Topics
ماہ مئی ۹۶ ء روحانی
ڈائجسٹ میں آپ نے صدائے جرس میں قوانین فطرت سے متعلق بہت سی باتیں تحریر کی ہیں۔
آپ نے لکھا ہے کہ حضور قلندر بابا اولیا ء رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بار دورانِ
گفتگو فرمایا تھا کہ
ریگستان میں اگر بیشمار بانس کھڑے کر
دیئے جائیں اور ان بانسوں کو مختلف
رنگوں سے رنگ دیا جائے تو ریگستان میں
بارش برسنے لگے گی اور ان رنگین
بانسوں کی وجہ سے ریگستان جنگل میں
تبدیل ہو جائے گا۔
آپ سے گزارش ہے اس بات کی روحانی
توجیہ فرما دیں تاکہ قارئین روحانی ڈائجسٹ
کے علم میں اضافہ ہو۔
محمد اطہر خان
(لاندڈھی، کراچی)
جواب: جب ہم درخت کے اندر دور کرنے والی زندگی اور
زندگی کے عوامل کا تجزیہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ درخت کے اندر رنگ بھرے ہوئے
ہیں مثلاً درخت کے تنے کا رنگ ، تنے کے اندر پرت در پرت گودے کا رنگ، جڑوں کا رنگ
، شاخوں کا رنگ، شاخوں کے اندر نالیوں کا رنگ، پتوں کا رنگ پتوں کے اندر رگوں کا رنگ درخت پر لگنے
والوں پھلوں کا رنگ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
مثال: آپ نارنگی کے
درخت کے سامنے کھڑے ہو جائیں غور سے دیکھیں گے تو آپ کو بے شمار رنگ نظر آئیں
گے اس درخت میں کچی اور پکی نارنگی لگی
ہوئی ہے پکی نارنگی توڑ لیجیئے۔۔۔ اوپر کی کھال یا جس غلاف میں نارنگی بند ہے اس
کا رنگ نارنجی ہے۔ غلاف کا اندرونی پرت سفید ہے نارنگی کی قاشوں کا رنگ زرد ہے۔
بیج کا رنگ ہلکا سفید سبز مائل ہے اور بیج کے اندر کا رنگ گہرا سبز ہے۔
نارنگی کا رنگ گہرا زرد ہے ، اس کا
مطلب یہ ہوا درخت رنگوں کی متعین مقداروں کا نام ہے۔ رنگوں کو متوازن رکھنے میں
پانی اہم کردار ادا کرتا ہے درخت اپنی ضرورت کے مطابق پانی زمین میں سے جذب کر
لیتے ہیں زمین بھی رنگوں کا مجموعہ ہے۔ زمین کی زرخیزی کا دارو مدار پانی پر ہوتا
ہے پانی کا بھی ایک رنگ ہے۔
اور
مینہ میں جس کو خدا آسمان سے برساتا ہے اور اس سے زمین کو
مرنے
کے بعد زندہ (یعنی خشک ہوئے پیچھے سر سبز) کر دیتا ہے۔
(سورۃ البقرہ)
اور
اسی نے اتارا آسمان سے پانی پھر نکالی ہم نے اس سے اگنے والی
ہر چیز پھر اس میں سے نکالا
سبزہ جس سے نکلتے ہیں دانے جڑے
ہوئے۔
( سورۃ الانعام )
اور یہ جو بہت سی رنگ برنگ کی
چیزیں اس نے تمہارے لئے زمین
میں
پیدا کر رکھی ہیں ان میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ
بوجھ
سے کام لیتے ہیں۔
(سورۃ النحل)
زندگی
کے لئے وسائل زیرِ بحث آتے ہیں تو وسائل میں بھی رنگوں کی کارفرمائی ہے
ہمارا مشاہدہ ہے کہ جہاں درخت زیادہ ہوتے ہیں وہاں بارش زیادہ ہوتی ہے اور
جہاں درخت نہیں ہوتے وہاں بارش نہیں برستی یا کم برستی ہے۔ رنگوں کا تذکرہ کئے
بغیر ہم درخت کو درخت نہیں کہہ سکتے۔
مفہوم یہ نکلا کہ۔۔۔
جس
سر زمین پر درخت ، پھول، پودے زیادہ ہوتے ہیں وہاں دراصل رنگ
زیادہ
ہوتے ہیں اور قائم رہنے کے لئے رنگوں کی طلب پانی ہے۔
جب درخت پھول، پودے ان گنت رنگ جب
یکجا ہو جاتے ہیں تو قانون قدرت کے مطابق وہاں بارش برستی ہے ہزاروں لاکھوں بانسوں
پر جب مختلف رنگ کر کے ریگستان یا بنجر زمین پر کھڑا کر دیا جاتا ہے تو۔۔۔ رنگوں
کی کشش بادلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور نتیجہ میں مصنوعی رنگین جنگل یا
ریگستان جل تھل ہو جاتا ہے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔