Topics
سوال :
کیا آپ تشریح فرمانا پسند کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے مذہب اسلام کو آخری
مذہب کیو ں قرار دیا ہے؟ اسلام سے پہلے کے
مذاہب اور مذہب اسلام میں کیا فرق ہے جس کی بنیاد پر اسلام دیگر مذاہب سے ارفع اور
اعلیٰ ہے اور روحانی نقطہ نظر سے دین فطرت ہے؟
جواب : جب
علوم کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو دو علوم زیربحث آتے ہیں، ایک علم وہ جو اکتساب کے ذریعے حاصل ہوتا ہے،
اَس علم میں زیادہ تر مظاہر(ناسوتی دنیا) کا عمل ہوتا ہے اور انسانی کی آفرنیش سے
جو مفروضہ حواس ہمیں منتقل ہوتے ہیں دراصل ان کی ایک طرح کی تجدید ہوتی ہے اس لیے ابتدائے
آفرنیش سے نوع انسانی کا شعور جن طرزوں پر اب تک قائم ہے وہ طرزیں اورزیادہ
مستحکم ہوجائیں اور انسانی حواس شعور کی گرفت سے آزاد نہ ہوسکیں۔ ہم جب انسانی
شعور کا تجزیہ کرتے ہیں یا انسانی شعور کی چھان پھٹک کرتے ہیں تو ہمیں صرف ایک ہی
بات نظر آتی ہے کہ شعور کا دارو مدار مفروضہ اور فکشن Fiction
باتوں پر ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ سب
مفروضہ ہے جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ بھی مفروضہ ہے ، ہم علم اکتسابی کے لیے الف ،
ب سیکھ کر آگے بڑھتے ہیں ہمارے پاس ایسی
کوئی یقین دہانی نہیں ہے کہ ثابت کرسکیں کہ الف الف ہوتا ہے یا ب الف ہوتا ہے۔
چھوٹا بچہ ہم سے سوال کرے کہ ب الف ہے
الف ب ہے تو اِس کے سوال کا جواب نہیں دے سکتے، ہمارے بچے کے لیے لازم ہے کہ شعوری فکشن کو
بغیر سوچے سمجھے استعمال کرے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو ہرگز علم اکتسابی کا
علم حصولی یا دنیاوی علوم حاصل نہیں کرسکے گا۔
علم
کا دوسرا نام علم حضوری ہے ، علم حضوری
علم اکتسابی سے بالکل متضاد ہے، وہاں کوئی بھی بات اِس وقت تک قابل یقین قرار نہیں
پاتی جب تک اِ س بات کو مشاہداتی طور پر ثابت نہ کردیا جائے۔ یہ علم کے دو رُخ ازل
سے لے کر قیامت تک جاری و ساری رہیں گے۔ اِن علوم کی درجہ بندی کے لیے کچھ اصول
اور ضابطے متعین کئے گئے ہیں، یہ اصول اور ضابطے دراصل مذہب ہیں۔ اِن مذاہب میں
مفروضہ حواس سے متعلق گفتگو کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ مفروضہ حواس کو رد کرکے دوسرے
علم کی نشاندھی کی گئی ہے، جسے علم حضوری کہا جاتا ہے، یہی دونوں علوم جب اکھٹے
ہوتے ہیں اور ان علوم کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو عقائد کے مجموعہ کا نام مذہب ہے۔
انسانی
زندگی میں جتنے بھی اعمال و حرکات ہیں وہ سب انہی دو علوم پر مشتمل ہیں۔ جب علم
اکتسابی یا علم حصولی یا مفروضہ علم زیر بحث آتا ہے تو ہماری فکر اشیاء میں تفکر
کرتی ہے اور اشیاء میں تفکر ان عقائد سے دوچار کرتا ہے جن عقائد کو مذہبی دانشوروں
نے بدعقیدگی کہاہے۔ جب انسان فکشن حواس میں رہ کر بندگی کے اعمال کا تجربہ کرتا ہے
اور مادّی زندگی کو مقصد قرار دیتا ہے تو ان حالات میں اِ س کے اوپرعلم حضوری کا
تصور ٹوٹ جاتا ہے اور وہ عقل کی بھول بھلّیوں میں مبتلا ہوکر مظاہرہ کو سب کچھ سمجھنے لگتا ہے
اور مظاہرہ ہی میں تجربات اور محسوسات کی حدیں قائم ہوجاتی ہیں۔ اِ س کے برعکس
انسان خود کو فکشن حواس سے آزاد کرکے حقائق میں تفکر کرتا ہے تو اشیاء یا مظاہر
کے باطن میں داخل ہوجاتا ہے ۔ باطن کو مذہب نے نفس کا نام دیا ہے۔ باطن آشنا
انسان اشیاء میں غور کرنے کے ساتھ ساتھ اشیاء کی گہرائی میں جو کچھ حقائق ہیں یا
جن حقائق پر اشیاء قائم ہیں ان کے بارے میں سوچ و بچار کرتا ہے تو اس کے اوپر ایسے
امور منکشف ہوجاتے ہیں جن امور سے وہ ان طرزوں سے واقف ہوجاتا ہے جو طرزیں اسے علم
حضوری کی طرف لے جاتی ہیں، مذہب اسے علم
’’وحی‘‘ کا نام دیتا ہے۔
آسان
لفظوں میں ہم اسے یوں کہیں گے کہ دو رُخ میں سے ایک رُخ مظاہرہ میں یعنی مادّی
دنیا میں کام کرتا ہے دوسرا رُخ مظاہرہ کی گہرائی میں کام کرتا ہے، مظاہرہ کی
گہرائی میں جو رُخ کام کرتا ہے، مذہبی
نقطہ نظر سے اِس کا نام ’’وحی‘‘ ، الہام، عالم امرہے، جورُخ مادّیت میں کام کرتا
ہے اس کو عالم خلق کہتے ہیں۔ وحی ، الہام یا عالم امر کا رُخ جو کہ نفس یا باطن کا
رُخ ہے ہمیں نبوت کی راہوں پر چلا کر ہمارے اوپر حقائق منکشف کرتا ہے۔جبکہ ظاہری
رُخ یا عالم خلق ہمیں مادّیت میں قید کردیتا ہے۔
انسانی عقل کا یہ رُخ جو خلق سے وابستہ ہے ایسے مذہب کی بنیاد ڈالتا ہے، جن
مذاہب کو لادینیت یا مادّہ پرستی یا بت پرستی کہتے ہیں۔اِس لادینیت یا مادّہ پرستی
میں انسان جیسے جیسے گہرائی میں سفر کرتا ہے اسی مناسبت سے نئے نئے فلسفے وجود میں
آتے رہتے ہیں، بالآخر نئے نئے فلسفے نئے نئے مذاہب کو جنم دیتے ہیں۔ اِ ن مذاہب
کے مختلف نام ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان مذاہب کا مقصد صرف حکومت ، ریاست اور
مادّی زندگی قرار پایا جاتا ہے، ان مذاہب
میں کنفیوشی، شنٹو، اور یونانی فلسفہ کے نظام ہائے حکمت جس میں افلاطون اِ س کے
معاصرین کی تعلیمات اور کمیونزم قابل ذکر ہے۔
ان
مذاہب میں ہزاروں فنا ہوچکے اور کتنے ہی باقی ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی عقل کا وہ رُخ جو
مادّیت پر مبنی ہے متحرک رہتا ہے، دوسرا
رُخ جس کے ذریعے حقائق کا انکشاف ہوتا ہے معطل رہتا ہے ، وہ رُخ جو مادّیت سے قریب
کرتا ہے ہمارے لیے کوئی آسانی فراہم نہیں کرتا جبکہ تجرباتی زندگی میں ہمارے لیے
آسائش و آرام کے بے شمار وسائل موجود رہتے ہیں، نئے نئے تجربات اور ایجادات ہوتی
رہتی ہیں ان سب کا مقصد انسانی زندگی کو پر آسائش بنانا ہے، لیکن ان آسائشوں کے
حصول کے ہوتے ہوئے بھی ہم تجرباتی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ یہ آسائشیں الجھنوں
کے علاوہ کچھ نہیں ، جیسے جیسے ہم مادّیت
کے گورکھ دھندوں میں مبتلا ہوتے ہیں تکلیفوں کا نہ ختم ہونے والا دور مسلط ہوتا
رہتا ہے، یہ سب الجھنیں مرنے کے بعد قیامت
اور قیامت سے ابدا آلاباد تک کی تکالیف بن جاتی ہیں۔
اب
دوسرا رُخ ہمیں بتاتا ہے کہ مادّیت کا تعلق خلق سے ہے اور خلق کی بنیاد عالم امر
(یعنی ایسی دنیا یا وہ نظام جو عالم خلق یا مادّیت کو ہر لمحہ حیات نوعطا کررہا
ہے) ہے اور عالم امر میں اِس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ عالم امر کی باگ ڈور ایک
واحد ہستی کے کنٹرول میں ہے۔ وحی کے ذریعے
جو علوم نوع انسانی کو منتقل ہوئے ہیں ۔ انہیں تصّوف کی اصطلاح میں علم نفس کہا
جاتا ہے۔ یعنی اِس علم میں عالم امر کی صراحتوں کے قانون پر بحث کی جاتی ہے اور
جیسے جیسے علم نفس یا عالم امر کی بنیاد پر بحثیں سامنے آتی ہیں اسی مناسبت سے
نئے نئے مذاہب وجود میں آتے ہیں۔ بالکل ابتدائی دور میں نوع انسانی میں کتنے
افراد غیبی چیزوں کا مشاہدہ کرتے تھے اور مشاہدات کا تعلق ’’عالم امر‘‘ سے ہوتا ہے، اِس ابتدائی دور میں جب دنیا کی آبادیاں اور
ضرورتیں بہت کم تھیں ، یعنی چیزوں کا مشاہدہ کرنے والے افراد انے مشاہدات کو اپنے
قبیلے اورطرز زندگی کے محدود معانی میں سمجھتے تھے۔
اُن
کے سامنے وسیع تر دنیا اور نوع انسانی کے بہت سے طبقے کی زندگی نہیں ہوتی تھی۔ اس
لیے ان پر ’’عالم امر ‘‘ کےجو حقائق منکشف
ہوتے تھے ان کی تعبیریں بہت محدود طرز زندگی تک ہوتی تھیں۔ چنانچہ ان روحانی بزرگوں کے بعد ان کے پیروکا ر
اوھام باطلہ اور تصورات خام میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ تمام بت پرست اور مظاہر پرست
مذہبیوں کی تربیت اِسی طرح ہوئی ہے۔ یہ مقلدین جنہوں نے اس دورمیں مذہب کے خدوخال
مرتب کئے خود ’’عالم امر ‘‘ کے حقائق سے ناواقف ہوتے تھے۔ یہ لوگ جو کچھ اپنے راہنماؤ
ں سے سیکھتے تھے اِ س کو دوسروں تک پہچانے میں غلط عقائد ، جادو اور رہبانیت کی
بنیادیں قائم کردیتے تھے۔
اس
قسم کے مذاہب کی مثالیں بابل میں پیدا شدہ مذاہب ، جین مت اور آریائی مذاہب میں
ہندوویدانیت کے زیر اثر بہت سے مذاہب ہیں ، بودھ مت بھی مہاتما بدھ کے مقلدین کی
ایسی کوشش سے دوچار ہوکر رہبانیت سے روشناس ہوا،
منگولی مذاہب میں توحید کی خدوخال نہ ملنے کی یہ ہی وجہ ہے کچھ ایسے ہی
حالات سے متاثر ہوکر ’’تاو مت‘‘ کوبھی بہت سے اوہام اور جادوگری کا اسیر ہونا پڑا۔
مشرق
وسطیٰ میں تین مذاہب سامنے آتے ہیں ۔
یہودیت ، عیسائیت اور اسلام ۔ یہ
تینوں مذاہب بتدریج آتے رہے اور سمٹتے رہے ان تینوں مذاہب میں آخری مذہب اسلام
ہے۔ اسلام آخری مذہب اس لیے ہے کہ عالم امر اور عالم حضوری سے متعلق جتنی معلومات
تھیں یا دوسرے لفظوں میں عالم امر اور حضوری سے متعلق جتنی معلومات نوع انسانی کی
سکت میں سما سکتی ہیں ، اس ہستی نے جو
دروبست عالم امر و عالم خلق کا مالک ہے ایک انسان کو عطا کردی اور یہی وجہ ہے کہ
نبوت ختم ہوچکی ہے اور اسلام آخری اور مکمل مذہب ہے جو پوری کی پوری نوع انسانی
کو ہر طرح کے ماحول اور حالات میں عالم خلق اور عالم امر اور اِ س ہستی کے متعلق
جو عالمین چلا رہی ہے کامل ترین تعارف اور معلومات منکشف کرتا ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
ان
کالم میں قارئین کے جسمانی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے علاوہ بہت ہی زیادہ علمی اور
تفکر طلب سوالات بھی ہوتے تھے۔ جن میں پیراسائیکالوجی کے ٹاپک پربہت سے سولات ہیں۔
میں نے ان کالمز میں سے تقریباَ 125 سوالات جوکہ پیراسائیکالوجی اور علمی نوعیت کے
تھے کو الگ کرکے کتابی صورت دی۔ تاکہ یہ علمی ورثہ ماضی کی تہہ میں دفن نہ ہوجائے
، علم دوست لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے اور مرشد کریم کے علوم کا ذخیرہ محفوظ
ہوسکے۔