Topics
گزشتہ ماہ ایک دوست نے روحانی ڈائجسٹ مطالعہ کے لئے دیا۔
روحانی ڈائجسٹ میں موجود ماورائی دنیا کا کالم پڑھ کر شدید حیرت ہوئی۔ مراقبہ میں
لوگ جنت، جہنم، آسمانوں، دریاؤں اور زمین کی گہرائیوں کی سیر کرنے کا دعویٰ کرتے
ہیں۔ خیال اور تصور میں وہ سبزہ، میدان، روشنی کے جھماکے ، دریا، سمندر ، بلند و
بالا پہاڑ دیکھتے اور آسمان پر اُڑتے، آبی مخلوقات سب ہی سے ملتے ہیں اور ان کو
دیکھتے ہیں۔مجھے ایسا لگتا ہے ان لوگوں کو خیال اور تصور کی گرافک کمپوزیشن بنانے
کو دے دی گئی ہے جس طرح کمپیوٹر میں آدمی جو سوچ
سکتا ہے وہ گرافک سافٹ ویئر کے ذریعے بنا لیتا ہے۔ اسی طرح مراقبہ میں اسے
خاص خیال اپنے اوپر طاری کرنے کو کہا جاتا ہے اور وہ اس خیال کی دنیا میں پہنچ
جاتا ہے۔
میں اپ سے پوچھتا ہوں کیا یہی قلندر شعور ٹیکنالوجی اور روحانیت ہے؟۔۔۔۔ کیا
اس خیال و تصور سے کوئی انجینئر یا سرجن بن سکتا ہے؟ کیا ایسے لوگوں نے کوئی ایٹمی
تجربہ گاہ یا درس گاہ بنائی جس سے مسلمانوں میں پھر سے جابر بن حیان، ابن الہیثم،
زکریا الرازی، بو علی سینا اور دوسرے پائے کے سائنس دان بن سکیں۔۔۔ جن سے انسان
خود بھی فائدہ حاصل کرے اور دوسری مخلوق بھی فائدہ اٹھائے۔
ایڈیسن
مارکونی، آئن سٹائن ، رائٹ برادران اور کمپیوٹر کے خالق ایپل برادرز کی طرح کوئی
کارنامہ دکھانے والا پیدا ہو۔۔۔ بغیر مشقت کے صرف خواب وخیال سے کون سی ترقی ہو
سکتی ہے۔۔۔ اگر آپ کے پاس ایک بھی مثال ہو تو برائے مہربانی ضرور بتایئے تاکہ میرے
علم میں اضافہ ہو۔
عبداللہ
اُمی
(کراچی)
جواب: جہاں تک قوت
متخلیہ کا تعلق ہے خیال کی قوت سے کسی چیز کو باہر نہیں کہا جا سکتا۔
زندگی کے
سارے اعمال و اشغال خیال ہی کے اوپر قائم
ہے۔ دانشور یہ تو کہتے ہیں کہ روحانیت خواب و خیال کا مرکب ہے لیکن وہ یہ نہیں
بتاتے کہ قوت ِ خیال آخر کیا ہے۔۔۔ جتنی بھی ترقیاں سامنے آ چکی ہیں اور جتنی بھی ہمارے سامنے آئیں
گی ان سب میں اگر ربط قائم کیا جائے تو ایک ہی بات کہی جائے گی کہ یہ سب قوت خیال
ہے مگر کیسے۔۔۔؟
سائنسدان
کے دماغ میں یہ خیال وارد ہوا کہ ایسا
ہتھیار ایجاد کرنا چاہیے جس سے بیک وقت لاکھوں جانیں موت کے گھاٹ اتر جائیں۔ نسل
در نسل یہ خیال آگے منتقل ہوا تو ہولناک ہتھیار بننے لگے جس کی جدید شکلیں ایٹم بم، نائٹروجن بم ، ہائٹروجن بم، کو
بالٹ بم اور جراثیمی ہتھیار ہیں۔ دوسرے سائندان کے دماغ میں یہ خیال وارد ہوا کہ
کوئی ایسا آلہ ایجاد کر لے کہ جو آوازوں کو پکڑ سکے۔ تیسرے سائنسدان کے دماغ میں
یہ خیال وارد ہوا کہ ایسی اسکرین بنانی چاہیئے جس پر تصویر دنیا کے ایک کونے سے
دوسرے کونے پر منعکس ہو جائے۔
یہ سب
ایجادات کسی ایک بندے کے ذہن سے شروع ہوئی
اس خیال پر ذہنی استعداد کو مسلسل اور
متواتر مرکوز کیا تو نئی نئی ایجادات وجود میں آتی رہیں ۔ سوال یہ کہ کسی سائنس
دان کی تحقیق و تلاش کے نتیجے میں کوئی
ایجاد کس طرح وجود میں آتی ہے۔ پہلے موجد کے ذہن میں کسی ایجاد کے متعلق کوئی
خیال آتا ہے اور اس کا ذہن اس خیال میں
مرکوز ہو جاتا ہے ۔ جوں جوں ذہن خیال کی گہرائی میں سفر کرتا ہے اسی مناسبت سے
خیال میں وسعت پیدا ہوتی رہتی ہے اور خیال کے اندر نقش و نگار کی داغ بیل پڑ جاتی
ہے۔ نتیجہ میں وہ چیز مظہر بن کر سامنے آجاتی ہے۔ مثلاً انسان کے زہن میں پرندے کو
اڑتا دیکھ کر یہ خیال آیا کہ اسے بھی فضا میں پرواز کرنا چاہیئے۔ فضا میں پرواز کا
تجسس برابر اس کی راہنمائی کرتا رہا۔ ایک نسل ختم ہوئی تو اس نے اپنا شعوری ورثہ
دوسری نسل کو منتقل کر دیا۔
آدمی
نے پہلے پرندے کے پر جوڑ کر بازو پر
باندھے اور اڑنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ رفتہ رفتہ پرواز کے قوانین
ذہن میں منکشف ہو نے لگے۔ ہوا کا دباؤ اور حرکات کا علم اس پر ظاہر ہوگیا اور وہ
ایسی مشین بنانے میں کامیاب ہو گیا جو فضا میں پرواز کرتی ہے ۔ علیٰ ہذا القیاس
دنیا
کے تمام علوم و ایجادات کا ایک قانون ہے ۔ وہ یہ کہ
جب
ذہن تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کسی ایک بات کی
طرف
متوجہ ہو جائے تو اس کی تفصیلات ذہن پر منکشف
ہونے
لگتی ہیں۔
الہامی
کتابیں بتاتی ہیں کہ خیالات کا ایک منبع ہے۔ ذہن کی گہرائی میں موجود نقطہ ذات ،
منبع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سورس سے لا شمار اطلاعات( خیالات) ہر لمحہ اور ہر آن
نشر ہوتی رہتی ہیں لیکن شعوری ریسیور تک پہنچنے والی اطلاعات نہ صرف بہت کم ہوتی
رہتی ہیں بلکہ ان میں محدودیت داخل ہو جاتی ہے۔ یہی اطلاعات اس کا علم و حافظہ بن
جاتی ہیں اور انہی کو ہم شعور کہتے ہیں۔
زیادہ
اور وسیع اطلاعات کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے
اندر
ذہنی یکسوئی کا ہونا ضروری ہے۔ جب ہماری فکر یکسوئی
کے
ساتھ اپنے نقطہ ذات یا منبع اطلاعات کی طرف صعود
کرتی
ہے تو درجہ بدرجہ اسے ایسی اطلاعات کا مشاہدہ ہوتا
ہے
جو عام طور پر حواس کی گرفت میں نہیں آتیں۔
نشر ہونے
والی اطلاعات کی آخری محدودیت ہی دراصل شعور ہے۔ زیادہ اور وسیع اطلاعات حاصل کرنے
کے لئے لاشعور کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
طبعی یا
سائنسی علوم میں کوئی فارمولا یا ایجاد انکشاف ( ایک نئی اطلاع) ہوتی ہے۔ سائنسدان
یا موجد جب تک لاشعور میں داخل نہ ہو اسے کوئی
نئی بات معلوم نہیں ہوتی۔ وہ دنوں، مہینوں، سالوں کسی ایک نکتے پر غور کرتا
ہے۔ یہ غور و فکر اسے شعور کے پس پردہ لاشعور میں دھکیل دیتا ہے جس کے نتیجے میں
کوئی ایجاد مظہر بن جاتی ہے۔ یہ تو تھی
سائنسدانوں کی بات۔ ہماری عام زندگی کی بے شمار مثالیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں
کہ ہمارا ہر عمل خیال پر قائم ہے۔
جب کوئی
شخص مضمون لکھنے بیٹھتا ہے تو مضمون کا خاکہ اور اس کی تمام تفصیلات پہلے اس کے
زہن میں مرتب ہو جاتی ہے اور پھر مضمون نگار قلم کے ذریعے تمام تفصیلات کاغذ پر
رقم کر دیتا ہے۔ اس تفصیل کو مضمون ، کہانی یا افسانہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ آپ ذرا
غور کیجئے! آپ یہ خط تحریر کرنے کب بیٹھے۔ سب سے پہلے آپ کے ذہن میں خط تحریر کرنے
کا خیال آیا۔ پھر آپ نے خط کے تمام مندرجات کی ترتیب بنائی۔ پھر آپ نے اپنا یہ خیال کاغذ پر منتقل کر دیا۔
ہم جسے
مادی زندگی کہتے ہیں۔ یہ زندگی جتنے بھی جسمانی اعمال و وظائف سے مرکب ہے اس کی
بنیاد بھی خیال ہے۔ مثلاً ہمیں بھوک لگتی ہے تو ہم کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ غور کیجیئے جب ہمیں
پیاس لگتی ہے تو پہلے پیاس کا تقاضہ ذہن میں
پیدا ہوتا ہے۔ تقاضہ کیا ہے؟۔۔۔خیال ہے۔ جب ہمیں یہ خیال موصول ہوتا ہے تو
ہم پانی پینے کا ارداہ کرتے ہیں۔ ذہن میں خیال آتا ہے کہ جسمانی انرجی حاصل کرنے
کے لئے روٹی کھانے کی ضرورت ہے۔ اس خیال کی تکمیل کے لئے گندم بوتے ہیں۔ طویل عرصہ
اسے پانی دیتے ہیں ۔ کاٹ کر بالیوں سے علیحدہ کرتے ہیں پھر انہیں کھاتے ہیں۔ اگر
کھانے کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا تو یہ سارے کام کس طرح ہوتے ہیں۔ ہماری پوری
زندگی اور زندگی سے تعلق رکھنے والا ہر کام خیال کے اوپر قائم ہے۔
جب شعوری
زندگی کا ہر عمل قوت ِ خیال پر مبنی ہے تو پھر یہ کہہ دینا کہ روحانیت قوت متخیلہ
ہے۔ ہمارے خیال میں بڑی کم عقلی ہے۔
روحانیت
میں خیال ایسی اطلاع کو کہا جاتا ہے جو مسلسل اور
متواتر
کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے۔
جب کوئی
خیال کسی ایک نقطہ پر مرکوز ہو جائے تو بالآخر وہ چیز مظہر بن جاتی ہے۔ زندگی پر
غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہمارے ذہن کا ایک رخ مادی زندگی میں
حرکت کرتا ہے۔۔۔ اور دوسرا رخ زندگی کی اطلاعات کا سورس ہے جس میں زندگی کی تمام
اطلاعات اور حرکات محفوظ ہیں۔ ہماری شعوری زندگی اسی حصے کے تابع ہے۔
قانون: صفات دراصل آدمی کے اندر اطلاعات کا ذخیرہ ہیں
ان اطلاعات میں سے چند یا پوری اطلاعات کو جب انسان اپنے خیال کی طاقت سے ایک نقطہ
پر مرکوز کر دیتا ہے تو خیال کے اندر لامتناہی اطلاعات میں ابال آجاتا ہے اور
آنکھوں کے سامنے مظاہر آنے لگتے ہیں۔
اس
ہی بات کو روحانی استاد خیالات کو ایک نقطہ پر مرکوز ہونا کہتے ہیں اور انر میں
کھوج لگانے والے دانشور ” مراقبہ“ کہتے ہیں۔
انسان کے
ذہن میں خیالات اور تصورات کا ایک سلسلہ قائم رہتا ہے۔ تفکر کیا جائے تو معلوم
ہوتا ہے کہ زندگی کی تمام جبلی حرکات اور رنگینیاں انہی خیالات و تصورات سے وابستہ
ہیں۔ تمام جبلی و فطری تقاضے بھی خیالات سے جنم لیتے ہیں۔ نہ صرف افعال زندگی بلکہ
علوم فنون بھی انسانی تصورات سے شروع ہوتے ہیں۔ انہی صلاحیتوں کو استعمال کرتے
ہوئے جب کوئی سائنسدان یا مفکر مسلسل کسی ایک نقطہ پر غور کرتا ہے تو ایجاد یا
دریافت عمل میں آتی ہے۔ روحانیت ان صفات کے تفصیلی اور عمیق مطالعہ کا نام ہے۔
روحانیت اپنی ذات وصفات کی تلاش ، کائنات میں غور و فکر اور اس کے پس پردہ حقائق
کو کھوجنے کا ذریعہ ہے۔
یہ ہرگز
نہیں کہا جا سکتا کہ اہل روحانیت نے ایجادات یا دریافتیں نہیں کیں۔ ہمارے روحانی
اسلاف نے بارہا ایسے انکشافات کیے جو زبردست سائنسی انقلاب کی بنیاد بنے۔
حضرت
امام جعفرصادق نے فرمایا” روشنی ، چیز کی طرف سے انسانی آنکھوں میں آتی ہے۔ وہ
روشنی جو اشیاء سے ہماری آنکھوں میں آتی ہے اس کا صرف کچھ حصہ ہماری آنکھوں میں
چمک پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے ہم دور کی اشیاء کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتے“۔ اس
سے قبل لوگ یونانی مفروضہ پر یقین رکھتے تھے جس کے مطابق روشنی آنکھ سے دیکھی گئی
چیز ( مہیج) پر پڑتی ہے اسی وجہ سے وہ شے دکھائی دیتی ہے۔ مشہور مسلمان سائنسدان
ابن الہیشم نے امام صاحب کے اس نظریہ کو
سائنسی طور پر اپنی کتاب ” الچشم“ میں ثابت کیا
اور آج ابن الہیشم ہی کو اس نظریہ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
امام
جعفر صادق اگلی تھیوری میں فرماتے ہیں” اگر وہ تمام روشنی جو ایک دور کی چیز سے
ہماری آنکھوں کی طرف آئے اور پتلی تک پہنچ جائے تو ہم دور کی چیز کو نزدیک سے دیکھ
لیں گے اور اگر کوئی ایسا آلہ بنا لیا جائے جو ایک چیز سے خارج ہونے والی تمام
روشنی کو آنکھوں کی پتلی تک پہنچا سکے تو ہم نہایت دور سے بھی اس چیز کو باآسانی
دیکھ سکیں گے۔“ اس تھیوری میں دور بین اور نظر کے لینز کا باقاعدہ اشارہ موجود ہے
۔ صلیبی جنگوں میں مشرق و یورپ میں رابطہ بڑھا تو یہ تھیوری یورپ میں منتقل ہو گئی
اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے لگی۔ بعد میں ویسل (جرمنی) کے شہری ہنس
لیپرشی(Hans
Lipperhey) نے اس تھیوری کی بنیاد پر دنیا کی سب سے
پہلی دور بین ایجاد کی۔ پھر اسی دور بین کو دیکھتے ہوئے گلیلیوں نے فلکی دور بین
ایجاد کی۔
آپ نے جن
مسلمان سائنسدانوں کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے کئی روحانیت پر یقین رکھتے تھے۔
مثلاً
جابر بن حیان کئی سال تک امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر باش رہے۔ جابر بن حیان
کو علم کیمیا میں خاص ادراک حاصل تھا۔ جابر نے اپنے استاد گرامی حضرت جعفر صادق سے
سوال کیا۔۔۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ کوئی چیز حرکت سے خالی نہیں۔ آپ نے فرمایا،
ہاں۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ جابر نے
پوچھا ، کیا آواز حرکت کرتی ہے؟۔۔۔ جعفر صادق نے جواب دیا” ہاں۔۔۔ اے جابر! آواز
متحرک ہے لیکن اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے سست ہے۔ تم مشاہدہ کرتے ہو کہ لوہا
کی دکان میں ایک شخص لوہے کے ہتھوڑے کو اوزار پر مارتا ہے تو اس کی آواز تھوڑی دیر
بعد کانوں تک پہنچتی ہے۔“ ہم جانتے ہیں کہ اس تھیوری کو آج سائنسی لحاظ سے تسلیم
کیا جا چکا ہے۔
بو علی
سینا روحانیت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں ، انسانی روح کے لئے ضروری
ہے کہ وہ سرابوں کی دنیا چھوڑ کر فرشتوں کی اس دنیا کی طرف لوٹ جائے جہاں سے وہ
آئی ہے چونکہ دانش ہی اصول کائنات ہے لہذا روح دانش کے ہمراہ رشتہ استوار کر کے
عالم کائنات کے حصول میں کامیاب ہوتی ہے۔ ایک اور جگہ تحریر کرتے ہیں، وہ شخص دنیا
کے مال و اسباب اور ناز و نعم سے روگردانی کرے اس کو زاہد کہا جاتا ہے۔ جو شخص
پابندی سے نماز، روزہ جیسی عبادات بجا لائے وہ عابد کہلاتا ہے اور جو شخص اپنے
خیالات کو غیر اللہ کی طرف متوجہ ہونے سے باز رکھے اور اپنی توجہ عالم قدس کی طرف
مرکوز کر دے تا کہ اس کی روح نور الٰہی کی ضیاء پاشیوں سے منور ہو سکے اسے عارف
کہا جاتا ہے۔ بسا اوقات ان میں سے دو یا تینوں خصلتیں ایک ہی شخص میں جمع ہو سکتی
ہیں۔
آپ کے
بیان کردہ تیسرے سائنسدان و مفکر زکریا الرازی ہیں۔ الرازی کی روحانیت سے دلچسپی
کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ انہوں نے اپنی ایک تصنیف کا نام ” کتاب روحانیت“
رکھا۔ یاد رہے یہ محض مختصر مثالیں ہیں۔
موجودہ
سائنس تلاش اور جستجو کے راستے پر چل کر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پوری کائنات ایک
ہی قوت کا مظاہرہ ہے یہ انکشاف نیا نہیں ہے۔ ہمارے اسلاف میں کتنے ہی لوگ اس بات
کو بیان کر چکے ہیں کہ آدمی کی تصویر مختلف انواع و خیالات کے رنگوں سے مرکب ہے۔
خیال ہمیں مسرت آگیں زندگی سے ہمکنار کرتا ہے اور یہی خیال ہمیں غمناک زندگی سے
آشنا کر دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس ترقی کے عروج پر پہنچ گئی ہے لیکن آج کے
سائنس دان وہی کہہ رہے ہیں جو ہزاروں سال پہلے روحانیت کے علم برادر کہہ چکے ہیں
اور جس کا پرچار آج بھی ان کے پیروکار حضرات کا مشن ہے کہ زندگی کا قیام مادہ پر
نہیں لہروں پر ہے اور لہریں خیالات کا جامعہ پہن کر شے کا وجود بن رہی ہیں۔
یہ بات
ہرگز درست تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ روحانیت کے ذریعے مادی زندگی میں تبدیلی نہیں
آتی ہے۔ جب ترقی یافتہ قومیں ہمارے روحانی اسلاف کی تھیوریز کو بنیاد بنا کر معزز
اور معتبر بن سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں بن سکتے۔ ہمارے اکاؤنٹ میں ایک کروڑ روپے
رکھے ہوں اور ہم جھونپڑے میں روکھی سوکھی کھائیں تو اسے بدنصیبی کے سوا کیا کہا جا
سکتا ہے۔ ہمارے پاس علم کے خزانے ہیں مگرہم پھر بھی تہی دست ہیں۔ اگر ہم بحیثیت مسلمان پستی کی اتھاہ
گہرائیوں میں پڑے ہیں تو یہ قصور روحانیت کا نہیں بلکہ خود ہمارا ہے کہ ہم اس
فائدہ کیوں نہیں اُٹھاتے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔