Topics

کینسر یا سر طان

کینسر خون کو نقصان پہنچانے  والا ایک مرض ہے۔ اس کی وجوہات میں چند وجوہ  یہ ہیں۔



                کوئی انسان جب ایک  ، دو یا چند خیالات میں خود کو گرفتار کر لیتا ہے وہ برقی رو  جو خیالات کے ذریعہ  عمل بنتی ہے، زہریلی ہو جاتی ہے۔ یہ زہریلی رو چونکہ خون کے اندر بھی زہر پیدا کردیتی ہے ، اس لئے  اس رو کے عدم توازن کی بناء پر  خون میں خوردبین سے بھی نظر نہ آنے والے وائرس (VIRUS) بن جاتے ہیں۔ یہ کیڑے  کسی ایک جگہ گھر بنا لیتے ہیں ۔ وہ برقی رو جو زندگی  کے مصرف میں آنی چاہئیے ان کیڑوں کی خوراک  بن جاتی ہے ۔ نتیجہ میں خوراک کا چھوٹے سے چھوٹا ذرہ جو برقی رو کے ساتھ خون میں دور کرتا ہے بجائے فائدہ کے نقصاں پہنچاتا ہے۔ ان کیڑوں کی خوراک خون کے وہ ذرات ہوتے ہیں جو سرخ ذرات یا RBC  کہلاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ  مریض کے اندر سرخ  ذرات  ختم  ہو کر سفید ذرات کی کثرت  ہو جا تی ہے۔ اور یہ جسم کے لئے قابل قبول نہیں رہتے۔ چنانچہ یہ سفید ذرات لعاب یا بلغم بن کر خارج ہونے لگتے ہیں اور  اتنی  مقدار  میں خارج ہوتے ہیں  کہ آدمی بالاآخر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

                کینسر کی دوسری قسم یہ بھی ہے کہ زہریلے ذرات ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں ۔ ان کے جمع ہونے سے وہ رگیں  گَل جاتی ہیں جو اس ذخیرہ کے قریب ہوتی ہیں۔ نتیجہ میں خون کے نظام میں ایک بہت بڑا خلاء واقع ہو جاتا ہے اور اس سے موت واقع ہو جاتی ہے۔

                یہ تو ہوئے کینسر کے مظہرات یا ظاہری  علامات ۔ اب سنئے کہ علم روحانی کی رو سے کینسر ایک ایسا مرض ہے جو شریف النفس اور با اختیار  ہے، سنتا ہے اور حواس رکھتا ہے ۔ اگر اس سے دوستی کر لی جائے اور کبھی کبھی  تنہائی میں بشرطیکہ مریض گہری نیند سو رہا ہو اُس کی خوشامد کی جائے اور یہ کہا جائے  میاں  کینسر  تم بہت اچھے ہو بہت مہربان ہو ، یہ آدمی بہت پریشان ہے۔ اسے معاف کردو، اللہ تمہیں اس کی جزا دے گا؟ تو کینسر مریض کو چھوڑ دیتا ہے اور دوست داری کا ثبوت دیتا ہے۔

                علاوہ ازیں سُرخ رنگ میں جو برقی  رو  دوڑتی ہے وہی کینسر کی خوراک۔ اسی لئے خون کے سرخ ذرات  کے اندر دور کرنے  والی برقی رو  کینسر کی خوراک بن جاتی ہے اور کینسر کا مریض زندگی کو قائم رکھنے والی برقی رو سےمحروم ہو کر ختم ہو جاتا ہے۔ چونکہ خون میں دور کرنے والی سُرخ رنگ کی برقی رو ہی کینسر  کی خوراک بنتی ہے اس لئے اس بات کا اہتمام کیا جائے  کہ مریض کے ماحول کو پوری طرح سرخ کردیا جائے۔ مثلاً جس کمرہ میں مریض کا قیام ہے اس کمرہ کی دیواریں ، دروازے اور کھڑکیوں کے پردے، پلنگ کی چادریں ، تکیوں کے غلاف حتیٰ کہ مریض کے پہننے کے کپڑے سب سرخ کر دیئے  چائیں، اس کے ساتھ  ساتھ کھانے کا سر خ رنگ پانی میں گھول کر روشنائی بنائیں۔ اس روشنائی سے


اکتالیس۴۱ تعویذ  لکھے جائیں۔ ایک تعویذ  مریض کے گلے میں مستقل پڑا رہنے دیں اور باقی چالیس تعویذروزانہ  ایک کے حساب سے چالیس ۴۰ روز پانی سے دھو کر پلائیں۔ 

Topics


Roohani Elaj

خواجہ شمس الدین عظیمی

اگر امراض اوران کی بیماریوں کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد سینکڑوں سے تجاوزکرجاتی ہے ۔ ان امراض کی نوعیت اوروجوھات بھی الگ الگ ہیں ۔ روحانی نظریہ علاج کے مطابق امراض کے دورخ ہیں ۔ ایک جسمانی اوردوسراذہنی یا روحانی ۔ جسمانی نظام میں کسی بے اعتدالی ، کیمیائی یا طبعی تبدیلی کا نام مرض ہے ۔

روحانی نطریہ علاج میں ہرمرض کے خدوخال ہوتے ہیں  اورہر مرض کا روحانی وجود بھی ہوتاہے ۔ یہ دونوں رخ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں ۔ موجودہ دورمیں نفسیاتی اورطبعی امراض کا جو کردارسامنے آیا ہے اس کی روشنی میں اس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے ۔ روحانی علم کا نظریہ علاج یہ ہے کہ امراض کی جسمانی وجود کے ساتھ ساتھ روحانی یا ذہنی وجود پر ضرب لگائی جائے  اورذہنی طورپر اس کی نفی کی جائے تو بہت جلد شفا حاصل  ہوجاتی ہے ۔ نا صرف جلد شفا حاصل ہوجاتی ہے بلکہ پیچیدہ ولاعلاج امراض سے نجات بھی ممکن ہے ۔ اس کتاب میں شک اوربے یقینی کے طوفان سے پیداہونے والی تقریبا دوسو 200 بیماریوں اورمسائل کو یکجا کرکے تعویذات اوروظائف کے ذریعہ ان کا حل پیش کیا گیا ہے ۔