Topics
سوال : آپ
نے اپنی تحریروں میں فرمایا ہے کہ ہماری زندگی ایک اطلاع ہے، اگر اطلاع نہ ہو تو
ہماری زندگی کا وجود ختم ہوجائے گا۔ یہ بات ہمارے لیے بالکل نئی اور حیران کن ہے ،
مگر کبھی پہلے ہم نے یہ سوچا بھی نہ تھا، آپ اس امر پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالئے
کہ ہمارے ذہن میں جو اطلاع آتی ہے یا خیالات آتے ہیں یہ کہاں سے آتے ہیں ۔
ہماری فضاء یا کائنات میں ایسے کونسے پوائنٹس ہیں جہاں سے یہ خیالات آتے ہیں اور
دماغ ان کو کس طرح قبول کرتا ہے۔؟
جواب : حد
نگاہ سے زمین کی طرف آئیےتو آپ کو نیلے رنگ کی لاتعداد رنگین شعاعیں ملیں گی۔
رنگ کاجو منظر ہمیں نظر آتا ہے، اس میں روشنی ، آکسیجن گیس، نائٹروجن گیس، اور
قدرے دیگر گیسیں بھی شامل ہوتی ہیں، ان گیسوں کے علاوہ کچھ سائے بھی ہوتے ہیں، جو
ہلکے ہوتے ہیں یا دبیز ، کچھ اور اجزا بھی آسمانی رنگ میں شامل ہوجاتے ہیں۔ جس سے
فضاء میں ہمیں رنگ کا فرق نظر آتا ہے۔اس فضاء میں نگاہ اور حد نگاہ کے درمیان
باوجود مطلع صاف ہونے کے بہت کچھ موجود ہے۔ اب ہم اُن روشنیوں کا تذکرہ کرتے ہیں
جو خاص طور پر آسمانی رنگ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ روشنیوں کا سرچشمہ کیا ہے اس کا
بالکل صحیح علم انسان کو نہیں ہے۔ قوس و قزح کا جو فاصلہ بیان کیا جاتا ہے وہ زمین
سے تقریباً نو کڑور میل ہے، مطلب یہ ہے کہ ھوامیں جو بھی رنگ ہمیں اتنے قریب نظر
آتے ہیں وہ نو کڑور کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ اب یہ سمجھنا مشکل کا م ہے کہ سورج کے
اور زمین کے درمیان علاوہ کرنوں کے اورکیا کیا چیزیں موجود ہے جو فضاء میں تحلیل
ہوتی رہتی ہیں۔ جو کرنیں سورج سے ہم تک منتقل ہوتی رہتی ہیں ان کا چھوٹے سے چھوٹا
جز فوٹان کہلاتا ہے اور فوٹان کا ایک وصف یہ ہے کہ اس میں اسپیس نہیں ہوتا ہے اس لیے
جب یہ کرنوں کی شکل میں پھیلتے ہیں تو نہ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور نہ ایک دوسرے کی جگہ لیتے
ہیں باالفاظ دیگر یہ جگہ نہیں روکتے اس وقت تک جب تک دوسرے رنگ سے نہ ٹکرائیں۔
فضاء
میں جس قدر عناصر موجود ہیں ان میں سے کسی عنصر سے فوٹان کا ٹکراؤ ہی اسے اسپیس دیتا ہے۔ دراصل یہ فضاکیاہے؟ رنگوں
کی تقسیم ہے، رنگوں کی تقسیم جس طرح ہوتی ہے وہ اکیلے فوٹان کی رو سے نہیں ہوتی
بلکہ ان حلقوں سے ہوتی ہے جو خود فوٹان سے بنتے ہیں ۔ جب فوٹان کا ان حلقوں سے ٹکراؤ
ہوتا ہے تو اسپیس یا رنگ وغیرہ کئی چیزیں
بن جاتی ہیں۔
سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرنوں میں حلقے کیسے پڑے، ہمیں یہ تو علم ہے کہ ہمارے کہکشانی
نظام میں بہت سے اسٹار یعنی سورج ہیں، وہ کہیں نہ کہیں سے روشنی لاتے ہیں ان کا
درمیانی فاصلہ کم سے کم پانچ نوری سال بتایا جاتا ہے ۔ جہاں ان کی روشنیاں آپس
میں ٹکراتی ہیں وہ روشینیاں حلقے بنا دیتی ہیں ، جیسے ہماری زمین یا اور سیارے۔ اس
کا مطلب یہ ہوا کہ سورج سے یا کسی اور اسٹار سے جن کی مقدار ہمارے نظام شمسی میں
دو کھرب بتائی جاتی ہیں ، ان کی روشنیاں سنکھوں کی تعداد پر مشتمل ہیں اور جہاں ان
کا ٹکراؤ ہوتا ہے وہیں ایک حلقہ بن جاتا
ہے جسے سیارہ کہتے ہیں۔
دماغ
میں کھربوں خانے ہوتے ہیں اور ان میں سے برقی رو گزرتی رہتی ہے۔ اس برقی رو کے
ذریعہ خیالات شعور ، لاشعور اور تحت لاشعور سے گزرتے رہتے ہیں۔ دماغ کا ایک خانہ
وہ ہے جس میں برقی رو فوٹو لیتی رہتی ہیں ، یہ فوٹو بہت ہی زیادہ تاریک ہوتا ہے یا
بہت ہی چمکدار ۔ ایک دوسرا خانہ ہے جس میں کچھ اہم باتیں ہوتی ہیں لیکن اتنی اہم
نہیں ہوتی کہ سالہاسال گزرنے کے بعد بھی یاد آجائیں۔ ایک تیسرا خانہ اِس سے ذیادہ
اہم باتوں کو جذب کرلیتا ہے وہ بشرط موقع کبھی یاد آجاتی ہیں ، چوتھا خانہ
معمولات کا ہے جس کے ذریعے آدمی عمل کرتاہے لیکن ا س میں ارادہ شامل نہیں ہوتا۔
پانچواں خانہ وہ ہے جس میں گزری ہوئی باتیں اچانک یاد آجاتی ہیں۔ جن کا زندگی کے
تار پور سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایک چھٹا خانہ ایسا ہوتا ہے جس کی کوئی بات یاد
نہیں آتی اور اگر یاد آتی ہے تو فوراً اس کے ساتھ ہی عمل ہوتا ہے۔ اِس کی مثال
یہ ہے کہ کسی پرندے کا خیال آیا ، خیال آتے ہی عملاً وہ پرندہ سامنے آگیا۔
ساتویں خانے میں جس کو عام اصطلاح میں ’’حافظہ‘‘ کہتے ہیں۔
دماغ
میں مخلوط آسمانی رنگ آنے سے اور پیوست ہونے سے خیالات ، کیفیات اور محسوسات
وغیرہ بنتے رہتے ہیں۔ رفتہ رفتہ انسان ان خیالات کو ملانا سیکھ لیتا ہے۔ ان میں سے
جن خیالات کو وہ بالکل کاٹ دیتا ہے وہ حذف ہوجاتے ہیں اور جو جذب کرلیتا ہے وہ عمل
بن جاتے ہیں۔ ان رنگوں کے سائے ہلکے بھاری یعنی طرح طرح کے اپنا اثر کم و بیش پیدا
کرلیتے ہیں اور فوراً اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ دوسرے سائے ان کی جگہ لے سکیں۔
بہت سے سائے جنہوں نے جگہ چھوڑدی ہے محسوسات بن جاتے ہیں اس لیے کہ وہ گہرے ہوتے
ہیں ۔ ان ہی سایوں کے ذریعے انسان رنج و راحت حاصل کرتا ہے ۔ کبھی وہ رنجیدہ
ہوجاتا ہے کبھی خوش ہوجاتا ہے ۔ یہ سائے جس قدر جسم سے خارج ہوسکتے ہیں ، ہوجاتے
ہیں لیکن جتنے جسم کے اندر پیوست ہوجاتے ہیں وہ اعصابی نظام بن جاتے ہیں۔آدمی میں
سب سے پہلے ان سایوں کا اثر اس کا دماغ میں قبول کرتا ہے۔ دماغ کی چند حرکات معین
ہیں، جن سے وہ اعصابی نظام میں کام لیتا ہے۔ سر کا پچھلا حصہ یعنی ام الدماغ اور
حرام مغز اس اعصابی نظام میں خاص کام کرتا ہے۔ رنج و خوشی دونوں سے اعصابی نظام
متاثر ہوتا ہے۔ رنج و خوشی دراصل بجلی کی ایک رو ہے جو دماغ سے داخل ہوکر تمام
اعصاب میں سما ء جاتی ہے۔
اعصابی
نظام ہماری تمام اندرونی اور بیرونی حرکات کو کنڑول کرتا ہے ، ان میں ہم آہنگی
پیدا کرتا ہے۔ اعصابی دماغ اور حرام مغز کے علاوہ ہمارے جسم میں اعصاب کا ایک جال
بچھا ہو ا ہے۔ اعصاب کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ ان ہی کے ذریعہ جسم کے مختلف
پیغامات دماغ اور حرام مغز تک پہنچتے ہیں اور ہم جان لیتے ہیں کہ ہم کیا دیکھ رہے
ہیں ، کیا سُن رہے ہیں، اور کیا محسوس کررہے ہیں۔ اعصابی نظام کا مرکزی کردار دماغ
ہے جو کھوپڑی کے اندر بند ہے۔ اس کے تین حصے ہیں۔ دماغ کے پہلے حصہ کو سیری برم
کہتے ہیں، دماغ کا سب سے بڑا حصہ ہوتا ہے جو تقریباً 5 سینٹی میٹر گہرے شگاف سے دو نصف کرّوں میں
تقسیم ہوتا ہے۔ ان کرّوں کو ہم دائیں دماغ اور بائیں دماغ کہتے ہیں۔ دائیں دماغ
جسم کے بائیں حصہ کو کنٹرول کرتا ہے اور بایاں دماغ جسم کے دائیں حصہ کو کنٹرول
کرتا ہے۔دماغ کے اوپری سطح پر ہلکے سرمئی رنگ کے پتلے مادّے کی تہہ ہوتی ہے اور اس
کے نیچے سفید رنگ کاکوئی حصہ ہوتا ہے جس میں با یو فائبر ہوتے ہیں۔ دماغ میں سیری
برم سوچ و بچار غو ر و تفکر کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہلکے سرمئی رنگ کے پتلے مادّے کی تہہ
ہی وہ سطح ہے جہاں پر تمام پیغامات آتے ہیں اور یہیں سے مختلف پیغامات جسم کو
واپس بھیجے جاتے ہیں۔ پیغامات ہی جسم کے عضلات کو کنٹرول کرتے ہیں اس کے علاوہ
آنکھ، کان، ناک کی حسیوں کے مرکز بھی دماغ میں ہوتے ہیں۔ پچھلا دماغ دراصل سیری
برم کے پچھلے حصے میں نیچے کی طرف واقع ہوتا ہے۔ یہ بالخصوص عضلات کی حرکات کو
کنٹرول کرتاہے۔ دماغ کا میڈ ولا اوبلنگیٹا Medola Oblangata دماغ کا سب سے
نچلا حصہ ہوتاہے اور دماغ کو حرام مغز کے اوپر کے سرے سے جوڑتا ہے۔
میڈ ولا اوبلنگیٹا نفس
اور دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرتا ہے ۔ حرام مغز اعصابی پٹھوں کا مجموعہ ہے جو کہ
ایک لمبی ڈوری کی شکل میں ریڑھ کی ہڈی کے سوراخ میں واقع ہوتا ہے، یہ دماغ اور جسم
کے درمیاں ربط قائم رکھتا ہے اور جسم کو تمام پیغامات کی تقسم حرام مغز کے ذریعہ
ہوتی ہے۔ بعض حرکات جو بالکل غیر اختیاری طور پر بغیر کسی دماغی مشورہ کے عمل میں
آتی ہیں، وہ حرکات معکوسہ کہلاتی ہے اور حرکات معکوسہ بھی حرام مغز سے کنٹرول
ہوتی ہیں۔ تمام اعصابی پیغامات کا منبع ہمارا دماغ ہے۔ دماغ سے برقی رو پورے جسم
میں اعصاب کو میڈیم بناتے ہوئے دور کرتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر جسم کے اہم عضو
دل یا قلب جس پر زندگی کا انحصار ہے، دھڑکنا بند ہوجائے تو زندگی ختم ہوجائیگی۔ دل
کی دھڑکن کیلیے دل کے پٹھوں میں جو پھیلنے اور سکڑنے کا عمل واقعہ ہورہا ہے وہ بھی
برقی رو کے اوپر قائم ہے۔ دل کے وسط میں ایک اعصابی نقطہ ہوتا ہے جسے میڈیکل کی
اصطلاح میں Perike Fibres کہاجاتا
ہے ، یہ نقطہ دماغ سے برقی رو لیتا ہے اور بجلی کی لہریں ایک قاعدے ایک ترتیب کے
ساتھ دل میں پھیلادیتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے کسی مشین کو چلانے کے لیے برقی رو
ضروری ہے ، اسی طرح دل کی قدرتی مشین چلانے کے لیے برقی رو اس نقطے سے ملتی ہے۔
علی اہذالقیاس ہمارا پورا جسمانی نظام اعصاب کے تانے بانے سے مرکب ہے، جس میں برقی
رو یا الیکٹر سٹی دوڑتی رہتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ
ہمارا جسمانی نظام برقی روشنی یا اطلاع پر قائم ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔