Topics
بندوں کے بندوں پر کیا حقوق ہیں۔ بندہ کس طرح اللہ کی مخلوق
کے کام آ سکتا ہے جبکہ وہ خود بھی مجبور و بے بس ہے۔ وضاحت کر دیں۔
جواب: اللہ رب العزت سارے جہانوں کی پرورش کرنے والا ہے۔ سب کی ضروریات کا کفیل ہے اور سب کا نہگبان ہے چناچہ جب ہم انسانوں سے بھلائی سے پیش آتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خوشوندی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ قرآن پاک نے ہم پر حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق پورے کرنا لازم و ملزوم کر دیا ہے اور اس کی بہت تاکید کی ہے۔
حقوق
العباد کی ادائیگی رشتہ داروں سے شروع ہوتی ہے جن میں والدین سب سے پہلے مستحق
ہیں۔ ماں باپ کی خدمت اور ان کی اطاعت اولین فیضہ ہے۔ اہل و عیال کے لئے حلالم رزق
کا حصول اور بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت بھی حقوق العباد میں سے ہے۔ اس کے بع
دوسرے رشتہ داروں اور پڑوسی کا نمبر آتا ہے۔ آخر میں تمام انسان حقوق العباد کے
دائرہ کار میں اتے ہیں۔ حقوق العباد میں مالی حق بھی ہے اور اخلاقی حق بھی۔ قرآن پاک
نے جا بجا اس کی حدود بیان کی ہیں اور اس کو ایمان کا جزو قرار دیا ہے۔ ارشاد باری
تعالیٰ ہے۔
نیکی
یہ نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لو لیکن
نیکی
یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اور اللہ پر اور قیامت کے
دن
پر اور فرشتوں پر اور آسمانی کتابوں پر اور نبیوں پر اور مال
دیتا
ہو اللہ کی محبت میں رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور مسکینوں
کو
اور مسافروں کو سوال کرنے والوں کو اور گردن چھڑانے
میں۔ (سورۃ البقرہ)
اگر ہم
اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ مالی لحاظ سے کسی کی مدد کر سکیں تو خدمت کے اور بھی
ذرائع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ہم ان کو لوگوں کے
فائدے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔
دین کا
بنیادی جذبہ خیر خواہی ہے چناچہ اگر ہم کسی کے لئے اچھائی نہیں کر سکتے تو اس کے
لئے بُرائی کے مرتکب بھی نہ ہوں۔ خیر خواہی کے لئے محض مالی حالت کا اچھا ہونا
ضروری نہیں ہے۔ لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، سلام میں پہل کرنا، کسی کی غیبت
نہ کرنا اور نہ سننا، اللہ کی مخلوق سے حسن ظن رکھنا ، لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کر
دینا، کسی ضعیف یا بیمار کو سڑک پار کرا دینا، بیمار کی مزاج پرسی کرنا، سڑک پر پڑے
پتھر یا کانٹوں کو راہ سے ہٹا دینا حقوق العباد کے زمرے میں اتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
روز نامہ جنگ، کراچی کے کالم ” قارئین کے مسائل“ اور ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کے ادارتی ” روحانی سوال و جواب “ کے کالمز میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ سے پوچھے گئے سوالات گو کہ تاریخِ اشاعت کے حساب پرانے ہیں لیکن معاشرے سے تعلق کی بنا پر ان کالمز پر وقت کی گرد اثر انداز نہیں ہوئی اور ان کی افادیت و اثر پذیری ترو تازہ ہے۔پیشِ نظر کتاب میں شامل کالمز حال کا قصہ نہیں،ماضی کی داستان بھی ہیں۔ یہ حالات حاضرہ کا مظاہرہ نہیں، مستقبل کے لئے راہنمائی کا ذریعہ بھی ہے۔قارئین اور محققین کے لئے اس کتاب میں ۹۲ کالمز کی شکل میں علم و آگاہی کا خزانہ ہے جو تفکر کی دعوت دیتا ہے لہذا کسی بھی دور میں ، کسی بھی وقت ان تحریرات پر غور و فکر سے حکمت کے موتیوں کا حصول ممکن ہے۔ ان کالمز میں بہت سارے موضوعات کو ایک ہی تحریر میں تسلسل کے ساتھ لکھا گیا ہے۔منطق سے سلجھائے اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھے بغیر سادہ طرز ِاسلوب کے ساتھ دریا کوزے میں بند ہے۔