Topics
سوال:
آج سے دس بارہ سال قبل کا واقعہ ہے کہ میرے دادا جان تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے
اٹھے اور وضو کرنے کی خاطر غسل خانہ میں گئے۔ میں اند رکمرے میں لیٹا تھا۔ سردیوں
کے دن تھے۔ میں نے لحاف میں سے منہ نکالا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب ہیں جو تہمد اور جیکٹ پہنے ہوئے ہیں اور سر سے ننگے ہیں،
سفید داڑھی ہے اور چہرہ نور سے چمک رہا ہے۔ میں نے تو دیکھتے ہی سمجھا کہ کوئی چور
ہے۔ ڈر کے مارے لحاف کے اندر منہ لپیٹ کر لیٹ گیا۔ سخت سردی کے باوجود میں پسینے
سے شرابور ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر میں نے لحاف سے منہ نکالا تو وہ میری طرف
دیکھ کر مسکرانے لگے۔ ان کے ہاتھ میں ایک خالی چنگیر، روٹی رکھنے والی تھی۔ میں
دوبارہ خوف کے مارے منہ اندر کر کے دبک کر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایسا محسوس ہوا
کہ پاؤں کی طرف سے کوئی لحاف ہٹا رہا ہے اسی کشمکش میں ، میں سو گیا۔ صبح اٹھ کر
والد صاحب کو اس بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگے وہ بزرگ حضرت خضر علیہ السلام
تھے۔دوسری رات یہ بزرگ والدہ صاحبہ کو خواب میں آئے اور بتایا کہ ہم تمہارے لڑکے
کو کچھ دینا چاہتے تھے مگر یہ ڈر گیا ہے۔ اب دس سال بعد اسے دیں گے۔ اس کے بعد کسی
نے کہا کہ کنوئیں پر جو ہمارے صحن میں تھا مگر اب نہیں ہے، اور بند کر دیا گیا ہے،
گھی کا چراغ جلاؤ تو ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہو جائے گی۔ میں ہر جمعرات کو
یہ عمل کرتا رہا مگر ان کی زیارت نہ ہو سکی۔ کیا حضرت خضر علیہ السلام سے میری
ملاقات ہو سکتی ہے؟ اس کے لئے میں کیا عمل کروں؟
جواب:
آپ کا دل کمزور ہے۔ کمزوردل آدمی کا شعور بھی طاقتور نہیں ہوتا۔ پہلے آپ کو اس بات
کی کوشش کرنی چاہئے کہ آپ کا دل مضبوط ہو جائے۔ اور یا شعور میں اتنی سکت ہو کہ وہ
رجال الغیب اس کے سامنے آ جائیں تو شعور مغلوب نہ ہو۔ اس کے لئے کسی روحانی استاد
کی نگرانی میں اس کے بتائے ہوئے اسباق کی تکمیل کی جائے۔رات کو سونے سے پہلے کثرت
سے درود خضری پڑھا جائے۔ درود خضری یہ ہے
صَلِّ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلیٰ حَبِیْبِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ سَلَّم
خواجہ شمس الدین عظیمی
جناب خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب نے کالم نویسی کاآغاز1969میں روزنامہ حریت سے کیا ۔پہلے طبیعیات کے اوپر مضامین شائع ہوتے رہے پھر نفسیات اور مابعد نفسیات کے مضمون زیر بحث آ گئے۔ روزنامہ حریت کے قارئین نے سائیکالوجی اور پیراسائیکالوجی کے ان مضامین کو نہ صرف پسند کیا بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے خطوط لکھنے شروع کر دیئے۔ زیادہ تر خطوط خواب سے متعلق ہوتے تھے۔ شروع کے دنوں میں ہفتہ میں تین یا چار خط موصول ہوتے تھے اور پھر یہ سلسلہ ہر ہفتہ سینکڑوں خطوط پر پھیل گیا۔ حریت کے بعد روزنامہ جسارت، روزنامہ اعلان، روزنامہ مشرق اور پھر روزنامہ جنگ میں روحانی ڈاک کے عنوان پر یہ کالم اتنا زیادہ مقبول ہوا کہ خطوط کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ جب اخبار کا دامن اتنی بڑی ڈاک کا متحمل نہ ہو سکا تو پیارے اور محترم دوستوں کے مشوروں اور تعاون سے روحانی ڈائجسٹ کا اجراء ہوا اور آج بھی روحانی ڈاک کے عنوان سے یہ کالم روحانی ڈائجسٹ میں شائع ہو رہا ہے۔
آپ نے ان اخبارات وجرائد میں عوام کے ان گنت معاشی، معاشرتی، نفسیاتی مسائل اورالجھنوں کا حل پیش کیا ہے اورمظاہرقدرت کے پیچیدہ معموں سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ہیں۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کے لائق شاگرد جناب میاں مشتاق احمد عظیمی نے روحانی ڈاک میں شائع شدہ ان خطوط کو یکجا کیا اورترتیب وتدوین کے مراحل سے گزارکر چارجلدوں پر مشتمل کتاب روحانی ڈاک کو عوام الناس کی خدمت کے لئے شائع کردیا۔