Topics

روحانیت اور علم نجوم

                         

سوال  :   کیا انسانی زندگی پر ستارے اثر انداز ہوتے ہیں؟  جذبات و کیفیات کا کوئی تعلق ستاروں سے ہے؟

جواب  :  ’’ہم نے بنائے آسمان پر بروج اور زینت بخشی دیکھنے والوں کے لیے اور محفوظ کرلیا شیطان مردود سے‘‘  (القرآن)

آسمان کو زینت بخشی اہل نظر کے لیے اور جو لوگ اہل نظر نہیں ہے ان سے اس زنیت کو مخفی فرمایا،  قرآن پاک میں یہ بھی ارشاد ہے کہ ہم کوئی نئی بات نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ جو بات پہلے کہی گئی اسی کا اعادہ کیا جارہا ہے۔ موجودہ سائنس کی دنیا کہکشانی اور شمسی نظاموں سے اچھی طرح روشناس ہے، کہکشانی اور شمسی نظاموں سے ہماری زمین کا کیا تعلق ہے اور ان نظاموں کی روشنیاں زمین کی نوعوں ، انسان، حیوانات،  نباتات اور جمادات پر اثرانداز ہوتی ہے۔ یہ مرحلہ سائنس کے سامنے آچکاکہ بالاآخر سائنسدانوں کویہ سمجھنا پڑے گاکہ شمسی نظاموں کی روشنیاں انسان کے اندر ، نباتات کے اندر کسی طرح اور کیا عمل کرتی ہیں، کس طرح جانوروں ، انسانوں ، نباتات، جمادات کی کیفیات میں ردوبدل کردیتی ہے۔

                سائنس کا عقیدہ ہے کہ زمین پر ظاہر اور چھپی ہوئی ہر موجو دشئے کا قیام لہر پر ہے۔ ایسی لہر جس کو روشنی کی علاوہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا،  قدرت کا یہ چلن ہے کہ وہ لاتنہاہی تفکر سے متنہاہی تفکر کو فیضان پہنچاتی ہے، پوری کائنات میں اگر قدرت کا یہ فیضان جاری نہ ہوتو کائنات کے افراد کا درمیانی رشتہ کٹ جائے،  عام زبان میں ان کو تفکر کا نام دیا جاتا ہے اور اناء یا تفکرایسی کیفیات کا مجموعہ ہوتا ہے جن کو مجموعی طور پر فرد کہتے ہیں۔  اسی طرح کی تخلیقات ستارے بھی ہیں اورذرے بھی۔

                ہمارے شعور میں یہ بات تو نہیں آتی یا بہت کم آتی ہے کہ تفکر کے ذریعے ستاروں ،  ذروں اور تمام مخلوق سے ہمارا تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے،  ان کی اناء یعنی تفکر کی لہریں ہمیں بہت کچھ دیتی ہیں اور ہم سے بہت کچھ لیتی ہیں۔ یہ کہکشانی نظام اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے،  پے در پے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور آبادیوں سے ہمیں موصول ہوتے رہتے ہیں،  یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں ۔ روشنی کی ہر چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات کی تصویریں لے کر آتی ہیں،  ان تصویروں کو ہم اپنی زبان میں تخیل ، تصور، خیال اور تفکر کا نام دیتے ہیں، سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ ہماری اپنی اختراعات ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ تمام مخلوق سوچ اور تفکر کا ایک مشترک رکھتی ہے ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ

  ’’  و ہ ذات جس نے تمہیں تخلیق کیا نفس واحدہ سے‘‘،  یہ ہی نقطہ مشترک تصویروں کو جمع کرکے ان کا علم دیتا ہے ،  ہماری زندگی ہمارا مشاہدہ سب کا سب اس علم پر قائم ہے۔

                جس نظام شمسی میں ہم رہتے ہیں ظاہر ہے اس نظام شمسی کے سورج سے ہماری زمین کا تعلق ہے اور اسی سورج اور سیاروں سے تعلق بھی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہماری زمین کا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایک سورج کے گرد گردش کرنے والے تمام سیارے ایک دوسرے کی روشنیوں کا کسی نہ کسی طرح اثر لیتے ہیں۔ اسی طرح جس طرح ہمارے سورج کہکشاں کی روشنی سے متاثر ہوتا ہے نتیجہ میں ہم زیر اثر ہیں۔  کہکشا وں کی روشنیوں سے جو سورج کی معرفت ہمیں ملتی ہے وہ سب روشنیاں بھی مل کر ہمارے ستارے کو متاثر کرتی ہیں۔ بلحاظ ہمیں ان روشنیوں کا تذکرہ کرنا پڑے گا جو کہکشاوں سے سورج کو ملی ہے ہمیں لازمی ان روشنیوں کا تذکرہ کرنا پڑے گاجو سورج کے اور سورج سیاروں کے زیر اثر ہمارے سیارے کو پہنچتی ہے۔

                یہ روشنیاں باہم و دیگر مخلوط ہے۔ ان کا اثر ہمارے سیارے کی ہرچیز پر پڑتا ہے خواہ وہ آدمی ہو، چوپایہ ہو،  درخت ہو،  پودا ہو،  گھاس ہو، قطرہ ہو، وغیرہ وغیرہ ، اور چیزوں سے بحث نہیں صرف آدمی سے بحث ہے،  چنانچہ آدمی کے دماغ میں ان روشنیوں کا مخلوط داخل ہوکر اثرکرتا ہے۔ان روشنیوں کی قسمیں بہت کم معلوم ہے چونکہ اس سلسلے میں ہمارا علم نہایت محدود ہے اس لیے ہمارا علم نجوم بھی ناقص ہے، البتہ یہ بات ماننا پڑے گی کہ سیاروں کی روشنیوں کا اثرپڑتا ہے اور ضرور پڑتا ہے محض جذباتی کیفیات ہی نہیں بلکہ ہر قسم کی کیفیات سیاروں کی روشنیوں سے متاثر ہوتی ہے۔

Topics


Usoloo

Khwaja Shamsuddin Azeemi


ان کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔ میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ  125  سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے ، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ ہوسکے۔