت کی بناء پر ہمیشہ اِس بات کی
کوشش کرتا ہے کہ جس طرح بھی ہوان کو اس احساس سے نہ نکلنے دیا جائے۔ ہر مذہب کے
نام نہاد پیشوا مخصوص لباس اور وضع قطع کو اپنا کر اللہ کی مخلوق کو یہ تاثر دیتے
ہیں کہ ہم تمھارے درمیان مقدس اور برگذیدہ ہیں اور تمیں اپنی زندگی ہماری بتائی
ہوئی ہدایات کے مطابق بسر کرنی چاہے اور یہی زندگی تمھارے لیے راحت اور آرام کی
ضمانت ہے اس کے خلاف قدم اٹھا کر تمھارے اوپر دین اور دنیا کی راحتو ں کے دروازے
بند ہوجائے گے اور نعوذ باللہ، اللہ کی
قربت سے دوری تمہارا مقدر بن جائے گی۔ یہ گروہ وہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ
کا ارشادہے کہ ’’ اور وہ لوگ جو سونا
چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے لیے عذاب الیم کی
بشارت ہے ـ ‘‘ (القرآن)
اپنے
مخصوص رہن سہن اور اپنے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کے ذریعے اللہ کی مخلوق کو اتنا
ہراساں کردیتے ہیں کہ ان کا ذہن ما ؤ ف
ہوجاتا ہے اور دماغ تعطل کا شکار ہوجاتا ہے ، یکسوئی او ر ذہنی آزادی ان کے لیے
ایک نعمت غیر متروقہ بن جاتی ہے اور یہ احساس کمتری کا وہ درجہ ہے جہاں پوری قوم
بھیڑ اور بکریوں کی صف میں شامل ہوجاتی ہے۔
اس آیت کو پھر پڑھئے اور غور کیجئے،
’’جب تک کوئی قوم خود اپنے اندر تغیر نہیں چاہتی ، اللہ تعالیٰ اسکے اندر کوئی تبدیلی نہیں فرماتے
‘‘۔
جب
کوئی قوم تبدیلی چاہتی ہے تو اللہ کے قانون کے تحت اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ
ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فرشتے قوم کی مرضی اور منشاء کے مطابق ان
کے دائیں بائیں آگے پیچھے رہ کر شیطانی طاقتوں سے ٹکرا جاتے ہیں ، حضور علیہ
الصلوۃ السلام کی حیات مبارکہ میں اسلام کا عروج، خلفاء راشدین کے عہد میں
مسلمانوں کا عروج، اندلس میں مسلمانوں کا عروج، روسی علاقوں میں مسلمان قوم کا
عروج، برصغیر میں مسلمانوں کا عروج، پاکستان کے قیام کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں،
جب بھی مسلمان قوم نے اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے تحت کوشش کی اللہ تعالیٰ نے
مسلمانوں کو عروج بخشا۔ جب قوم اللہ تعالیٰ کے قانون کو بھول گئی اور اپنی انفرادی
مصلحتوں کا شکار ہوگئی، ذلت، بدحالی اس کا مقدر بن گئی۔
یہاں
مشکل یہ درپیش ہے کہ ایک مزدور سے لیکر بڑے سے بڑے کاروباری تک ہر شخص حرص اور
دولت پرستی جیسی بیماری کا شکار ہے۔ عالم اسلام میں یہ بیماری عام ہے۔ مذہب اور
اللہ کے احکامات کو مصلحتوں کے تحت قبول کیا جاتا ہے۔ دل سے قبول نہیں کیا جاتا۔
زبان پر اللہ کا تذکرہ ہے لیکن ان کا دل اللہ سے خالی ہے۔ اللہ تعالی کے قانون کے
تحت یہ ایک بہت بڑا جرم ہے اور اس کی پاداش بہت سخت
ہے۔ لوگوں کے دلو ں میں لالچ اور حرص و ہوس بھر جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ذلیل و
خوار کردیتا ہے۔عامتہ السلمین کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے حبیب کی امت ہے،عمل دیکھو
تومسلمان کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حضور ﷺ
کی زندگی آپ کے سامنے ہے ، آپ کے رہن سہن سے سب واقف ہیں۔ حضور جس گھر میں قیام
فرماتے تھے وہ ایک کچا کوٹھا یا حجرہ تھا، چھت کھجو ر کے پتوں اور تنے سے ڈھکی
ہوئی تھی، گھر میں بستر کی جگہ بوریا اور چمڑے کا تکیہ تھا۔ اس تکیہ میں روئی نہیں
تھی فوم نہیں تھا، کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے، کائنات کے سرتاج صاحب معجزہ شق القمر ، اسلامی حکومت کے سربراہ
کی رفیقہ حیات حضرت عائشہؓ
کے گھر کا اثاثہ ایک بسترا، ایک تکیہ آٹا اور کھجوریں رکھنے کے لیے دو مٹکے، پانی
کاایک برتن پانی پینے کے لیے۔
حضور ﷺ کے صحابہ بھی آپ کی زندگی کا نمونہ تھے۔
ذرا انصاف کیجئے کیا مسلمانوں کو زندگی
حضور ﷺ کی زندگی سے ملتی ہے۔ دولت مند ہر آدمی بننا چاہتا ہے مگر حضرت عثمان غنیؓ
کوئی بننے کو تیار نہیں ہے۔ ہم ایک طرف زبانی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حضور ﷺ کی امت ہیں دوسری طرف ہماری زندگی کا ہر عمل
حضور ﷺ کے عمل کے برعکس ہے اور پھر چاہتے
ہیں کہ ہمارے اوپر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ، دعائیں قبول کی جائیں اور دنیامیں ہم
ایک معزز قوم بن کر رہیں، بھلا یہ کیسے
ممکن ہے؟
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔