Topics
سوال: عظیمی صاحب! طرز فکر کیا ہوتی ہے؟
جواب: ایک آدمی آنکھوں پر چشمہ نہیں پہنتا وہ جو
کچھ دیکھتا ہے براہ راست دیکھتا ہے۔ دوسرا آدمی چشمہ لگاتا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھ رہا
ہے اس کے دیکھنے میں گلاس میڈیم بن جاتا ہے۔ اب اسی مثال کو اور زیادہ گہرائی میں
بیان کیا جائے تو اس طرح کہا جائے گا کہ عینک میں اگر سرخ رنگ کا گلاس ہے تو ہر
چیز سرخ نظر آئے گی۔ نیلا گلاس ہے تو ہر چیز نیلی نظر آئے گی۔ جس طرح انسانی تقاضے
اور انسان کی نظر لوح محفوظ پر نقش ہے۔ اسی طرح شیشہ اور شیشے کی تمام
صلاحیتیں بھی لوح محفوظ پر نقش ہیں
۔جب ہم کسی رنگین شیشے کو اپنا میڈیم بنائیں گے تو نظر وہی دیکھے گی جو ہمیں شیشہ
دکھائے گا۔
بات طرز فکر کی ہو رہی تھی۔ طرز فکر اور نظر کا
قانون ایک ہی بات ہے۔ طرز فکر ہی براہ راست اور بالواسطہ کام کرتی ہے۔ ایک طرز فکر
ایسی ہے جو بالواسطہ کام کرتی ہے اور ایک طرز فکر یہ ہے کہ جو براہ راست کام کرتی
ہے۔ کوئی آدمی اگر ایسے شخص کی طرز فکر کو اپنے لئے واسطہ بناتا ہے جس کی طرز فکر
براہ راست کام کر رہی ہے تو اس شخص کے اندر وہی طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے جس طرح
رنگین شیشہ آنکھ پر لگانے سے ہر چیز رنگین نظر آتی ہے۔ روحانی تعلیم دراصل طرزفکر
کی اس صلاحیت کو اپنے اندر منتقل کرنے کا ایک عمل ہے۔
جب کوئی بچہ استاد کی شاگردی میں آتا ہے تو استاد
اس سے کہتا ہے کہ پڑھ الف، ب، جیم۔ بچے کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ الف جیم کیا
ہے۔ وہ اپنی لا علمی کی بناء پر جو استاد اسے سکھاتا ہے قبول کر لیتا ہے لیکن اگر
یہی بچہ الف، ب ، جیم کو قبول نہ کرے تو علم نہیں سیکھ سکتا۔ مفہوم یہ ہے کہ بچے
کی لاعلمی اس کا علم بن جاتی ہے۔ وہ بحیثیت شاگرد استاد کی رہنمائی قبول کر لیتا
ہے اور درجہ بدرجہ علم سیکھتا چلا جاتا ہے۔
ایک آدمی جو باشعور ہے اور وہ کسی نہ کسی درجہ میں
دوسرے علوم کا حامل بھی ہے۔ روحانیت کا علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی پوزیشن
بھی ایک بچے کی سی ہوتی ہے۔ روحانیت میں شاگرد کو مرید اور استاد کو مراد کہا جاتا
ہے۔ مرید کے اندر اگر بچے کی افتاد طبیعت موجود نہیں تو وہ مراد کی بتائی ہوئی کسی
بات کو اس طرح قبول نہیں کرے گا۔ جس طرح کوئی بچہ الف، ب، جیم کو قبول کرتا ہے
چونکہ روحانی علوم میں اس کی حیثیت ایک بچے سے زیادہ نہیں ہے اس لئے اسے وہی طرز
فکر اختیار کرنا پڑے گی جو بچے کو الف، ب،جیم سکھاتی ہے۔
روحانی استاد اپنے شاگرد سے کہتا ہے کہ آنکھیں بند
کر کے بیٹھ جاؤ۔ کیوں بیٹھ جاؤ؟ اس کے بارے میں وہ کچھ نہیں بتاتا۔ بالکل اس طرح
جس طرح کوئی استاد بچے سے کہتا ہے کہ پڑھو الف اور یہ نہیں بتاتا کہ الف کیا ہے
اور کیوں ہے؟ پھر وہ کہتا ہے آنکھیں بند کر کے شیخ کا تصور کرو لیکن یہ نہیں بتاتا
کہ تصور شیخ کیا ہے اور کیوں کیا جاتا ہے؟ اگر ابتداء میں ہی شاگرد اپنے علم کے
زعم میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے کہ آنکھیں کیوں بند کی جائیں۔ تصور شیخ کیوں
کیا جائے اور اس سے کیا حاصل ہو گا تو یہ طرز فکر شاگرد کے عمل کے منافی ہے کسی
علم کو سیکھنے میں صرف اور صرف یہ طرز فکر کام کرتی ہے کہ استاد کے حکم کی تعمیل
کی جائے اور استاد کی تعمیل حکم یہ ہے کہ لاعلمی اس کا شعار بن جائے۔
امام غزالیؒ کا ایک بہت مشہور واقعہ ہے۔ آپ اپنے
زمانے کے یکتائے روزگار تھے۔ بڑے بڑے جید علماء ان کے علم سے استفادہ کرتے تھے۔
بیٹھے بیٹھے ان کو خیال آیا کہ خانقاہی نظام کو بھی دیکھنا چاہئے۔ وہ عرصہ دراز تک
لوگوں سے ملتے رہے اور اس سلسلے میں انہوں نے دور دراز کا سفر بھی کیا۔ بالآخر
مایوس ہو کر بیٹھ گئے۔ کسی نے پوچھا آپ ابو بکر شبلیؒ سے بھی ملے ہیں؟ امام غزالیؒ
نے فرمایا کہ اب تک روحانی مکتبہ فکر کا کوئی مشہور آدمی نہیں چھوڑا۔ جس سے ملاقات
نہ کی ہو۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سب کہانیاں ہیں۔ جو فقراء نے اپنے بارے
میں مشہور کر رکھی ہیں پھر انہیں خود ہی خیال آیا کہ ایک مشہور آدمی رہ گیا ہے
کیوں نہ ملاقات کر لی جائے؟
قصہ کوتاہ ، وہ ملاقات کے لئے عازم سفر ہوئے۔
مختلف تذکروں میں یہ بات ملتی ہے کہ جس وقت وہ عازم سفر ہوئے تو ان کا لباس اور
سواری میں گھوڑے کے اوپر زین وغیرہ کی مالیت اس زمانہ میں بیس ہزار اشرفی تھی۔ یہ
کہنا کہ واقعتا یہ صحیح ہے اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہتے لیکن اتنا ضرور ہے کہ
امام غزالیؒ بہت شان و شوکت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ منزلیں طے کرکے جب حضرت ابو
بکر شبلیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ایک مسجد میں بیٹھے گدڑی سی رہے تھے۔ امام
غزالیؒ حضرت ابو بکر شبلیؒ کی پشت کی جانب کھڑے ہو گئے۔ حضرت ابو بکر شبلیؒ نے
پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر فرمایا۔’’غزالی! آ گیا تو نے بہت وقت ضائع کر دیا ہے۔
شریعت میں علم پہلے ہے عمل بعد میں اور طریقت میں
عمل پہلے ہے علم بعد میں ہے۔ اگر تو اس بات پر قائم رہ سکتا ہے تو میرے پاس قیام
کر ورنہ واپس چلا جا۔ امام غزالیؒ نے ایک منٹ توقف کیا اور کہا کہ میں قیام کروں
گا۔ یہ بات سن کر حضرت ابو بکر شبلیؒ نے فرمایا کہ سامنے مسجد کے کونے میں جا کر
کھڑے ہو جاؤ۔ امام غزالیؒ مودب ایستادہ ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد حضرت شبلیؒ نے ان
کو بلایا اور اپنے ساتھ گھر لے گئے۔ بہت خاطر مدارت کی۔ امام غزالیؒ بہت خوش ہوئے
کہ مجھے بہت اچھا روحانی استاد مل گیا ہے۔ جس نے میرے اوپر آرام و آسائش کے دروازے
کھول دیئے ہیں۔ چند روز بعد حضرت شبلیؒ نے امام غزالیؒ سے فرمایا، بھائی اب کام
شروع ہو جانا چاہئے۔ اور کام کی ابتداء یہ ہے کہ ایک بوری کھجور لے کر شہر کے
بازار میں جاؤ اور بوری کھول کر یہ اعلان کر دو کہ جو آدمی میرے سر پر ایک چپت
لگائے (رسید) کرے گا اسے ایک کھجور ملے گی۔ امام غزالیؒ شام کو جب کھجوریں تقسیم
کر کے واپس آئے تو پوچھا۔ حضرت یہ کام مجھے کتنے عرصے تک کرنا پڑے گا۔ حضرت ابو
بکر شبلیؒ نے فرمایا ایک سال اور وہ ایک سال یہ خدمت سر انجام دیتے رہے۔ سال پورا
ہوا تو امام غزالیؒ نے یاددہانی کرائی کہ حضور ایک سال پورا ہو گیا۔ حضرت ابو بکر
شبلیؒ نے فرمایا ایک سال اور، دو سال پورے ہونے کے بعد فرمایا کہ ایک سال اور جب
تین سال پورے ہو گئے اور امام غزالیؒ نے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی تو حضرت
ابو بکر شبلیؒ نے ان سے پوچھا کہ کیا ابھی سال پورا نہیں ہوا۔ امام غزالیؒ نے
فرمایا کہ سال پورا ہوا ہے یا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ سن کر حضرت نے
فرمایا کہ کام پورا ہو گیا ہے۔ اب کھجوریں لے کر جانے کی ضرورت نہیں اور انہوں نے
غزالی کو وہ علم جس کی تلاش میں وہ سالہاسال سے سرگرداں تھے، منتقل کر دیا۔ امام
غزالیؒ جب وطن واپس پہنچے تو صورتحال یہ تھی کہ معمولی کپڑے زیب تن تھے۔ ہاتھ میں
ایک ڈول تھا اور ڈول میں رسی بندھی ہوئی تھی۔ شہر والوں کو جب علم ہوا کہ امام
غزالیؒ واپس تشریف لائے ہیں تو ان کے استقبال کے لئے پورا شہر امڈ آیا۔ لوگوں نے
جب ان کو پھٹے پرانے لباس میں دیکھا تو حیران و پریشان ہوئے اور کہا یہ آپ نے کیا
صورت بنا رکھی ہے؟ امام غزالیؒ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم اگر میرے اوپر یہ وقت نہ
آتا تو میری ساری زندگی ضائع ہو جاتی۔ امام غزالیؒ کے یہ الفاظ بہت فکر طلب ہیں۔
اپنے ز مانے کے یکتا عالم فاضل دانشور یہ کہہ رہا ہے کہ’’یہ علم اگر حاصل نہ ہوتا
جو تین سال تک سر پر چپت کھا کر حاصل ہوا ہے تو زندگی ضائع ہو جاتی۔‘‘
امام غزالیؒ اگر اس وقت جب ان سے کہا گیا تھا کہ
سر پر ایک چپت کھانے کے بعد ایک کھجور تقسیم کرو۔ یہ سوال کر دیتے کہ جناب اس کی
علمی توجیہہ کیا ہے اور سر پر چپت کھانے سے روحانیت کیسے حاصل ہو سکتی ہے تو انہیں
یہ علم حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔
یہی صورتحال روحانی استاد(مراد) اور شاگرد(مرید)
کی ہے۔ مرید کے اند رجب تک اپنی انا کا علم موجود ہے وہ مراد سے کچھ نہیں سیکھ
سکتا۔ ہم جب کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں تو پہلے اللہ کی نفی کرتے ہیں اور پھر اللہ کا
اقرار کرتے ہیں۔ لاالہ کوئی معبود نہیں الاللہ مگر اللہ۔
اس کی عام تفسیر تو یہ ہے کہ حضورﷺ کی بعثت کے
زمانے میں بتوں کی پوجا ہوتی تھی۔ لوگ بتوں کو خدا مانتے تھے۔ لا الہ کا مفہوم یہ
ہوا کہ یہ بت معبود نہیں مگر اللہ معبود ہے ۔ لیکن باریک بین نظر اور گہرے تفکر
اور سنجیدہ فہم سے غور کیا جائے تو اس کی تشریح اس طرح ہوگی کہ ہمارے شعوری علوم
کے احاطے میں اللہ کے جاننے کی جو طرز ہے، ہم اس کی نفی کرتے ہیں اور اللہ کو اس
طرح تسلیم کرتے ہیں جس طرح اللہ خود کو اللہ کہلاتا ہے اور محمدﷺ اللہ کے قاصد
ہیں۔ یعنی محمدﷺ بحیثیت قاصد اللہ کو جس طرح بتایا ہم اسی طرح اللہ کو تسلیم کرتے ہیں۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ پہلے ہم نے علم کی نفی کی اور پھر علم کا اثبات کیا۔ جب علم
کی نفی کی تو اپنی نفی کی اور جب اپنی نفی کی تو اللہ کے سوا کچھ باقی نہ بچا۔
ہم جب کسی چیز کو اپناتے ہیں تو اس میں طرز فکر کو
پہلے دخل ہوتا ہے۔ روحانیت کا اگر مجموعی طور پر کوئی دوسرا مترادف لفظ ہو سکتا ہے
تو وہ طرز فکر ہے۔ چونکہ عام آدمی طرز فکر قائم کرنے کے اصول و قواعدسے واقف نہیں
ہوتا اس لئے اسے ایسے آدمی کی تلاش ہوتی ہے جو طرز فکر قائم کرنے کے قانون سے
واقفیت رکھتا ہو۔ ابتداء اس طرح ہوتی ہے کہ ایک بندے نے ایسا بندہ تلاش کیا جس کی
طرز فکر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وابستہ ہے۔ اس کی قربت میں بندے کو
وہی طرز فکر منتقل ہو جاتی ہے اور جب اس بندے کو رسول اللہ صلی علیہ و سلم کا
عرفان نصیب ہو جاتا ہے تو اس کی طرز فکر میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے۔ تو اس طرز
فکر سے بھی آشنا ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہے۔ زندگی میں اگر
اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل ہو جاتا ہے۔ تو زندگی کامیاب ہے ورنہ پوری زندگی خسارے
اور نقصان کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔