Topics
سوال : یہ
بات اکثر سننے اور پڑھنے میں آتی ہے کہ صاحب روحانیت جنات اور فرشتوں سے گفتگو
کرسکتے ہیں۔ ایسا کس طرح ممکن ہے کہ جنات اور فرشتے انسان کی مادری زبان میں بات
کریں۔ ایسا کس طرح ہوسکتاہے کہ جنات اور فرشتے بھی اردو، انگریزی، فارسی اور عربی
وغیرہ بولتے ہوں، کیونکہ یہ تو نوع انسان کی زبانیں ہیں۔
جواب :
سائنس کا عقیدہ ہے کہ زمین پر موجودہر شئے کی بنیاد یا قیام لہر یا روشنی
کے اوپر ہے ۔ جب ہر شئے شعاعوں اور لہروں کا مجموعہ ہے تو ہم شعاعوں یا لہروں کو
دیکھے یا سمجھے بغیر کیسے جان لیتے ہیں کہ یہ درخت ہے ، یہ پتھر ہے یا یہ چیز پانی
ہے ۔ ہم جب کوئی پھول دیکھتے ہیں
، ہمارے دماغ پر پھول سے متعلق خوب صورتی ، خوشبو، فرحت و انبساط کا تاثر قائم
ہوتا ہے حالانکہ ہم نے ابھی پھول کو نہ چھوا ہے نہ سونگھا ہے ۔ اسی طرح ایک ایسے
آدمی کاچہرہ ہمارے سامنے آتا ہے جو طبیعتاً ناپسند یا ہم سے مخاصمت رکھتا ہے تو
اس آدمی کے خیالات سے ہم متاثر ہوتے ہیں اور ہماری طبیعت کے اوپر اس کا ردعمل
ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی آدمی ہم سے دلی تعلق رکھتا ہے اسے دیکھ کر ہماری طبیعت
اس کے لیے محبت اور انسان شناسی کے جذبات ابھرتے ہیں۔ حالانکہ ان دونوں آدمیوں میں
سے کسی نے بھی ہمارساتھ نہ کوئی بات کی ہے اور نہ ہمیں کوئی نقصان یا نفع پہنچایا
ہے۔
دنیا
میں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن جب پانی کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہر آدمی اسے
پانی سمجھتا ہے، جس طرح ایک اردو دان پانی سمجھتا ہے اسی طرح دوسری زبانیں بولنے
والے جل، آب، ماء
واٹر وغیرہ کہتے ہیں ۔ لیکن پانی پانی ہے ۔ جب کوئی اردو دان کسی انگریز کے
سامنے لفظ درخت کہتا ہے تو اس کے ذہن میں درخت آتا ہے یہ الگ بات ہے کہ انگریز اس
کو Tree کہتا
ہے۔ دنیاکے کسی بھی خطہ میں جب ہم آگ کا تذکرہ کریں گے تو اس خطہ پر بولی جانی والی
مادری زبان کچھ بھی ہو ، لوگ اسے آگ ہی سمجھیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ کوئی چیز اپنی
ماہیت ، خواص اور اپنے افعال سے پہچانی جاتی ہے۔ نام کچھ بھی رکھا جائے ، ہر چیز
کا قیام لہر پر ہے، ایسی لہر جس کو روشنی
کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا ،
روحانیت کا اصل اصول بھی یہی ہے۔ جس طرح پانی لہروں اور روشنیوں کا مجموعہ
ہے ، اسی طرح خیالات بھی لہروں کے اوپر
رواں دواں ہیں ۔ ہم جب کسی چیز کی طرف
متوجہ ہوتے ہیں توہمارے خیالات کے اندر کام کرنے والی لہریں اس چیز کے اندر منتقل
ہوجاتی ہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے ہم جب کسی آدمی کی طرف متوجہ ہوکر یہ بتانا چاہتے
ہیں کہ ہم پیاسے ہیں تو دوسرا آدمی اس بات کو سمجھ جاتا ہے حالانکہ ہم یہ نہیں
کہتے ہمیں پانی پلاو۔
خیالات
کو سمجھنے اور معانی پہچانے کے لیے الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ لیکن اگر کائناتی
شعور کا مطالعہ کیا جائے تو یہ عقیدہ کھلتا ہے کہ الفاظ کا سہارا لینا ضروری نہیں
ہے۔ درختوں ، چوپاؤ ں ، پرندوں ، درندوں اور حشرات الارض کی زندگی ہمارے سامنے ہے،
وہ سب باتیں کرتے ہیں اور سب اپنے خیالات کو آپس میں ردوبدل کرتے ہیں، لیکن الفاظ
کا سہارا نہیں لیتے ۔ موجودہ زمانے میں
سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب یہ بات پوری طرح ثابت ہوچکی ہے کہ درخت آپس میں
باتیں کرتے ہیں، درخت موسیقی سے بھی متاثر ہوتے ہیں، اچھے لوگوں کے سائے سے درخت
خوش ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی قربت سے جن کے دماغ پیچیدہ اور تخریب پسند ہیں
درخت ناخوش ہوتے ہیں ۔اور یہ بات میں اپنے مشاہدے کی بناء پر لکھ رہا ہوں۔
بتانا
یہ مقصود ہے کہ تمام مخلوق سوچنے کی طرزمیں ایک نقطہ مشترک رکھتی ہے۔ مخلوق میں
انسان ، حیوانات، نباتات، جمادات، جنات،
فرشتے ، لاشمار کہکشانی نظام اور ان نظام ہائے میں بسنے والے انسان ، جنات اور
فرشتے بھی شامل ہے۔ کائنات کا یہ نقطہ مشترک ہمیں دوسری مخلوق کی موجودگی کا علم
دیتا ہے، انسان کا لاشعور کائنات کے دور
دراز گوشوں سے مسلسل ایک ربط رکھتا ہے ، زبان دراصل خیالات کااظہارہے ، خیالات ہی اپنے معنی اور مفہوم کے
ساتھ نوع انسانی اور دوسری تمام نوعوں میں ردوبدل ہوتے رہتے ہیں۔ الفاظ کا سہارا
دراصل شعوری کمزوری کی علامت ہے۔ اس لیے شعور الفاظ کا سہارا لیے بغیر کسی چیز کو
سمجھ نہیں پاتا۔
جب
کوئی بندہ روحانیت کے اصول و ضوابط کے تحت خیالات کی منتقلی کے علم سے وقوف حاصل
کرلیتا ہے تو اس کے لیے دونوں باتیں برابر ہوجاتی ہے ، چاہے کوئی خیال الفاظ کا
سہارا لے کر منتقل کیا جائے یا کسی خیال کو لہروں کے ذریعے منتقل کردیا جائے۔ ہر
آدمی کے اندر ایک ایسا کمپوٹر نصب ہے جو خیالات کو معنی اور مفہوم پہنا کر الگ
الگ کر دیتا ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔