Topics
سوال:
آج نوع انسانی جس ذہنی کشاکش اور دماغی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے،اس کی اصل وجہ کیا ہے؟
روحانی طرزوں میں اس رہنمائی کو آشکار کر دیجئے جس سے آج کی پریشان ذہنی اور
پراگندہ دل، نسل اپنے مستقبل کو سنوار سکتی ہے؟
جواب:
نوع انسانی کی نسل میں ذہن کشاکش اور دماغی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کی اصل وجہ یہ
ہے کہ اس کے اندر انبیاء کی طرز فکر کا انعکاس کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کے
اپنے بنائے ہوئے مفروضہ حواس نے اسے حقیقت آگاہی سے محروم کر دیا ہے۔
مینارہ
نور ہدایت سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ
اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
انبیاء
کرام جب کسی چیز کے متعلق سوچتے تھے تو اس چیز کے اور اپنے درمیان کوئی رشتہ براہ
راست قائم نہیں کرتے تھے ہمیشہ ان کی طرز فکر یہ ہوتی تھی کہ کائنات کی تمام چیزوں
کا اور ہمارا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی چیز کا رشتہ ہم سے براہ راست نہیں ہے بلکہ
ہر چیز کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے جب کسی چیز کی طرف مخاطب ہوتے تھے تو اس
چیز کی طرف خیال جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف خیال جاتا تھا انہیں کسی چیز کی
طرف توجہ دینے سے پیشتر یہ احساس عادتاً ہوتا تھا کہ یہ چیز ہم سے براہ راست کوئی
تعلق نہیں رکھتی اس چیز کا اور ہمارا واسطہ محض اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ اللہ
تعالیٰ ہی بحیثیت محسوس کے ان کا مخاطب اور مدنظر قرار پاتا تھا اور قانون کی رو
سے اللہ تعالیٰ کی صفات ہی ان کا احساس بنتی تھیں اور ان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی
صفات کا قائم مقام بن جاتا تھا۔
آج کی
نوع انسانی چونکہ انبیاء کی طرز فکر سے بے بہرہ ہے اورFICTIONحواس
سے مغلوب ہے مادہ یعنی MATTERپر اس کا یقین غالب اور مادہ کے خالق پر اس کا
یقین کمزور ہے۔ اس لیے دماغی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔جہاں تک نسل انسانی کو اپنا
مستقبل سنوارنے کے لئے رہنمائی کا تعلق ہے تو یہ گر بھی حضور قلندر بابا اولیاء
رحمتہ اللہ علیہ آشکار فرما گئے ہیں۔ اس جمال کی تفصیل میں آپ نے فرمایا’’اگر ہم
کسی شخص سے قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کرنا ہو گا جو مطلوب کرتا ہے
اگر ہم اللہ سے دوستی اور قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی وہی کرنا ہو گا جو
اللہ تعالیٰ کرتے ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر آن اپنی مخلوق کی خدمت میں
مشغول رہتے ہیں، مخلوق کی حفاظت کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں مخلوق سے کوئی صلہ یا
بدلہ نہیں چاہتے بندہ اگرچہ خالق کی سطح پر مخلوق کی خدمت نہیں کر سکتا لیکن اپنی
ہر حاجت اور ضرورت کو اللہ تعالیٰ کی ذات اکبر سے سے وابستہ کر سکتا ہے۔ اس طرز
عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کا ایک رکن بن جاتا ہے۔حضور قلندر بابا مزید فرماتے ہیں کہ ’’ہر کام پوری جدوجہد اور
کوشش سے کیا جائے لیکن نتائج کو اللہ تعالیٰ کے اوپر چھوڑ دیا جائے۔‘‘
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔