Topics
روحانی ڈاک میں عطاء اللہ صاحب کے تجربات
ومشاہدات پڑھے۔ انہوں نے مختلف واقعات بیان کئے ہیں جس کے مطابق وہ محسوس
کرتے ہیں کہ سامنے ہونے والے واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں اور واقعات کی تفصیل ان
کی نگاہوں کے سامنے آجاتی ہے۔ بالکل یہی کیفیت میرے ساتھ بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ
جب میں آنکھیں بند کرتا ہوں یا سونے کے لئے لیٹتا ہوں تو بند آنکھوں کے سامنے
روشنی کے دو نقطے دو ستاروں کی طرح نظر آتے ہیں، کبھی یہ دیکھتا ہوں کہ روشنی کے
بادل گردش کر رہے ہیں۔ میں تصور کی طاقت سے ان بادلوں کو حرکت دے کر کوئی شکل یا
تصویر بنانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کامیابی نہیں ہوتی۔ اس وقت خاص طور پر اور
عموماً اعصاب کے اوپر دباؤ رہتا ہے اور آنکھ کے ڈیلے وزن محسوس کرتے ہیں۔
آپ نے ان
تجربات و کیفیات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ہم اس صلاحیت کو ترقی دے کر ماضی
اور حال کے واقعات سے واقف ہو سکتے ہیں۔ تمام واقعات کو آپ نے ایک ریکارڈ سے
تشبیہہ دی تھی۔ اس سلسلے میں چند وضاحتیں درکار ہیں۔
۱۔ کیا روحانی طاقت سے یا دعا سے اس ریکارڈ
میں تبدیلی کی جا سکتی ہے؟
۲۔ کیا انسان کوشش سے اس ریکارڈ کو بدل سکتا
ہے؟
اپنی
کیفیات کے سلسلے میں بھی راہنمائی کا طالب ہوں۔
اعصاب
اور آنکھوں پر بوجھ کیوں پڑتا ہے؟۔۔۔
نیز
جو روشنی نظر آتی ہے وہ کسی نقصان کا پیش خیمہ تو نہیں؟۔۔۔
اگر
میں روحانی طاقت کو بڑھانا چاہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیئے؟۔۔۔۔
آصف
ہاشمی
جواب: میرے مرشد
کریم ابدال حق قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے کشف و شہود کے میکانزم پر جو
کچھ لکھوایا اس میں سے ایک پیرا گراف درج کیا جا رہا ہے اس پیرا گراف میں آپ کو
بیشتر سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ بابا صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
کبھی
کبھی کیمیاوی اور روحانی روشنیوں کی خاص تحریکات کی وجہ سے انسان کی سماعت ورائے
صوت آوازوں کو سننا شروع کر دیتی ہے اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی آوازیں سننے
لگتی ہے۔ طبیعت میں لاشعوری طور پر ان آوازوں سے Sensation پیدا ہو جاتا ہے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جس Sensation کا انسان عادی نہیں ہوتا وہ اعصاب پر اثر انداز
ہوتا ہے۔ اکثر چندے رہتا ہے پھر زائل ہو
جاتا ہے۔ کئی مرتبہ مرتبہ ایسا ہونے کے بعد طبیعت اس کی عادی ہو جاتی ہے۔نیز ورائے
صوت آواز سنتے سنتے طبیعت دیکھنے بھی لگتی ہے اور وہ منظر سامنے بھی آجاتا ہے ، اس
ہی حالت کا نام شہود ہے۔ جب ان چیزوں پر عبور حاصل ہو جاتا ہے تو ارادے کے ساتھ
عمل ہونے لگتا ہے یعنی جس طرف توجہ مبذول ہو جاتی ہے اس سمت مستقبل کے مشاہدات
آوازوں اور نگاہ کے ذریعے ذہن میں داخل ہونے لگتے ہیں، یہی کشف ہے۔ پھر ذات یا
طبیعت جس چیز کو ناپسند کرتی ہے اس کو اپنی گرفت میں لے کر بدل ڈالتی ہے اور آنے والے مظاہرمیں اسی قسم کی
تبدیلیاں رونما ہو جاتی ہیں۔ ذات اس لئے ردو بدل کر سکتی ہے کہ وسیع تر دائرے میں عمل کرتی ہے اسی دائرے
میں جس میں قدرت عمل کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” میں نے انسان میں اپنی روح
پھونکی“ وہ اس ہی صلاحیت کی طرف اشارہ ہے۔
ذات کی
مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، فکر انسانی ایک ہستی ہے جو ایک طرح کا ارادہ ہے
اور اس ارادے کے تحت کائنات چل رہی ہے ۔ ارادہ کا یہ وصف کبھی فنا نہیں ہو سکتا
اگر خدا نخواستہ کسی وقت ارادے کا یہ وصف
کمزور پڑ جاتا تو کائنات تحلیل ہو جاتی۔
کائنات
تو صرف طبعی دنیا کا نام ہے جس کے پاس ارادے سے ملتی جلتی کوئی چیز کبھی موجود
نہیں تھی۔ کلیاتی معانی میں یہ ارادہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہے جس کو قرآن میں امر
رب کہا گیا ہے، فکر انسانی ہی ارادے سے ماخوذ ہے۔ کسی آنکھ نے فکر انسانی کو فنا
ہوتے نہیں دیکھا البتہ مشاہدات اور تجربات کی طبعی دنیا کو فنا ہوتے دیکھا ہے۔ اس
طرح ایجنسیاں الگ الگ ہیں فکر انسانی اور طبعی دنیا فکر انسانی دائم اور قائم
ایجنسی ہے جس کو مذہب کی زبان میں روح کہا گیا ہے۔ اس کے برخلاف طبعی دنیا قائم و
دائم نہیں ہے وہ فنا پذیر ہے۔
جہاں تک
دعا کا تعلق ہے تو وہ بندے اور رب کے درمیان براہ راست رابطہ ہے جس میں بندہ براہ
راست اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہیں وہ جس طرح
چاہیں اور جب چاہیں کسی چیز تبدیلی کر سکتے ہیں۔
ہر
انسان کے اندر تخلیقی وصف کے طور پر
روشنیوں کا ذخیرہ
موجود
ہے۔ اسی روشنی سے انسان کا تعلق غیب کی دنیا سے
قائم
ہے اور اسی کے ذریعے غیبی مشاہدات عمل میں آتے
ہیں۔
مختلف
وجوہ کی بناء پر روشنی کا ذخیرہ کم ہو جاتا ہے اور اسی مناسبت سے انسان کا تعلق
غیب کی دنیا سے کم ہو جاتا ہے۔ اگر روشنی کے اس ذخیرے میں اضافہ ہو جائے تو یہ روشنی
روحانی دنیا کےمشاہدات کا ذریعہ بن جاتی
ہے۔ جب کسی شخص کے اندر اس ذخیرہ میں اضافہ ہوتا ہے تو اعصاب ہر دباؤ کی کیفیت
محسوس ہوتی ہے۔ جب اعصاب اس روشنی کے عادی ہو جاتے ہیں تو معمول کے مطابق عمل کرنے
لگتے ہیں۔
روح
کی روشنی کو بڑھانے کا آسان طریقہ مراقبہ ہے۔ مراقبہ
کی
مسلسل مشق سے روشنی کے ذخیرے میں بتدریج اضافہ
ہوتا
ہے اور بالآخر روحانی دنیا سامنے آنے لگتی ہے۔
فی الوقت
آپ مراقبہ نہ کریں بلکہ صبح شام ایک ایک چمچہ شہد استعمال کریں۔ ایک ماہ بعد اپنی
کیفیات سے مطلع کریں۔ کیفیات کا روحانی تجزیہ کرنے کے بعد مشورہ دیا جائے گا۔ خط
کے لفافہ پر واضح حروف میں ” مراقبہ“ ضرور لکھیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔