Topics
سوال :
قرآن میں ہے کہ ازل سے ابد تک جو کچھ ہونے والا ہے وہ لوح محفوظ پر لکھا
ہو ہے، سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے اور باقاعدہ لکھا ہوا ہے تو
انسان اپنی روزی حرام طریقے سے کماتا ہے ، یہ لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے، اس معاملے
میں کیا بے بس نہیں ہیں؟
جواب :
زندگی کا ہر عمل اپنی ایک حیثیت رکھتاہے۔ اس حیثیت میں معانی پہنانا دراصل
طرز فکر میں تبدیلی ہے ہمارا یقین ہے کہ ہر وہ چیز جو اس دنیا میں موجود ہے یا
آئندہ ہوگی، وہ کہیں پہلے سے موجود
ہے، یعنی دنیا میں کوئی چیز اِس وقت تک
موجود نہیں ہوسکتی جب تک وہ پہلے سے موجود نہ ہو، کوئی آدمی پیدا ہوتا ہے کہ وہ
پیدا ہونے سے پہلے کہیں موجود ہوتا ہے، آدمی کی زندگی کے نشیب و فراز ، دن، ماہ و
سال کے وقفے پہلے سے ایک فلم کی صورت میں ریکارڈ ہیں۔ اِس فلم کو ہم کائناتی فلم
یا ’’لوح محفوظ‘‘ کہتے ہیں ۔
ایک
آدمی عاقل ، بالغ اور باشعور ہوتا ہے اسے زندگی گزارنے کے لیے وسائل کی ضرورت پیش
آتی ہے اور وسائل کو حاصل کرنے کے لیے روپیہ پیسہ ایک میڈیم کی حیثیت رکھتا
ہے۔ بات کچھ اِس طرح ہے ایک آدمی کے لیے
پیدا کرنے والی ہستی نے ایک لاکھ روپے متعین کردیے ، اسی طرح جیسے ایک لاکھ روپے
کسی بنک میں جمع کروادیے جاتے ہیں ۔ وسائل کو استعمال کرنے کے لیے آدمی جدوجہد
اور کوشش کرتا ہے، کوشش اور جدوجہد جیسے جیسے کامیابی کے مراحل طے کرتی ہے اس کو
روپیہ ملتا رہتا ہے اور ضرورت پوری ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے
اگر کائناتی فلم (لوح محفوظ ) میں وسائل ریکارڈ
اور زر مبادلہ متعین نہ ہو تو ڈسپلے ہونے والی فلم نامکمل رہتی ہے۔ ایک
آدمی کے نام بنک میں کروڑوں روپے کا زرمبادلہ موجود ہے لیکن نہ وہ اسے استعمال
کرتا ہے اور نہ ہی اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو یہ زرمبادلہ اس کے کام نہیں آتا۔
ایک
طرز فکر یہ ہے کہ آدمی باوجود اس کے ضمیر ملامت کرتا ہے وہ اپنی روزی کے حصول میں
ناجائز طریقے استعمال کرتا ہے جبکہ وہ ناجائز طریقہ اختیار نہ کرکے بھی روٹی کھا
سکتا ہے تھا، جس طرح رزق حلال سے شکم سیری ہوتی ہے اسی طرح رزق حرام سے بھی شکم
سیری ہوتی ہے۔ایک آدمی محنت مزدوری کرکے ضمیر کی روشنی میں روپیہ حاصل کرتا ہے
دوسرا ضمیر کی ملامت کی پروانہ کرتے ہوئے روپیہ حاصل کرتا ہے، دونوں صورتوں میں
اُس کو وہ ہی روپیہ مل رہا ہے جو لوح محفوظ پر اس کے لیے جمع کردیا گیا ہے ۔ بڑی عجیب بات اور انتہائی درجہ نادانی ہے کہ
ایک آدمی اپنی ہی حلال چیز کو حرام کرلیتا ہے،
صاف ستھری غذا میں ملاوٹ کرکے اس غذا کو صحت کے لیے مضر بنالیا جائے اور کہا
جائے آدمی بیمار ہوں، تو یہ نہیں کہا جائے گا ایسا لکھا ہوا تھا۔ لوح محفوظ پر یہ
لکھا ہوا ہے کہ غذا کھائی جائے، کس طرح کھائی جائے یہ انسان کا اپنا اختیار ہے۔
کوئی آدمی گیہوں کھا کر بھی پیٹ بھر سکتا ہے
اور دوسرا آدمی گیہوں کو صاف کرکے چکی پر پسوا کر آٹا گوند کر توئے پر
روٹی پکا کر کھاتا ہے، پانی ٹھنڈا اور گرم
دونوں طرح کا ہوتا ہے ، گرمیوں میں ٹھنڈا پانی اور سردیوں میں گرم پانی اچھا لگتا
ہے۔ موسم کے لحاظ سے جس چیز کی ضرورت ہوتی
ہے انسان اپنا اختیار استعمال کرکے اسے استعمال کرسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے آگ
بنائی تاکہ لوگ کھانا پکا کر کھائیں۔ اگر کوئی آدمی آگ میں ہاتھ ڈال دے تو ظاہر
ہے اس کا ہاتھ جل جائے گا، جلنے والا آدمی یہ نہیں کہتا کہ لوح محفوظ پر یہی لکھا
ہے میں دہکتی ہوئی آگ میں ہاتھ ڈالوں تاکہ میرا ہاتھ جھلس جائے اور جل جائے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔