Topics

ذات کا مطالعہ


ہم جب اپنے آپ کا مطالعہ کر تے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک محدوداور فنا ہو نے والا جسم ہے اور یہی ہماری زندگی کی پہچان ہے ۔ یہ جسم جو ہمیں نظر آتا ہے اس کے اجزائے ترکیبی ، کثافت ، گندگی ، تعفن اور سڑاند ہیں ۔ اس سڑاند کی بنیاد اس نظریے پر قائم ہے کہ ہر آد می یہ سمجھتا ہے کہ میں ما دہ ہو ں اور میں اس ما دی دنیا کی پیدا ئش ہوں ۔ یہ محدود نظر یہ ہر آدمی کو کسی ایک مقام پر محدود کر دیتا ہے اور ہر آدمی ایک محدودیت کے تانے بانے میں خود کو گرفتار کر لیتا ہے۔ اور اس طرح محدود اور پا بند نظر یے کی بنیاد پڑجا تی ہے ۔ زمین پر بسنے والا ہر آدمی جب اپنا تذکرہ کر تا ہے تو کہتا ہے میں مسلمان ہوں ، میں ہندو ہوں ، میں پارسی  ہوں، میں عیسائی ہوں ، حالانکہ رُو ح   کا کو ئی نام نہیں رکھا جا سکتا ۔ رو شنی ہر جگہ رو شنی ہے چا ہے وہ عرب میں ہو ، عجم میں ہو ، یا یورپ میں ہو یا ایشیا کے کسی حصے میں ۔

 اللہ کا نظام کچھ اس طر ح قائم ہےکہ اس دنیا میں جو اللہ کا پیغام آیا وہ اپنے الفاظ کے ساتھ قائم ہے ۔ عیسائیوں کے لئے بائیبل کے الفاظ مذہب کا درجہ رکھتے ہیں اور مسلمان کے لئے قرآن مذہب کا پیش رو ہے ، ہندو بھگوت گیتا کے الفاظ کی عبا دت کر تے ہیں ۔یہ سب کتا بیں دراصل خدا کے بر گزیدہ بندوں کی وہ آوازیں ہیں جو رو شنی بن کر تمام عالم میں پھیل گئی ہیں ۔

ہم جب کائنات کی تخلیق پر غور کر تے ہیں تو ہمیں یہی پتہ چلتا ہے کہ ہماری کائنات اللہ کی آواز ہے ۔اللہ نے جب اپنی آواز میں کُن  کہا تو ساری کائنات  وجود میں آگئی ۔خدا جب اپنا تعارف کراتا ہے تو کہتا ہے کہ میں مخلوق کا دوست ہوں جس طر ح ایک باپ اپنے بیٹے کو نہیں بھولتا اس طر ح خدا بھی اپنی مخلوق کو کبھی فراموش نہیں کر تا وہ خدا جو ہمارارب ہےجوہمارے لئے ہر طر ح کے وسائل پیدا کر تا ہے اور ہمیں زندگی کے نئے نئے مراحل اور نئے نئے تجر بات سے گزارتا رہتا ہے ، بلا شک و شبہ ہمارا دوست ہے ۔

مقدس کتابوں کا مطا لعہ کر نے کے بعدجو انکشاف ہو تے ہیں، وہ یہ ہیں کہ خدا اپنی مخلوق کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا ، چا ہے ہمارے جسمانی خدو خال کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں ۔ نسلی سلسلے کی طرف جب تفکر کیا جا تا ہے تو ہم یہ دیکھتے ہیں تخلیق ایک پرو گرام کے مطابق عمل میں آرہی ہے ۔ جب ہم "زمین ماں" کے پیٹ میں کو ئی بیج ڈالتے ہیں تو وہ بیج نشوونما پا کر ایک درخت بن جا تا ہے ۔بیج جب زمین کے اندر ڈال دیا جا تا ہے تو وہ زمین سے پا نی کو جذب کر تا ہے اور پا نی بیج میں موجود ایک سوراخ (MICROPYLE)کے ذریعے بیج کے اندر پہنچ کر سوئے ہو ئے بیج (DORMANT SEED)کی نشوونما کر تا ہے ۔ بیج کی دالوں (COTYLEDONS) کے اندر ننھے ننھے پتے اور چھوٹی ڈنڈی میں خلیاتی تقسیم وقوع پذیر ہو تی ہے۔ ننھے پتے بڑھ کر تنے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں  اور ڈنڈی بڑھ کر جڑ بن جا تی ہے ۔ جڑ زمین میں داخل ہو کر نہ صرف زمین سے اس نئے پودے کے لئے پا نی اور غذا جذب کر تی ہے بلکہ اس پو دے کے لئے زمین میں مستقل ٹھہراؤ کا بھی ذریعہ بنتی ہے ۔ اس کے بر عکس تنا زمین کے مخالفت سمت اور روشنی کی جا نب بڑھنے لگتا ہے ۔ پودے کی ابتدائی عمر میں پو دے کی دالیں جو اس نومولود پو دے کے لئے غذا کو ذخیرہ کئے ہو تی ہیں ۔ پو دےکو غذا فراہم کر تی ہیں ۔ جب پو دا سورج کی روشنی میں ضیائی تالیف (PHOTOSYNTHESIS)کے ذریعے خود اپنی غذا تیار کر نے لگتا ہے تو یہ دالیں خشک ہو کر ختم ہو جا تی ہیں اور پو دا نشوونما کے بعد زمین پر ایک تنا ور درخت بن جا تا ہے۔ اس طرح ایک باپ ایک شوہر اپنی زوجہ یا اپنی کھیتی میں بیج ڈالتا ہے تو زمین کی طرح وہاں بھی نشو ونما کا سلسلہ ایک بیج کی طرح قائم ہے ۔ سب سے پہلے ابتدائی درجہ میں ایک نرم و نازک تنا وجود میں آتا ہے ۔ جو (NOTOCHORD)کہلاتا ہے۔ نشوونما کا یہ سلسلہ ارتقائی منازل طے کرکے جب تکمیل کو پہنچتا ہے بالکل اسی طرح جیسے زمین اپنے پیٹ سے کسی درخت کو باہر نکالتی ہے۔ ماں کے پیٹ سے بچہ تولد ہوتا ہے ۔ 

Topics


Qalandar Shaoor

خواجہ شمس الدین عظیمی

اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کا ئناتی پرو گرام کو شکل وصورت کے ساتھ ساتھ وجود میں لانا چاہا تو کہا ’’کُن ‘‘ تو اللہ کے ذہن میں کا ئناتی پروگرام ایک تر تیب اور تدوین کے ساتھ اس طر ح وجود میں آگیا ۔۔۔

*ایک کتاب المبین 

*ایک کتاب المبین میں تیس کرو ڑ لوح محفوظ 

*ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے

*ایک حضیرے میں ایک کھر ب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور با رہ کھر ب غیر مستقل نظام 

*ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہو تا ہے ۔ ہر سورج کے گر د نو۹ ،با رہ۱۲ ،یا تیرہ ۱۳سیارے گر دش کر تے ہیں ۔ 

یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی )میں پا ئی جا تی ہے ۔ انسانوں اور جنات کی آبا دیاں ہرحضیرے پر موجودہیں ۔ہر آبادی میں زندگی کی طرزیں اسی طرح قائم ہیں جس طرح زمین پر موجود  ہیں۔بھوک، پیاس، خواب، بیداری ،محبت ، غصہ ، جنس ، افز ائش نسل وغیرہ وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جا ری وساری ہے ۔