Topics
سوال :
جالندھرسے پنڈت کرش کمار پاٹھک نے اپنے خط میں مجھ سے سوال دریافت کیا ہے
کہ ’’ زندگی کے مقام اور حالات کہاں چلے
جاتے ہیں؟‘‘ میں انہیں لکھ دیا ہے مجھ میں
اتنی قابلیت نہیں جو اس موضوع پر کچھ کہہ سکوں ،
البتہ قبلہ خواجہ صاحب کی خدمت میں عرض کرسکتا ہوں، جیسا جواب آئے گا
تحریر کردونگا، یہاں تھوڑا سا عرض کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ اگر اس کا جواب یہ
دیا جاے کہ ’’ وقت کی بساط پر‘‘ تو وقت خود انسانی ذہن کی پیداوار ہے۔ آپ ذرا
تفصیل سے اس پر روشنی ڈالیں اور اشاعت میں شامل فرمائیں تاکہ اور لوگ بھی مستفید
ہوسکیں۔
جواب : حیات
کیا ہے؟ بڑے بڑے مفکرین ، دانشور اور
سائنسدان جن کے سروں پر دور حاضر کے گوناگوں ترقیوں اور عروج کا تاج ہے اس سوال کا
جواب دیتے ہوئے طفل مکتب نظر آتے ہیں۔ جب ہم صحائف انبیاء اور الہامی کتابوں کا
مطالعہ کرتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں اس نقطے کی ہی مختلف طرح سے تشریحات اور وضاحت
بنیادی حیثیت میں نظر آتی ہے۔ ان لاریب کتابوں کا اصل موضوع حیات اور زندگی ہی
ہے۔ زندگی کیا ہے ؟، اس کی ابتداء اور اس کا ظہور کس طرح ہوتا ہے ؟اور یہ معدوم
ہوکر کس طرح اپنے انجام کو پہنچتی ہے؟ لیکن صد افسوس کہ مذاہب کے پیروکاروں نے ان
الہامی کتابوں کے اصل مقصد ’’روحانیت‘‘ کے
حصول کی بجائے ان کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے تاکہ عام لوگوں کاا ن
تعلیمات کی حقیقت تک پہنچنا ایک مسئلہ لاینحل بن گیا۔مثلاً مذہب کے کچھ پیروکاروں
نے پیدائش اور موت کے بعد زندگی کو آواگون کا مسئلہ بنا دیا ہے۔
کچھ
مذہبی مولویوں نے انہی الہامی کتابوں کے حوالے سے اللہ کی الرحمٰن الرحیم ذات کو
ڈر و خوف ، سزا اور عذاب کا (Symbol) یا
علامت بنا دیا ہے۔ انہی ناقص اور محدود سوچ کے حامل لوگوں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ
سے مخلوق خدا ، ایک خدا اور رسولوں کی ایک ہی تعلیمات پر جمع اور متحد ہونے کی
بجائے مختلف مذاہب ، فرقوں اور گروہوں میں بٹتی چلی گئی۔ لیکن ایک وقت ایسا ضرور
آئے گا جب اقوام عالم کسی ایک نقطے پر متحد ہونے پر مجبور ہوگی اور وہ نقطہ ’’قرآنی واحدت ‘‘ کا ہوگا۔
اب
آئیے اصل بات کی طرف آتے ہیں، بات یہا ں سے شروع ہوئی تھی کہ پیدا ہونے کے بعد
جن حالات سے زندگی گزر تی ہے وہ کہاں چلے جاتے ہیں؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ حالات
اور اعمال و حرکات وقت کی بساط پر رواں دواں ہیں تو وقت کی کیا حیثیت ہے؟۔ آسمانی
کتابوں کے نقطہ نظر سے اللہ تعالیٰ نے وقت ، حالات و زندگی کے دو رُخ متعین کئے
ہیں۔ ایک رُخ اعلیٰ اور دوسرا رُخ اسفل ہے۔ ہم جب اعلیٰ اور اسفل میں تفکر کرتے
ہیں تویہ بات منکشف ہوتی ہے کہ اعلیٰ اور اسفل دونوں رُخوں میں عمل کی حیثیت ایک
ہی ہے، صرف نیت کےکسی عمل یا کردار کو اعلیٰ اور اسفل قرار دیا جاتا ہے۔ آسمانی
کتاب قرآن مجید میں اعلیٰ اور اسفل دونوں زندگیوں کو ’’کتاب المرقوم‘‘ ، نوشتہ کتاب کہا گیا ہے۔ ترجمہ ’’آپ کیا سمجھے علین(اعلی ٰزندگی ) ،
سجین(اسفل زندگی) کیا ہے ، ایک لکھی ہوئی
کتاب‘‘۔ موجودہ دورسائنسی ایجادات کا دور ہے،
نوشتہ کتاب کو اگر سائنسی علو م کی روشنی میں ’’ٖفلم‘‘
کا نام دیں تو مسئلہ آسانی کے ساتھ سمجھ میں آجاتا ہے ، آسمانی کتابوں کے
ساتھ ساتھ جوباتیں پیغمبرو ں نے وضاحت سے بیان کی ہیں ان سے بھی مسئلہ روشن اور
واضح ہوجاتا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے
’’زمانے کو برا نہ کہو، زمانہ (وقت، حالات، زندگی) اللہ ہے‘‘۔
اب
اس مختصرتمہید کے بعد اس بات کو عام فہم زبان میں اس طرح کہا جاے گا کہ زندگی،
حیات قبل از زندگی اور بعد از موت مقام
اور حالات ’’کتاب المرقوم‘‘ نوشتہ کتاب یا ایک فلم ہے۔ بات کچھ یوں بنی کہ
کائنات میں جوکچھ ہوچکا ہے، جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب کا سب
لوح محفوظ پر نقش ہے، ان نقوش (Film) کو
جب اللہ تعالیٰ کی تجلی فیڈ کرتی ہے تو یہ نقوش مختلف اسکرین پر متحرک ہوجاتے
ہیں، غور طلب بات یہ ہے کہ لوح محفوظ پر زمان
و مکان کی کیفیت یہ نہیں جو کیفیت ہم ارض
(Earth, Screen) پر دیکھتے ہے۔ لوح محفوظ کے قانون کے مطابق لوح محفوظ سے نزول
کرنے والے نقوش لوح دوئم اور برزخ سے گزر کر عرش پر متحرک ہوجاتے ہیں۔ ارض یا زمین پر قابل تذکرہ مخلوق انسان ہے ۔
روحانی نقطہ نظر سے جب ہم انسانی تخلیق کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں تین بساط ( Screen ) نظر آتی ہے۔ پہلی بساط
پر واہمہ اور خیالات کا نزول ہوتا ہے،
دوسری بساط پر تصورات اور احساسات کے نقوش بنتے ہیں، تیسری بساط پر مظاہرات خدوخال کی شکل اختیار
کرلیتے ہیں۔ جس طرح ان نقوش کا نزول ہوتا ہے اِسی طرح یہ نقوش دوبارہ تین بساط سے
گزر کر لوح محفوظ میں چلے جاتے ہیں۔ یعنی زندگی کے مقام اور حالات ، پیدائش اور
موت سب ایک فلم (لوح محفوظ )پر ہے جو مسلسل اور متواتر چل رہی ہے۔ جن صاحب ِدل
لوگوں کو روحانی نقطہ عروج نصیب ہوجاتا ہے وہ اِس بات کو مشاہداتی طور پر دیکھ
لیتے ہیں کہ ’’اناللہ واناالیہ
راجعون‘‘ یعنی ہر چیز اللہ کی طرف سے ہے
اور اللہ کی طرف لوٹ رہی ہیں۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔